"RKC" (space) message & send to 7575

The Better Angles

چند برس قبل امریکہ میں اپنے ماہر امراضِ قلب دوست ڈاکٹر احتشام قریشی کے گھر پر ان کی کتابوں کی الماری دیکھ رہا تھا۔ وہ ہمارے مہربان ڈاکٹر عاصم صہبائی کی طرح اُن چند ڈاکٹروں میں سے ہیں جو کتاب خریدتے اور پڑھتے بھی ہیں۔ میں نے ان کے گھر میں ہمیشہ شاندار کتابیں دیکھی ہیں اور ان کی پسند کی داد دی ہے۔ ہوسکتا ہے بہت سے لوگ کتابیں پڑھتے ہوں لیکن بہت کم ہوتے ہیں جن کے گھر میں ایسی کتابیں موجود ہوں کہ آپ کے منہ میں پانی آجائے اور آپ بھی وہ کتاب خریدنا چاہیں۔
ہر بندے کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے کہ کون سی کتابیں اس کے مزاج کو پسند آتی ہیں۔ اس لیے میں دوسروں کو کسی کتاب کا مشورہ نہیں دیتا بلکہ اگر کوئی پوچھ لے تو کہہ دیتا ہوں کہ آپ خود کتابوں کی دکان پر جائیں‘ وہاں کتابوں کے درمیان وقت گزاریں‘ان کے عنوان پڑھیں اور جو دلچسپ لگے اسے اٹھا کر اس کے پسِ ورق کو پڑھیں۔ وہ دلچسپ لگے تو اس کے موضوعات کی فہرست دیکھ لیں۔آپ کا مزاج آپ کو بتا دے گا کہ وہ کتاب آپ کو اچھی لگی ہے یا نہیں۔ وہی خرید لیں‘ وہی کتاب آپ کا مزاج ہے اور آپ کو پسند آئے گی۔ لیکن ڈاکٹر احتشام کے پاس اکثر کتابیں ایسی دیکھیں جو واقعی بہت اچھی تھیں اور بعد میں ڈاکٹر احتشام نے مجھے خرید بھی دیں۔ انہوں نے مجھے اپنی کتابوں کی الماری سے بھی ایک کتاب نکال کر دی اور کہا کہ شاہ جی باقی چھوڑیں اس کتاب کو ضرور پڑھنا ہے بلکہ آپ رکھ لیں‘ میں کوئی کاپی خرید لوں گا۔
ان کی الماری میں ہی میں نے پہلی دفعہ بھارت سے چھپنے والے رسالے ''اثبات‘‘ کی کاپی دیکھی جو اشعر نجمی صاحب چھاپتے ہیں۔ احتشام بھائی کافی دیر تک تعریف کرتے رہے تو میں نے کہا مجھے اس کی کاپی کرا دیں۔ انہوں نے جس مشکل سے میرے لیے کاپی کا بندوبست کیا وہ اپنی جگہ بڑی کہانی ہے۔ لیکن مجھے کہنے دیں اس کا دیباچہ اتنا دلچسپ تھا کہ میں کئی دن تک اس میں کھویا رہا۔ پاکستان پہنچ کر وہ رسالے علی اکبر ناطق کی مہربانی سے ڈھونڈے اور پڑھے۔اشعر نجمی صاحب جیسا ذہن بھی اس خطے میں کم ہی ملے گا۔
خیر میں دوسروں کی الماری سے کتاب لینے کے سخت خلاف ہوں۔ مجھے علم ہے کہ جس نے وہ کتاب خریدی ہے وہ اسے پسند ہے۔ اس نے وہ کتاب بڑی محنت سے ڈھونڈی ہو گی۔ پھر اس پر پیسے خرچ کیے ہوں گے۔ اسے پڑھا ہوگا یا ابھی پڑھنا ہوگا اور رکھ دی ہوگی۔ بعض کتابیں آپ خرید لیتے ہیں کہ ہاتھ سے نہ نکل جائیں اور بعد میں وقت ملنے پر پڑھ لیں گے۔
مجھے ڈاکٹر احتشام نے اپنی الماری سے جو کتاب نکال کر دی تھی اس کا ٹائٹل دیکھ کر مجھے کوئی دلچسپی محسوس نہ ہوئی۔ مجھے لگا کہ یہ کتاب کسی موٹیویشنل سپیکر نے لکھی ہے اور اکثر ایسی کتابیں بڑی بکتی ہیں۔ کتاب کا نام تھا: The Better Angels of Our Nature: Why Violence Has Declined۔ ڈاکٹر احتشام نے میری چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہا یہ وہ کتاب نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ یہ اُن چند کتابوں میں سے ہے جسے بل گیٹس تک نے پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ کتاب آپ کی سوچ بدل کررکھ دیتی ہے۔ یہ آٹھ سو صفحوں کی کوئی عام کتاب نہیں بلکہ یوں سمجھ لیں کہ پانچ ہزار سال پرانی انسانی تاریخ اور انسان کی سٹڈی ہے اور یہ آپ کے سوچنے کے انداز کو بدل دیتی ہے۔میں نے یہ بات سُن کر پہلی دفعہ کتاب کو غور سے دیکھا اور اس کا پسِ ورق پڑھنا شروع کیا اور پھر اندر گیا اور اس کا تعارف پڑھتا ہی چلا گیا۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ میں کتنا وقت وہاں کھڑا اس کتاب کو پڑھتا رہا۔ مجھے ڈاکٹر احتشام کی موجودگی تک بھول گئی اور میں اس وقت چونکا جب وہ کچھ دیر بعد میرے لیے گرما گرم کافی کا ایک مگ تھامے مسکرا کر کہہ رہے تھے : شاہ جی رکھ لیں اس کتاب کو۔ میں نے چونک کر ان کے ہاتھ سے کافی کا مگ لیا اور کہا: شاہ جی یہ تو نہیں لوں گا۔ چلیں گاڑی نکالیں اور مجھے نئی خرید دیں اور تھوڑی دیر بعد ان کی گاڑی کا رخ بارنز اینڈ نوبلز کی طرف تھا۔
اس کتاب کو پڑھ کر میرے اپنے اندر بہت تبدیلیاں آئیں جس سے لوگوں کو لگا کہ میں بدل گیا ہوں‘ یا شاید صحافی ہونے کے ناتے بک گیا ہوں۔ مجھ میں وہ پہلے والی بات نہیں رہی تھی۔ جی ہاں وہ درست کہتے تھے کہ میرا دنیا‘ اپنے اردگرد‘ اپنے ملک‘ یہاں کے لوگوں اور اداروں کو دیکھنے کا انداز بدل گیا۔ میری طبیعت سے جارحانہ پن‘ افسردگی‘ قنوطیت پسندی‘ ہر وقت کی تنقید اور ناشکری ختم ہوگئی۔ مجھے لگا کہ مجھے ایک نئی زندگی ملی ہے اور مجھے اپنے اردگرد لوگ اور ماحول اچھا لگنا شروع ہوگیا۔ مجھے لگا کہ میں اب تک کتنی ناشکری اور مایوسی کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس لیے اب بہت سے لوگ جب مجھے ملتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے ملک کا کیا بنے گا‘ ہم برباد ہوگئے‘ تباہ ہوگئے‘ اور حالات کا رونا دھونا شروع کرتے ہیں تو میں بڑے سکون سے ان کا چہرہ دیکھتا رہتا ہوں اور مجھے یہی کتاب یاد آتی ہے۔ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ پر ہزاروں دستاویزات اور مختلف انسانی ادوار کا مطالعہ کر کے 800 صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب لکھی گئی جو آپ کو اپنے ہونے پر شکر گزاری پر مجبور کر دے اور آپ خود کو خوش قسمت انسان سمجھیں کہ آپ اس دور میں زندہ ہیں جسے اس کتاب کا مصنف ہزاروں سال کی انسانی تاریخ کا سب سے خوبصورت دور سمجھتا ہے۔
وہ ان تمام آٹھ ارب لوگوں کو خوش قسمت سمجھتا ہے جو اس دور میں زندہ ہیں۔ ذہن میں رکھیں کہ یہ کتاب 2011ء میں لکھی گئی تھی‘ چودہ برسوں میں دنیا مزید بدل گئی ہے اور انسان مزید سہولتوں اور عیاشی والی زندگی کی طرف گیا ہے‘ لیکن یہ بات کسی کو بتائیں کہ وہ خوش قسمت ہے کہ اس دور میں زندہ ہے تو وہ آپ کو عجیب نظروں سے دیکھے گا۔ اگر آپ صحافی ہیں اور آپ سے کوئی پوچھے کہ کیا چل رہا ہے اور آپ اسے کہیں کہ تم شکر کرو کہ اس دور میں زندہ ہو تو وہ آپ کو لفافہ صحافی قرار دے دے گا۔ وہ آپ سے اس ملک‘ معاشرے‘ حکمرانوں اور ان سے زیادہ امیر یا اچھی زندگی گزارنے والوں کے بارے برائی سننا چاہتا ہے۔ اسے اپنی زندگی عذاب لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کا مصنف کہتا ہے کہ آج کا انسان خود کو ہزاروں سال پہلے کے انسان کی جگہ رکھ کر نہیں سوچ سکتا‘ لہٰذا اسے اپنا حال بہت برا لگتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ماضی کے لوگ اس سے اچھے تھے کیونکہ وہ اس دور میں زندہ نہیں تھا۔
میں اکثر لوگوں سے پوچھ لیتا ہوں کہ ان کی زندگی دس سال پہلے اچھی تھی یا آج ؟ دس سال پہلے زندگی زیادہ آسودہ تھی یا آج ہے؟ وہ جھجک کر کہتے ہیں کہ آج ہم بہتر ہیں لیکن ساتھ ہی وہ مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ میں اس ملک‘ معاشرے‘ سب کو برا بھلا کہوں کہ انہوں نے ان کی زندگی مشکل کر دی ہے۔ وہ مجھ سے منفی گفتگو سننا چاہتے ہیں۔ منفی سوچ ہمیشہ جلدی بکتی ہے۔ مثبت سوچ کو لوگ برداشت نہیں کرتے۔ ان کے ساتھ رونا دھونا شروع کر دیں تو آپ اچھے صحافی کہلاتے ہیں۔
میرا ایک دوست کہا کرتا تھا کہ تم وہی سودا بیچو جس کے مارکیٹ میں گاہک ہیں۔ طلب اور رسد کے اصول پر چلو اور مال بنائو۔ لوگ سننا چاہتے ہیں کہ وہ برباد ہوگئے‘ تباہ ہوگئے‘ حکمران لوٹ کر کھا گئے‘ انہوں نے ہماری زندگیاں اجیرن کر دیں۔ انہیں تاریکی اور اندھیرے سے بھرپور مستقبل کی شکل دکھائو اور پھر دیکھو کہ وہ تمہیں کیسے سر پر بٹھائیں گے۔ ایسے وی لاگز میں ڈالرز چھاپو۔اُس دوست کے کہنے پر ایک آدھ بار ایسا کرنے کی کوشش کی تو یہ کتاب میرے سامنے آن کھڑی ہوئی اور افسردگی سے پوچھا کہ اگر تم نے یہی سب کچھ کرنا تھا تو ڈاکٹر احتشام کے ڈالرز اور میرے آٹھ سو صفحات کیوں ضائع کرائے تھے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں