آپ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں سے نیچے ہال میں ارکان اسمبلی کو دیکھیں‘ ان کی تقریریں سنیں اور مسائل پر بات چیت کا معیار دیکھیں‘ آپ کو لگے گا وقت رک سا گیا ہے۔ مجھے یہ احساس اس لیے بھی زیادہ ہوتا ہے کہ اس پارلیمنٹ کو کَور کرتے ہوئے مجھے تئیس برس ہو گئے ہیں۔ 2002ء سے اب 2025ء تک میں نے آٹھ باقاعدہ وزیراعظم اور پانچ نگران وزرائے اعظم کا دور دیکھا ہے۔ اس دوران پانچ اسمبلیاں دیکھیں اور ان کی رپورٹنگ کی ہے۔ ان برسوں میں کچھ خواب ٹوٹے تو کچھ نئے دیکھے بھی۔ کبھی کبھار لگتا ہے کہ پاکستانی سیاستدان اچھی سیاست اسی وقت کر سکتے ہیں جب وہ مارشل لاء دور میں آمریت کے خلاف مل کر جدوجہد کر رہے ہوں۔ اگر سیاستدانوں کی کسی دور میں عوام یا میڈیا نے کچھ عزت کی یا انہیں اپنے سر پر بٹھایا تو وہ آمرانہ دور تھا۔ اس وقت سیاسی ایمانداری اور جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ کا معیار بہت اونچا تھا۔ ان کی انقلابی باتیں سن کر لگتا تھا کہ اگر یہ لوگ واپس اقتدار میں آئے تو شہد اور دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔ جمہوریت اور جمہوری رویوں کا بول بالا ہوگا۔ ایمانداری آسمان کو چھوئے گی اور ایک نیا دور شروع ہوگا۔ معاف کریں مگر مجھے کہنے دیں کہ 2007ء تک یہی لگتا تھا‘ لیکن 2008ء کی اسمبلی کو دیکھنے کے بعد یہ رومانس بھی ختم ہوا کہ سیاستدان اس ملک میں نئی شروعات کی بنیاد رکھیں گے۔ اس دوران جتنے برے تجربات ہوئے‘ اس کے بعد یوں کہہ لیں کہ دل ہی بھر گیا۔ ایسے ایسے چہرے بے نقاب ہوئے کہ یقین نہیں آتا کہ یہی وہی لوگ ہیں جو جنرل پرویز مشرف دور میں اکٹھے جدوجہد کرتے رہے۔ بہت سارے لوگ مجھے اکثر کہتے ہیں کہ آپ سیاستدانوں کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی سخت اپروچ رکھتے ہیں۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ کوئی کسی سیاستدان کو گھر سے بلانے نہیں جاتا اور نہ ہی مجھے کسی نے کہا کہ آپ صحافی بنو۔ ہم خود اس پیشے میں آئے ہیں‘ اپنی مرضی سے۔ اگر کوئی سیاستدان بن رہا ہے تو وہ اس معیار پر بھی پورا اترے اور وہ کل کلاں ہمیں بہانے نہ سنائے کہ فلاں نے کام نہیں کرنے دیا۔ کب تک مجبوری کی کہانیاں سنا کر اپنی غلطیوں کے جواز ڈھونڈے جائیں گے؟ خیر‘ پریس گیلری سے بیرسٹرگوہر کی تقریر سنتے ہوئے خیال آیا کہ ان 23برسوں میں ایک ہی تقریر ہے جو ہمیشہ سے سنتا آ رہا ہوں اور ہر دفعہ وہی تقریر یہاں دہرائی جاتی ہے۔
ایم کیو ایم کے ایم این ایز نے یہاں الطاف حسین کی ذہانت‘ قیادت‘ اعلیٰ ظرفی اور ایمانداری کی وہ وہ کہانیاں سنائی تھیں کہ آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ پھر نواز شریف اور آصف زرداری کے حامی بھی ان کی عظمت کی قصے کہانیاں سناتے رہے کہ ان جیسا عظیم کوئی نہیں تھا۔ عمران خان اس وقت ان سب کے حامیوں کا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ زندہ لاشیں ہیں اور ان کے لیڈران جب تک پہلے الطاف حسین‘ نواز شریف یا آصف زرداری کے نام کی تسبیح نہ پڑھ لیں‘ یہ نہ تو ٹی وی پر بات کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسمبلی میں تقریر۔ اب وہی سلسلہ خان کی پارٹی نے بھی شروع کر دیا ہے۔ اگر آپ نے اسمبلی میں تقریر کرنی ہے تو آپ کو عمران خان کے نام سے شروع کرنا پڑے گی یا آصف زرداری‘ بلاول اور نواز شریف وغیرہ۔ اگر آپ کی تقریر میں ان کا نام بار بار نہیں آرہا اور آپ ان کو کریڈٹ نہیں دے رہے تو پھر آپ کا سیاسی کیریئر ختم ہے۔ اس لیے جب بیرسٹر گوہر مسلسل عمران خان کی تسبیح پڑھ رہے تھے تو مجھے جہاں خان صاحب کی ایم کیو ایم کے لیڈروں پر کسی گئی پھبتی یاد آرہی تھی‘ جنہیں وہ زندہ لاشیں کہتے تھے‘ وہیں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ بعض دفعہ بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی محض اپنی سیٹ کیلئے کیا کیا گفتگو یا کیا کیا حرکتیں کرتے ہیں۔
میری پی ٹی آئی میں جن چند لوگوں کے بارے میں اچھی رائے رہی ہے‘ ان میں بیرسٹر گوہر بھی شامل تھے لیکن ان کی اسمبلی میں کی گئی تقریر سے اندازہ ہوا کہ وہ بھی اس رنگ میں رنگے گئے ہیں جہاں آپ کو بادشاہ کی ہر صورت خوشامد کرنا پڑتی ہے اور ایسی خوشامد کہ الامان۔ قومی اسمبلی میں اچھی خاصی تقریر کرتے کرتے پتا نہیں انہیں کیا ہوا کہ کہنے لگے کہ پاکستانی مائیں جتنا پیار عمران خان سے کرتی ہیں اتنا وہ اپنے بچوں سے بھی نہیں کرتیں۔ اب یہ سن کر ہر طرف ایک سناٹا سا چھا گیا کہ واقعی پاکستانی ماؤں کے نزدیک عمران خان زیادہ عزیز ہے۔ بیرسٹر گوہر کو لگا کہ شاید ابھی بات مکمل نہیں ہوئی۔ اسی سانس میں کہا: اور پاکستانی مائیں عمران خان اور بشریٰ بیگم کیلئے جو دعائیں مانگتی ہیں وہ اپنی سگی اولاد کیلئے بھی نہیں مانگتیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سچ کہہ رہے ہوں کہ کچھ مائیں واقعی عمران خان کو اپنے بچوں سے بھی زیادہ عزیز سمجھتی ہوں لیکن کیا پاکستان کی سب مائیں ایسی ہیں جنہیں اپنی اولاد سے زیادہ عمران خان یا بشریٰ بیگم عزیز ہیں جن کیلئے وہ دعائیں کرتی ہیں اور اولاد بھی ان کے سامنے اپنی حیثیت اور مقام کھو چکی ہے؟
خوشامد کے اس کلچر سے یاد آیا کہ برسوں پہلے نواز شریف کی حکومت بنی تو ایک سینیٹر جو اپنی سیدھی اور کھری کھری گفتگو کیلئے مشہور تھے‘ انہیں وزیر نہ بنایا گیا۔ وہ بھی اپنے مزاج کی وجہ سے ان چیزوں کے زیادہ شوقین نہ تھے کیونکہ وہ جو بات ٹھیک سمجھتے تھے وہ سیدھی منہ پر کہہ دیتے تھے۔ یار دوستوں اور گھر والوں نے انہیں سمجھایا کہ ذرا زبان پر قابو رکھا کریں‘ آپ بھی تھوڑی سی خوشامد کر لیا کریں۔ میاں صاحب کو منہ پر ہر بات نہ کہہ دیا کریں‘ ان کو خوش کرنے کیلئے چند تعریفی الفاظ کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ صاحب اگرچہ راضی نہ تھے لیکن سب کے اصرار پر مان گئے کہ چلیں اگلی دفعہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا یا کوئی میٹنگ تو وہ کوشش کریں گے کہ میاں صاحب کو کوئی سخت بات نہ کریں بلکہ تھوڑی بہت خوشامد بھی کر لیں جس سے نواز شریف خوش ہو جائیں اور شاید کابینہ میں ان کی کوئی جگہ بن جائے۔ کچھ عرصے بعد پارلیمانی پارٹی کے ایک اجلاس میں وہ شریک تھے۔ وہاں سب ارکان نے باری باری میاں صاحب کی تعریفیں شروع کر دیں۔ اب وہ صاحب خود کو تیار کر رہے تھے کہ انہوں نے میاں صاحب کی کیا تعریف کرنی ہے تاکہ نواز شریف کے دل سے یہ بات نکل جائے کہ وہ ان کی تعریف نہیں کرتے۔ خیر ان کی باری آئی تو وہ کچھ دیر تک میاں صاحب کی تعریف کرتے رہے لیکن انہیں محسوس ہوا کہ بات بن نہیں رہی۔ پھر انہیں ایک خیال آیا اور وہ پُرجوش انداز میں بولے: میاں صاحب! آپ عوام میں اتنے مقبول ہیں کہ آپ کے مخالفین دور دور تک آپ کو نہیں پہنچ سکتے۔ یقین کریں اگلا الیکشن بھی آپ ہی جیتیں گے‘ آپ کو کوئی مائی کا لعل نہیں ہرا سکتا‘ اگلی بار بھی آپ ہی وزیراعظم بنیں گے۔ جونہی وہ سانس لینے کو رکے تو ایک صاحب‘ جو کبھی فارن آفس سروس سے ریٹائرڈ ہوئے تھے اور میاں صاحب کے قریب تھے‘ وہ اچھل کر بولے: صاحب! کیا بات کرتے ہیں؟ صرف اگلا الیکشن...؟ میاں صاحب اب تاحیات الیکشن جیتیں گے‘ اب یہ عمر بھر ہمارے وزیراعظم ہیں۔ یہ سن کر میاں صاحب کے چہرے پر خوشی پھیل گئی اور انہوں نے ان صاحب کو دیکھا جو انہیں صرف اگلا الیکشن جتوا رہے تھے۔ بعد میں ان سینیٹر صاحب نے اپنے دوستوں کو کہا کہ اب بتاؤ! میں ان خوشامدیوں کا بھلا کہاں مقابلہ کر سکتا ہوں‘ میری جگہ کہاں بنتی ہے اس دربار میں۔اب مجھے بھی پی ٹی آئی کی دوستوں سے ہمدردی ہو رہی ہے کہ بیرسٹر گوہر کے اس حیران کن چھکے کے بعد کہ عمران خان کو پاکستانی مائیں اپنی اولاد سے زیادہ پیار کرتی ہیں اور اولاد سے زیادہ دعائیں دیتی ہیں‘ وہ کیا نیا سکور کریں گے۔ ہے کوئی پی ٹی آئی میں جو بیرسٹر گوہر سے آگے بڑھ کر ہٹ کر کے بال میدان ہی سے باہر پھینک دے؟ جیسے میاں صاحب کے سامنے فارن آفس کے سابق افسر نے پھینک دی تھی اور سینیٹر صاحب ہکا بکا اسے دیکھتے رہ گئے تھے؟