"FBC" (space) message & send to 7575

امام ِعالی مقام ؓکا پیغام ِحریت

آج تک انسانوں کو جتنے بھی سانحات کا سامنا کر نا پڑا ہے ان میں سے کوئی بھی سانحہ کربلا اور اس کے ابدی نظریے سے زیادہ ناقابلِ فراموش نہیں۔جو لوگ کربلا اور اس کے پیغام کی یاد مناتے ہیں انہوں نے بھی اس کی وسعتوں کو محرم کے پہلے دس روز تک محدود کر رکھا ہے۔ہم جب کبھی محرم الحرام اور امام عالی مقام ؓسے رجوع کرتے ہیں تو ہمیں اس پیغام کی آفاقیت کا احساس دلایا جاتا ہے جس نے کربلا سے پہلے بھی‘ دو رِ حاضر میں بھی اور آنے والے دنوں میں بھی ہماری زندگیوں کو اپنے جلو میں لے رکھا ہے۔
ہمیں بار بار اس بات کاتذکرہ ملتا ہے کہ امام عالی مقام ؓنے محرم کے ان دس دنوںمیںآخری معرکے تک متعدد بار یزید ی لشکر سے خطاب کیاتھا اور اسے صراطِ مستقیم پرچلنے کی نصیحت فرمائی تھی۔آپؓ نے بار با رانہیں یہ احساس دلایا کہ آپ نواسئہ رسول اوران کے دین کے حقیقی وارث ہیں۔آپ کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دینِ اسلام کی اساس ہے۔ آپؓ نے فرمایاکہ میں کسی سے جنگ وجدل کے لیے نہیں آیا۔ میں اور میرے مقربین جنگ یا خونریزی نہیں چاہتے۔ امام عالی مقامؓ رسول اللہﷺ کے دین کے حقیقی وارث اور محافظ کے طورپر کسی بھی صورت یزید کی بیعت نہیں کر سکتے تھے۔کئی رو ز کی بھوک پیاس‘گرمی‘ شدت ِغم‘خواتین اور بچوں کی ہمراہی میں خونریزی سے بچنے کی آخری کوشش کے طورپر آپؓ ؓنے یزیدی لشکر سے اپنے آخری خطاب میں فرمایا کہ ''اگرتم اللہ تعالیٰ اورآخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے تو کم از کم اس دنیا میں تو خود کو آزاد کرلو۔ امام عالی مقام ؓیہ جان چکے تھے کہ یزیدی لشکر (حضرت حرؓ کے استثنا کے ساتھ) اپنے دنیاوی خدائوں کو چھوڑ کردینِ حق کی پیروی پر آمادہ نہیں ہوگا۔ اتمامِ حجت کے طور پرآپؓ نے ایک مرتبہ پھر اس لشکر سے مخاطب ہوکراسے ہدایت فرمائی کہ ''کم از کم خود کوغلامی کی زنجیروں سے توآزاد کرلو‘‘۔
سیدنا امام حسینؓ جنہیں ''امام الاحرار‘‘ بھی کہا جاتا تھا‘ نے آخری بار دشمن کے لشکر کواس ضابطہ ٔحیات سے آگاہ کیا جو انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کرتا ہے، اول: وہ جو رسول اللہﷺ اور امام عالی مقامؓ کی پیروی میں اپنے رب کے حضور سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ دوم: وہ جو اس دنیا میں آزاد ہیں۔ سوم: وہ جو اس دنیا میں نفسانی خواہشات اور مکر و فریب کے خدائوں کی غلامی کرتے ہیں۔ حکم بڑا واضح ہے کہ اگر تم پہلے گروہ میں شامل نہیں ہو سکتے تو کم از کم تیسرے گروہ جیسی غلامی سے تو خود کو آزاد کر لو۔
ایک ابدی زندگی کے تناظر میں جب ہم اس ضابطۂ حیات کو اپنی اس مختصر سی زندگی پر لاگو کرتے ہیں تو یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ہم اس وقت سے ماورا ہیں۔ دراصل جب ہم اپنے سماج کا غیر جذباتی تجزیہ کرتے ہیں تو وہ اس حقیقت پر منتج ہوتا ہے کہ ہم سب دھن دولت‘ اقتدار اور حرص کے بتوں کی غلامی کرتے ہیں اور ہم دانستہ طور پر اپنے اندر موجود ان قوتوں کی پرستش کرنے لگتے ہیں جنہوں نے خود پر عظمت اور بزرگی کا مصنوعی لبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثریت کسی دبائو اور جبر میں ان بتوں کی پوجا نہیں کرتی۔ نہیں! ہم میں سے اکثر لوگ ان کی پرستش کے لیے انتظار بھی نہیں کر سکتے۔ ہم انہیں تلاش کرتے ہیں۔ ہم اپنا ہر لمحہ ان کے تعاقب میں صرف کرتے ہیں۔ اس دنیا میں زندہ رہنے اور اپنی مصلحت آمیزی کی آڑ میںہم ان کی حمایت اور ان کا دفاع کرنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ ایسی ہی دنیا ہے۔
ہم جن بتوں کی پرستش کرتے ہیں‘ رفتہ رفتہ ان کی گرفت میں آنا شروع کر دیتے ہیں‘ جس طرح ایک مالک اپنے کسی غلام پر حاوی ہو جاتا ہے۔ پھر ہم اسی کے مطابق گفتگو‘ عمل اور فیصلے کرتے ہیں۔ کچھ اس طرح کہ دنیاوی خدا‘ جنہوں نے ہمارے جسموں کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہوتا ہے‘ ہم سے ناراض بھی نہیں ہوتے۔ کلچر اور سوسائٹی کی زنجیریں‘ دوستی اور دشمنی کی زنجیریں‘ دولت اور اس کی چمک دمک کی زنجیریں‘ کامیابی اور اس کے نتیجے میں ملنے والے وسائل کی زنجیریں‘ قبولیت اور اس سے ملنے والی اہمیت کی زنجیریں۔ یہاں تک کہ ہم تعلیم یافتہ اور کامیاب انسان تو بن سکتے ہیں مگر آزاد نہیں ہوتے۔
جہاں تک ملک و ریاست کا تعلق ہے‘ یہاں بھی ایسے بت ہوتے ہیں جن سے آزاد ہونے کے بجائے ہم ان کی پوجا کرتے ہیں۔ داخلی سطح پر ہم اپنے جمہوری ڈھانچے کو اقربا پرور شاہی خاندانوں اور مقامی پاور بروکرز کے بتوں کے سامنے سرنگوں کرتے رہتے ہیں۔ ادارہ جاتی طاقت اور ان کی مسخ شدہ تاریخ کے بتوں کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں۔ ایسے قانون کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں جو درست نہیں ہوتا۔ ان ایوانوں کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں جہاں عدل و انصاف نہیں ہوتا۔ ایسی طاقتوں کے سامنے جھک جاتے ہیں جو ہمدرد نہیں ہوتیں۔ ہمیں کم از کم آزاد ہونا چاہئے۔ ظاہری طور پر دیکھیں تو گزشتہ چند مہینوں سے یہ بالکل عیاں ہو چکا ہے کہ بلاشبہ ہم آزاد نہیں ہیں۔ ایسے چوائسز کرنے سے پیشتر‘ جن سے ہماری اخلاقیات کی عکاسی ہوتی ہو‘ ہم جیو پولیٹکل تناظر میں طاقتور ملکوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر امریکہ اجازت دیتا ہے تو ہم مشرق کی سمت دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر چین ناراض نہیں ہوتا تو ہم مغرب کی طرف چل پڑیں گے۔ اگر وہ کشیدگی سے گریز کرتے ہیں تو ہم بین الاقوامی محاذ پر بھی خاموش ہو جائیں گے۔
کم از کم ہمیں آزاد شہری بننا چاہئے۔ سرزمینِ کربلا کی خون آلود ریت سے آج بھی امام عالی مقامؓ کے پیغامِ حق کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اگر ہم دنیا اور اس کی چمک دمک کی پرستش سے آزاد ہو جائیں تو ہمیں سیدنا امام حسینؓ کے ابدی پیغام کی حقانیت اور قدر و قیمت کا ادراک ہونا شروع ہو جائے گا کہ ایک آزاد انسان ہی صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکتا ہے اور وہی اس کے آگے سربسجود ہوتے ہوئے جچتا ہے۔ ہم انفرادی اور اجتماعی غلامی کی زنجیریں توڑ کر ہی ان کے حتمی اور ابدی پیغام کی حقانیت تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم اپنے خالق و مالک‘ اپنے اللہ کی رضا اور منشا کے حضور خود کو سرنگوں نہ بھی کر سکیں تو بھی کم از کم ہم اس دنیا کی فرسودہ حقیقتوں کے چنگل میں نہیں پھنس سکتے۔ اس صورت میں بھی ہم اپنی موجودہ حالت سے بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔
پسِ تحریر: کربلا اور امام عالی مقامؓ کا پیغام حریت حضرت حرؓ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا‘ جو دس محرم الحرام کو دنیاوی خدائوں کی تمام زنجیریں توڑ کر امام حسینؓ کے کاروانِ حریت میں شامل ہو گئے تھے۔ وہ یزیدی لشکر کو چھوڑ کر حسینی لشکر میں شامل ہونے والے پہلے مجاہد تھے جو اتنی بہادری اور جرأت سے لڑے کہ ان کا ذکر ذکرِ کربلا کا جزو لاینفک بن چکا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ جب امام عالی مقامؓ نے کربلا کی ریت پر پڑے حضرت حرؓ کے جسدِ خاکی کو دیکھا تو ان کے جسم پر سے ریت اور چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے فرمایا ''حر! مبارک ہو تم اپنی ماں کے رکھے ہوئے نام (حر) کے مصداق‘ آج واقعی آزاد ہو گئے ہو۔ اس زندگی سے بھی اور اگلی زندگی میں بھی‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں