پاکستان اور بھارت نے ایک جنگ اپنی اپنی سرزمین پر لڑ لی ہے اور اب دوسری جنگ کیلئے انہوں نے مختلف ملکوں میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلحہ کا استعمال ہو چکا‘ اب سفارتی محاذ پر لڑا جائے گا۔ بھارت نے سات کے قریب وفود بیرونِ ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ دنیا کو اپنے ساتھ ملا سکے کہ دیکھیں پاکستان بھارت میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ پاکستان نے بھی جواباً بلاول بھٹو کی قیادت میں اپنا وفد بیرونِ ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کہانی میں دو باتیں بڑی دلچسپ ہیں۔ اب تک بھارت بڑے فخر اور غرور سے کہتا چلا آیا ہے کہ اسے دنیا کی ضرورت نہیں‘ دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت کو آخرکار دنیا کی ضرورت پڑ ہی گئی تاکہ وہ پاکستان کے خلاف اپنا مقدمہ نئے سرے سے لڑ سکے۔ بھارت بھی غلط نہیں سوچ رہا تھا کہ دنیا کو اس کی ضرورت ہے اور اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو بہت پرانی اور دوسری وجہ کچھ نئی ہے۔ پرانی وجہ یہ ہے کہ بھارت کو یورپ اور امریکہ نے چین کے مقابلے پر کھڑا کرنا تھا ‘لہٰذا انہوں نے سوچا کہ اگر چین کا دنیا پر اثر و رسوخ کم کرنا ہے تو اسے بھارت کے ساتھ انگیج کیا جائے۔ بھارت بھی مغرب اور امریکہ کی یہ کمزوری سمجھتا تھا۔ اگرچہ نہرو صاحب نے بڑا عرصہ بھارت کو غیرجانبدار ملک رکھا اور بھارت سرد جنگ میں کسی بلاک کا حصہ نہ بنا۔ تاہم روایتی طور پر روس کی طرف اس کا جھکاؤ تھا اور اپنا جنگی ساز و سامان بھی روس سے لیتا رہا جبکہ پاکستان کی دفاعی ضروریات امریکہ پوری کرتا تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد بھارت نے دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً یورپ اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے جوڑا۔ امریکہ اور یورپ بھی یہی چاہتے تھے‘ لہٰذا جہاں بھارت اور مغربی ممالک کے مابین تجارتی معاہدے ہوئے وہیں انہوں نے بھارت کو اسلحہ بھی فراہم کرنا شروع کیا تاکہ بھارت کو چین کے مقابلے پر کھڑا کیا جائے۔ خصوصاً 2020ء میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں کو ایک دوسرے کی سخت ضرورت محسوس ہوئی۔ اسرائیل تو پہلے ہی سے بھارت کو اسلحہ دے رہا تھا مگر اب بھارت نے یورپی اور امریکی جنگی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ فرانس سے آٹھ ارب ڈالر کی رافیل جہازوں کی ڈیل ہو یا امریکہ سے جنگی ہیلی کاپٹرز اور اسرائیل سے ڈرونز کی خریداری۔ یوں بھارت اس دفعہ بہت پُرامید تھا کہ 2019ء کے برعکس 2025ء میں بھارت پاکستان کو رافیل جہازوں کی موجودگی میں سانس نہیں لینے دے گا۔ دنیا بھارت کے ساتھ کھڑی تھی کیونکہ مودی کے اب بہت سے عالمی رہنمائوں کے ساتھ ذاتی تعلقات بن چکے ہیں اور وہ تیسری دفعہ وزیراعظم ہیں۔
دوسری اور نئی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس موجود ہے جسے دیکھ کر دنیا کے ہر بڑے برانڈ کے منہ میں پانی بھر آ تا ہے اور وہ بھارت کی جائز و ناجائز باتیں ماننے پر راضی ہو جاتا ہے۔ فیس بک اور یوٹیوب تک کو بھی بھارت کے آگے جھکنا پڑا۔ یوں مارکیٹ اکانومی کے زور پر بھارت نے دنیا میں اپنی ساکھ بنائی اور ساتھ ہی خود کو امریکہ‘ روس اور یورپی یونین کے ہم پلہ تصور کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر لگایا اور یورپی سفیروں کو بریفنگ دی تو انہوں نے یقین کر لیا کیونکہ ان کے نزدیک بھارت کا یہی کہنا کافی تھا کہ وہ پاکستان کو اپنا ملزم سمجھتا ہے۔جب ان سفیروں نے بریفنگ میں بھارتی حکومت سے ثبوت مانگے تو جواب ملا کہ ہمارا یہ کہنا ہی سب سے بڑا ثبوت ہے۔ مطلب ہم امریکہ اور روس ہیں‘ اگر ہم کسی کو اپنا ملزم سمجھتے ہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہ کرے۔ جب یورپی سفیروں نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ پاکستان تو انکاری ہے‘ انہوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور غیرجانبدارنہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے‘ سو بھارت کو یہ بات ماننی چاہیے۔ اس پر بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے جواب دیا کہ یورپ ہمیں ان باتوں کا بھاشن نہ دے جس پر وہ خود عمل نہیں کرتا۔ ان کے کہنے کا مطلب تھا اگر امریکہ اور یورپ افغانستان‘ عراق‘ لیبیا وغیرہ پر براہِ راست حملے کر سکتے ہیں تو بھارت کیوں نہیں؟ یہی خود اعتمادی تھی جس کی وجہ سے بھارت نے کینیڈا اور امریکہ میں سکھوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جس پر وہاں شدید احتجاج ہوا اور عالمی رائے عامہ بھارت کے خلاف ہوئی۔
بھارت کو یقین تھا کہ پاکستان کے مقابلے میں اس کی ساکھ عالمی سطح پر بہت بہتر ہے خصوصاً ماضی میں پاکستان کی پرو طالبان پالیسی کی وجہ سے بھارت کیلئے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا بہت آسان تھا۔ بھارت سے عالمی رائے عامہ کو سمجھنے میں جو غلطی ہوئی وہ یہ تھی کہ ایک تو پاکستان نے فوراً اس دہشت گردی کی مذمت کی اور ساتھ ہی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے تعاون کا یقین دلایا‘ لہٰذا اس دفعہ دنیا کا رویہ پاکستان کیلئے مختلف تھا۔ دنیا کو یہ بات سمجھ آئی کہ پاکستان کا مؤقف درست ہے اور بھارت کے مؤقف کو درست نہ مانا گیا کیونکہ اس کے پاس پاکستان کے خلاف کوئی ثبوت نہ تھا۔
یوں بھارت کو پہلی دفعہ سفارتی محاذ پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ وہ صدر ٹرمپ جو کچھ روز پہلے تک اس معاملے میں غیر جانبدار کردار نبھا رہے تھے‘ وہ بھی واضح پوزیشن لینے پر مجبور ہو گئے۔ اگرچہ بھارت اب بھی امریکی مفادات کیلئے بہت اہم ہے‘ خصوصاً تجارتی نقطہ نظر سے لیکن صدر ٹرمپ نے جنگ بندی میں جو کردار ادا کیا اس سے بھارت شرمندہ ہے۔ بھارتی قیادت اپنے لوگوں کو یہ یقین دلا چکی ہے کہ انہیں دنیا کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا کو ان کی ضرورت ہے‘ لہٰذا اب دنیا میں کوئی بھی ملک بھارتی اپروچ سے ہٹ کر سوچے تو انہیں لگتا ہے کہ اس ملک نے بہت بڑی گستاخی کر دی ہے۔ اب بھارتی عوام اس بات پر خفا ہیں کہ ٹرمپ نے کیوں جنگ بندی کرائی۔ اب مودی صاحب بھی چپ ہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کو کیسے غلط کہیں جنہوں نے اپنی ٹویٹ میں ساری تفصیل لکھی تھی کہ کیسے وہ اور ان کی ٹیم رات بھر پاکستان اور بھارت کو جنگ بندی پر راضی کرتے رہے۔ صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ جنگ بندی انہوں نے کرائی جبکہ بھارت کہتا ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے آپس میں بات چیت کر کے کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ دونوں طرف سے ڈی جی ایم اوز کو ہاٹ لائن پر رابطہ کرنے پر قائل کس نے کیا ؟ یقینی طور پر ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطے کا اہم کام صدر ٹرمپ کا ہی تھا۔ اب بھارتی عوام وزیراعظم مودی پرتنقید کر رہے ہیں کہ آپ تو کہتے تھے کہ اب بھارت کانگریس والا بھارت نہیں رہا۔ اب چھپن انچ چھاتی والا شخص بھارت کا وزیراعظم ہے‘ لہٰذا اب مودی صاحب پھنس گئے ہیں کہ اگر وہ ٹرمپ کے اس کردار سے انکار کرتے ہیں تو بھی پھنستے ہیں اور اگر نہیں کرتے تو بھی پھنستے ہیں۔ اگرچہ اپنی تقریر میں اشاروں کنایوں میں انہوں نے اس سے انکار کیا لیکن کھل کر نام لینے کی ہمت اب بھی نہیں ہورہی۔
اب بھارت کا ششی تھرور اور دیگر وفود کو بیرونِ ملک بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید ششی تھرور جے شنکر سے زیادہ اچھی انگریزی بول کر گوروں کو بھارتی مؤقف سمجھا سکتے ہیں۔ ششی تھرور عالمی سطح پر جے شنکر سے زیادہ جانے جاتے ہیں کیونکہ وہ چند کتابوں کے مصنف ہیں اور بڑے اچھے مقرر بھی ہیں۔ اصل سوال مگر یہ ہے کہ وہ پہلگام واقعے کے حوالے سے ایسا کون سا ثبوت ہے جو ششی جی کے ہاتھ لگ گیا ہے جس تک جے شنکر کی رسائی نہ تھی جس وجہ سے دنیا نے ان کی بات نہ سمجھی یا مانی اور اب ششی تھرور وہ دنیا سے منوا لیں گے۔ ششی تھرور بھارتی حکومت کا وہ مُکا ہے جو اسے پاکستان سے لڑائی کے بعد یاد آیا ہے۔