"FBC" (space) message & send to 7575

سیاسی اور قانونی رولر کوسٹر

صوبہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے سیاسی بحران نے پاکستان کو آئینی موشگافیوں میں اُلجھا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ اب اس مسئلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے متعلقہ فریقین کی باہمی رضامندی سے طے کر دیا ہے؛ تاہم یہ اپنے پیچھے پاکستان کی دستوری تاریخ میں سیاسی اور عدالتی نظائر سے متعلق غیرمعمولی جوڑ توڑ کی ایک کہانی چھوڑ گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس تنازع کو جس انداز سے طے کرایا ہے اس پر بات کرنے سے پیشتر اس امر کا جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ معاملہ اس نہج تک پہنچا کیسے۔
اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ آئین کے آرٹیکل 136کے تحت 28مارچ 2022ء کو پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف ایک تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ اسی شام عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا جسے اس وقت کے گورنر نے 2اپریل 2022ء کو منظورکر لیا اور نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 3اپریل 2022ء کو بلا لیا گیا۔ مقررہ تاریخ کو پاکستان کے عوام نے پنجاب اسمبلی کے فلور پر ہلڑ بازی کے غیرمعمولی مناظر دیکھے؛ چنانچہ ڈپٹی سپیکر نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 6 اپریل 2022ء تک ملتوی کردیا۔ بحران اس وقت مزید سنگین شکل اختیار کر گیا جب اسی روز پی ٹی آئی کی حکومت نے چوہدری محمد سرور کو گورنرپنجاب کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ عمر سرفراز چیمہ کو گورنر مقرر کر دیا۔ اسمبلی فلور پر تشدد کے مزید واقعات رونما ہونے کے بعد ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے اسمبلی کا اجلاس 10 اپریل تک ملتوی کردیا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین سمیت حمزہ شہباز کے حامیوں نے فوری طور پر اسمبلی کا علامتی اجلاس لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں بلا لیاجہاں پنجاب اسمبلی کے 199اراکین نے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ منتخب کر لیا۔
پہلے نوٹیفکیشن کے بجائے6 اپریل 2022ء کی رات کو ڈپٹی سپیکر نے اگلے ہی روز یعنی 7اپریل کو وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اسمبلی کا اجلاس بلا لیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ڈپٹی سپیکر بھی پارٹی سے منحرف ہو گئے ہیں‘ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے ہی ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی اور ان سے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرنے کا استحقاق چھین لیا۔ اگلے ہی روز‘8اپریل 2022ء کو ڈپٹی سپیکر کے اختیارات سلب کرنے اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے روبرو ایک رِٹ دائر کردی گئی۔ فاضل عدالت نے اس حکم کے تحت یہ رِٹ نمٹا دی کی کہ طے شدہ پروگرام کے مطابق وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16اپریل کو بلایا جائے جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر کریں گے؛ چنانچہ ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی کے دوران ہی حمزہ شہباز کو 197ووٹوں سے پنجاب کا 34واں وزیراعلیٰ منتخب کر لیا گیا۔
تنازع پھر بھی حل نہ ہوسکا۔پنجاب کے نئے گورنرعمر سرفراز چیمہ نے بھی ٹھان لی کہ وہ حمزہ شہباز کا وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب تسلیم نہیں کریں گے۔ ان حالات میں حمزہ شہباز نے ایک مرتبہ پھر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا جس نے 22اپریل 2022ء کو صدر پاکستان سے استدعا کی کہ وہ نو منتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے کے لیے کسی موزوں حکومتی عہدیدار کو نامزد کردیں۔ صدرِ پاکستان کی طرف سے مزاحمت کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو ہدایات جاری کردیں کہ وہ نومنتخب وزیر اعلیٰ سے اس کے عہدے کا حلف لیں۔ یوں حمزہ شہباز کو پنجاب کا نیا وزیراعلیٰ مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔درایں اثنا وزیراعظم میاں شہباز شریف نے صدرِ پاکستا ن سے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو منصب سے ہٹانے کی سفارش کر دی؛ تاہم صدر پاکستان نے گورنر پنجاب کو منصب سے ہٹانے کی سمر ی دو مرتبہ مسترد کردی جس کے بعد بلیغ الرحمن کو پنجاب کا نیا گورنرمقرر کر دیا گیا۔ جس وقت پنجاب میں یہ بحران جاری تھا عین اسی وقت صدر پاکستان کا آئین کے آرٹیکل 186کے تحت منحرف اراکین کے مستقبل سے متعلق ایک ریفرنس بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو زیر سماعت تھا۔ سپریم کورٹ نے اس ریفرنس پر 17مئی 2022ء کواپنا فیصلہ سنا دیا جس کا اہم پہلو سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ حکم تھا کہ اگر کسی منحرف رکن اسمبلی نے اپناووٹ ڈال بھی دیا ہو‘ اسے آئین کے آرٹیکل 63Aکے تحت (قائدِ ایوان کے انتخاب سمیت) کسی آئٹم پر شمار نہیں کیا جائے گا۔ درایں اثنا پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے اپنے ان 25اراکین کے مستقبل سے متعلق رجوع کر لیا جنہوں نے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔ سپریم کور ٹ کے واضح حکم کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس ان 25اراکین کو ڈِس کوالیفائی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
آئین کے آرٹیکل 224(6)کی روشنی میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے پانچ نئے اراکین کی نامزدگی کے لیے رجوع کیا تھا مگر الیکشن کمیشن نے اس آئینی درخواست کو یہ جواز بنا کر مسترد کر دیا کہ ان کی نامزدگی کا اعلان ضمنی الیکشن کے بعد ایوان کے اراکین کی تعداد پوری ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے انتخاب سمیت الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ مخصوص نشستوں پر پنجاب اسمبلی کے اراکین کے ناموں کا اعلان کرے‘ اس طرح حمزہ شہباز کے انتخاب کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی لاہور ہائی کورٹ نے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کویہ حکم بھی دے دیا کہ منحرف اراکین کے 25ووٹ نکال کر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کریں اور آئین کے آرٹیکل 130(4)کی روشنی میں کارروائی کو آگے بڑھائیں۔ ججز کی اکثریت نے (جسٹس ساجد محمود سیٹھی کے اختلافی نوٹ کے ساتھ) یہ حکم بھی دے دیا کہ اس وقت تک حمزہ شہباز بطور وزیراعلیٰ اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستا ن میں چیلنج کردیا گیا جس نے اپنے یکم جولائی 2022ء کے حکم کے ذریعے معاملے کو فریقین کی باہمی رضا مند ی سے طے کرا دیا۔ یہ فیصلہ ایک مسئلے کے 'سیاسی حل پر اتفاقِ رائے‘ کی عکاسی کرتا ہے جس پر سپریم کورٹ کی رہنمائی میں فریقین نے رضامندی کا اظہا رکیا تھا؛ چنانچہ فریقین کی غیرمشروط رضا مندی سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کر دیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے دوسری ووٹنگ 22جولائی 2022ء بروز جمعہ سہ پہر 4بجے پنجاب اسمبلی کی عمارت میں منعقد کرائی جائے گی۔ اس عرصے میں حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب کے فرائض انجام دیتے رہیں گے لیکن وہ کسی قسم کے انتظامی اختیار ات کا استعمال کرتے ہوئے کوئی ایسی پوسٹنگ ٹرانسفر نہیں کر سکیں گے جس سے آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کے انعقاد پر اثر پڑ سکتا ہو۔ اس فیصلے کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اس دوران الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر نامزد اراکین کے نام نوٹیفائی کرے گا، نیز پہلے سے جار ی کردہ شیڈول کے مطابق ضمنی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔
دو مہینے سے جاری سیاسی اور قانونی ڈرامہ پاکستان اور اس کی جمہوریت کے لیے ایک آئینی رولر کوسٹرکی رائیڈ ثابت ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا جمہوری عمل اور اس کے کار پرداز باہمی سیاسی اختلافات کو عدالتوں سے رجوع کیے بغیر اپنے طور پر حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ اگر ہماری جمہوریت اسی روش پر گامزن رہی تو عنقریب پارلیمنٹ کی کوئی افادیت نہیں رہے گی اور ہمارا ہر مسئلہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہی حل ہوا کرے گا۔ اس ناقص گورننس میکانزم کی ذمہ داری صرف اور صرف سیاستدانوں پر ہی عائد ہوگی جنہوں نے حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں