"FBC" (space) message & send to 7575

توہین عدالت قانون : تلوار یا ڈھال؟

سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت پر ملنے والی سزا ورنااہلی ،پھر طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو توہین عدالت کے نوٹس جاری ہونے پر پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سیاسی ترجمانوں میں سراسیمگی محسوس کی جا رہی ہے۔یا کم از کم شریف خاندان کے وفادار اس ٹولے کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے جن کا خیال تھا کہ عدالت عظمیٰ اور اس کے معزز جج صاحبان کی مسلسل توہین کرکے وہ اپنے سیاسی آقا اور اس کی دختر نیک اختر کے منظور نظر بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
چنانچہ گزشتہ چند دنوں سے پاکستان کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے :توہین عدالت قانون کے واضح خدوخال یا اس کا دائرہ کار کیا ہے،اور (بامرمجبوری)عدالت کو اس کا استعمال کب کرنا چاہئے ؟کیا توہین عدالت قانون سے کسی فر د کی جائز تقریر پر بھی قدغن لگائی جا سکتی ہے؟خصوصاً کسی عدالتی فیصلے پر تنقید اور ایک جج پر تنقید میں حد فاصل کیا ہے؟کیا جمہوری آزادیوں کی آڑ میں ججوں پر تنقید کا حق بھی ودیعت ہو جانا چاہئے؟کیا عدالتوں کو بہر صورت توہین عدالت کے معاملات میں غیر معمولی حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے یااس معاملے میں تحمل وبرداشت سے کام لینا چاہئے ؟یا جیسا کہ مریم نواز نے گوجرانوالہ میں اپنے حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ اگر''توہین عدالت پر سزا مل سکتی ہے تو کیا ووٹ یا پارلیمنٹ کی توہین پر بھی تادیبی نتائج کا سامنا ہونا چاہئے یا نہیں؟ 
ان سوالات پر ایک سیر حاصل اور دانشمندانہ بحث کی ضرورت ہے۔مگر اس بحث سے قبل نہال ہاشمی کے مقدمے کا ایک سرسری جائزہ لینا مناسب ہوگا۔اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ نہال ہاشمی نے 28مئی 2017ء کو کراچی میں تقریر کرتے ہوئے شریف خاندان کی تفتیش کرنے والوں کو صریح الفاظ میں دھمکیا ں دیں۔خاص بات یہ کہ وہ اور ان جیسے شریف خاندان کے دیگروفادارکارکن ایسے افراد (اور ان کے اہل خانہ ) پر پاکستان کی زمین تنگ کر دیں گے اور ان کے بچوں کا پاکستان میں جینا محال کر دیا جائے گا۔ 
اس تقریر کے بعد سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیاجس کے بعد وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے مگر پہلی سماعت پر انہوں نے غیر مشروط معافی نہ مانگی۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت '' under Section 3 of the Contempt of Court Ordinance2003 (Ordinance 5 of 2003)read with article 204(2)‘‘فیصلہ سناتے ہوئے انہیںایک ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔معزز عدالت نے مزید لکھا کہ اس سزا کے بعد نہال ہاشمی آئین کے آرٹیکل 63(1)(g)کے مطابق پانچ سال کے لیے رکن پارلیمنٹ بننے کے بھی نااہل ہو گئے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے اس امر کوبھی پیش نظررکھا کہ معمول کے مطابق اگر توہین عدالت کا مرتکب ملزم پہلی سماعت پر ہی غیر مشروط معافی اور دلی معذرت کا اظہار کرے تو عدالت اسے معاف کردیتی ہے۔ تاہم نہال ہاشمی نے ایسا نہیں کیا اور سماعت شروع ہونے کے سات ماہ بعداس وقت معافی مانگی جب تمام تر شہادتی کارروائی مکمل ہو چکی تھی۔ ان حالات میں سپریم کورٹ نے ان کی معافی کو محض ایک (Afterthought)قرار دیتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔تاہم ا ن کی طرف سے تاخیر سے کی گئی معذرت ،ان کی ساٹھ سال عمر اور تیس سال سے پیشہ وکالت سے وابستگی کی بنا پر اس جرم کی زیادہ سے زیادہ (چھ ماہ قید)کی سزا نہیں دی گئی۔
فیصلہ آنے کے بعد جونہی نہال ہاشمی کو جیل لے جایا گیا تو وہ عارضہ قلب میں مبتلا ہو گئے(جو آج کل اہم شخصیات کا وتیرہ بن چکا ہے)اور اب ہسپتال میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔جہاں تک عارضہ قلب کا تعلق ہے تو جب سے سپریم کورٹ کے خلاف توہین آمیز شعلہ بیانی کے بعد عدالت کی طرف سے نوٹس جاری ہوئے ہیں،کچھ اور لوگ بھی (بشمول طلال چوہدری اور دانیال عزیز)طبی معائنے کے لیے ڈاکٹروں سے رابطے کر رہے ہیں ۔تاہم طلال چوہدری کی وقعت اپنے سیاسی مرشد کی نظروں میں اس وقت اوربھی بڑھ گئی جب انہوں نے معزز جج صاحبان کا موازنہ کعبہ میں رکھے بتوں سے کر ڈالا اور کہا کہ نواز شریف کو چاہئے کہ وہ ان بتوں کو عدالت کے مقدس ایوان سے نکال باہر کریں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جب وہ بت انہیں طلب کریں تو وہ اپنے بیان پر قائم رہتے ہیں یا نہیں۔
اب دوبارہ توہین عدالت کے قانون اور معزز عدالت کی طرف سے اس کے استعمال کی طرف آتے ہیں۔پہلے یہ جان لیں کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 19کی رو سے آزادیٔ تقریر و اظہار کو بنیادی حق قرار دے کر تحفظ دیا گیا ہے۔تاہم دیگر آئینی جمہوریتوں کی طرح پاکستان میں بھی آزادیٔ اظہار غیر مشروط نہیں ہے بلکہ یہ توہین عدالت جیسی حدود و قیود کے تابع ہے۔اسی طرح آئین کاآرٹیکل 204عدالتوں کو ایسے فر دکو سزا دینے کا اختیار دیتا ہے جو کسی عدالت کے خلاف کوئی سکینڈل یا کسی جج کے خلاف نفرت پھیلائیںیا عدالت کی توہین کے مرتکب ہوں۔
پاکستان کے عوام (اور ان کے منتخب نمائندوں )نے آئین اس طرح بنایا ہے جو کسی پارلیمنٹ کو نہیں صرف عدالتوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔اس ضمن میں اگر مریم صفدر صاحبہ کو کوئی مسئلہ ہو رہا ہے تو انہیں اس کا شکوہ اپنے والد محترم سے کرنا چاہئے جو گزشتہ تین عشروں سے اس پارلیمنٹ کے رکن رہے ہیں اور انہیں ایک مرتبہ بھی اس آئینی فریم ورک پر نظر ثانی کا خیال نہیں آیا۔
توہین عدالت کے نام پر آزادیٔ اظہار کی قربانی کا جواز دو مختلف مگر باہم منسلک تصورات میں ڈھونڈا جا سکتا ہے(1)کسی جج کو سیکنڈلائز کرنا یا اس کی تضحیک کرنا خاص طور پر اس کی ذات یا اس کی راست بازی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا اور مسند انصاف کے بارے میں عوام یا سائلین کے اعتماد کو مجروح کرنا(2)ایک جج (کوئی بھی جج) عدالتی ضابطہ اخلاق کی رو سے ذاتی الزامات کاعوامی سطح پر کوئی جواب نہیں دے سکتا اس لیے اسے الزام تراشیوں سے تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے۔چنانچہ ججوں کو عدالت اور اپنا ذاتی وقار برقرار رکھنے کے لیے توہین عدالت پر کارروائی کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ 
اپنے تمام تر قانونی اور اخلاقی جواز کے باوجود توہین عدالت پر کارروائی کے اختیار کے غلط استعمال کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ماضی قریب میں اس کی مثالیں موجود ہیں جب جسٹس افتخارچوہدری کی عدالت نے اپنی مخالف آوازیں بند کرانے کے لیے اس قانون کا استعمال کیا تھا۔اس میں کوئی دو آرا ء نہیں کہ توہین عدالت کے قانون کی تلوارکو اختلافی نقطہ نظر کو دبانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بجائے اسے ہمارے عدالتی نظام کی غیر جانبداری اور وقار کے تحفظ کی خاطرہمیشہ ایک آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ہماری معزز عدالت نے حالیہ مقدمات میں قانون توہین عدالت کو اپنے مخالف نقطہ نظر کو دبانے کے لیے استعمال کیا ہے ؟یا اس اختیار کو اس امر کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ متعصبانہ جذبات کو مسند انصاف پر عوام النا س کے اعتماد کو مجروح کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔اس سوال کا جواب مریم صفدر یا ان کے حواریوں کے سوا کسی بھی غیر جانبدار حلقے سے آئے تو یہ بلا شبہ تضحیک کا ہدف عدالت اور اس کے ججوںکے لیے مفید ہوگا۔ 
ہماری سیاست اور عدلیہ دونوں آج کل ایک مشکل دور سے گزر رہی ہیں۔ ماضی میں ہماری سیاست اور عدلیہ کی محاذ آرائی سے ملکی آئین اور قانون کو نقصان پہنچا ہے۔تمام تر متعصبانہ ترجیحات کے باوجود ایسی تمام کوششوں کا راستہ روکنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے فوری سیاسی مقاصد اور مفادات سے ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔نیز یہ کہ ہمیں اپنی آئینی حدود کے تحفظ کے لیے مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تبھی ہماری آئینی جمہوریت اس عارضی سیاسی بحران سے بچ نکلنے کے قابل ہو سکتی ہے۔
بعد از تحریر : اگر مریم صفدر سمجھتی ہیں کہ نہال ہاشمی کو سزا ہوجانے بعد بھی لوگ توہین عدالت کرکے نااہل ہونے کا خطرہ مول لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہوگی۔اپنے فوری سیاسی مفادات (وزارتوں )کے حصول کے لیے ان کی وفاداری کا دم بھرنے والے لوگ کسی طور قابل بھروسہ نہیں ہیں۔دانشمندی کا تقاضا ہے کہ وہ ماضی قریب کو یاد کریںجب یہی لوگ اسی جوش وجذبے سے پرویز الہیٰ اور جنرل پرویز مشرف کے گن گا رہے تھے اور ان کی گاڑیوں کے آگے رقص کناں تھے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں