"FBC" (space) message & send to 7575

عمران خان کا دور

عمران خان کی عمر اس وقت تقریباً 70 سال ہے‘ لیکن یہ وہ موضوع نہیں جس پر میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ میری عاجزانہ سی دلیل یہ ہے کہ ہم پاکستان میں‘ عمران خان کے دور میں رہتے ہیں۔میرا تعلق اس نسل سے ہے جو 1980ء کی دہائی میں پیدا ہوئی تھی اور جس نے ضیاء الحق اور افغان جنگ کے گہرے سائے میں پرورش پائی۔ جہاں تک میری یادداشت کا تعلق ہے تو اس زمانے کا وہ واحد 'قومی ہیرو‘ جسے یاد رکھا جا سکتا ہے‘ وہ عمران خان ہے۔ وہ اور سلطان محمد گولڈن‘ ایک بہادر سٹنٹ مین‘ دونوں معروف تھے‘ لیکن سلطان گولڈن تھوڑی دیر کیلئے ٹمٹمایا اور پھر غائب ہو گیا لیکن جہاں دوسرے گم نام ہو گئے‘ عمران خان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
شروع میں عمران خان صرف ہماری کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ ضیاالحق کے دورِ حکومت میں پروان چڑھنے والوں کیلئے۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں جب پاکستان غیر جمہوری دور سے نکل کرجمہوریت کی روشنی میں آ گیا تو عمران خان جدیدیت کی نمائندگی کرتے رہے۔ دنیا بھر میں سپورٹس آئیکون کے طور پر جانے جاتے تھے۔ عمران خان ایک ترقی پسند‘ جدید اور تعلیم یافتہ پاکستان کے 'درست‘ سفیر تھے۔اگر یہ سب کچھ کافی نہیں تھا تو 1992ء میں میلبورن میں ایک خوشگوار رات عمران خان کی مقبولیت غیر معمولی بلندیوں پر پہنچ گئی کیونکہ پاکستان نے پہلی کرکٹ ورلڈ چیمپئن شپ جیت لی تھی۔ جن ممالک میں متعدد سپورٹس آئیکون ہوں‘ ممکن ہے ان کیلئے یہ کوئی بڑی بات نہ ہو‘ لیکن پاکستان میں‘ کرکٹ کے ایک ہیرو‘ جو ملک کیلئے ورلڈ کپ جیتنے والا پہلا شخص تھا‘ نے قدرتی طور پر قومی تاریخ کا ایک مستقل حصہ بن جانا تھا۔ عمران خان کی باقی زندگی مشہور شخصیات کی طرح تقریبات میں سیلیبرٹی کے طور پر اور پاکستان کی غیر یقینی صورتحال میں افراتفری کے درمیان جشن مناتے ہوئے گزر سکتی تھی لیکن یہ کام بہت سے افراد کر سکتے ہوں گے‘ عمران خان نہیں۔
پاکستان میں1990ء کی دہائی کے دوران‘ میری نسل نے‘ جو اس وقت مڈل/ ہائی سکول میں تھی‘ اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ کیلئے رضا کارانہ طور پر صرف کیا۔ اپنے والدین اور رشتے داروں کو دس‘ دس روپے کے ٹکٹ فروخت کرتے ہوئے اس نسل نے عمران خان کے 'مفت کینسر ہسپتال‘ کے خواب کی پیروی کی۔ پچاس ٹکٹ بیچنے پر آپ کو کیپ مل جاتی تھی۔ سو ٹکٹ بیچنے پر آپ کو ایک گیند مل جاتی تھی اور ہر سکول میں ایک طالب علم‘ باقی سب کے حسد کیلئے‘ اتنے ٹکٹ فروخت کرتا کہ اسے عمران خان کے دستخط والا بلا ملتا تھا۔ 1996ء میں شوکت خانم ہسپتال کی تکمیل کے ساتھ ہی عمران خان کے دور کے اگلے (اس سے بھی بڑے) باب کا آغاز ہو گیا۔ ایک سیاسی جماعت‘ پاکستان تحریک انصاف‘ کا آغاز‘ جس کے پاکستانی سیاست میں کامیاب ہونے کا کوئی امکان دور دور تک نہ تھا۔
عمران خان کو سیاست میں حصہ نہ لینے کی نصیحت کی گئی۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ کرکٹ کا کھیل نہیں ہے۔ سیاست‘ خاص طور پر پاکستان میں‘ رابطے کا کھیل ہے۔ یہ عمران کیلئے نہیں۔ وہ معاملات کو سمجھ نہیں سکتا‘اور ہزارہا سمجھوتوں والی پاکستانی سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔سچ پوچھیں تو یہ برا مشورہ نہیں تھا۔ اپنی سیاسی جماعت کا آغاز کرنے کے ایک سال بعد‘ 1997ء کے انتخابات میں انہیں ایک کڑے امتحان سے گزرنا پڑا۔ وہ کرکٹ سٹیڈیم میں بھلے ہی بادشاہ رہا ہو لیکن سیاسی میدان میں وہ محض ایک تماشائی تھا۔ جہاں نواز شریف اور بے نظیر نے تقریباً 70 فیصد ووٹ حاصل کیے وہیں عمران خان کو محض 1.7 فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہاں تک کہ اگلے الیکشن (2002ء) بھی انہوں نے صرف ایک سیٹ جیتی جو ان کی اپنی تھی۔ سیاست کے گدلے پانیوں میں اپنے سٹارڈم کو ضائع کرنے پر پاکستان بھر میں انہیں مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ صورتحال ایک عام آدمی کو جھکانے کیلئے کافی ہوتی لیکن یہ واضح تھا کہ عمران خان سیاسی طاقت کے غلام گردشوں میں فِٹ ہونے کیلئے خود کو جھکا نہیں سکتے تھے۔ ان کے پاس اقتدار کے راستے پر چلنے کیلئے گفت و شنید کی صلاحیت نہیں تھی۔ وہ اصغر خان کا ایک بہترین ورژن بن سکتے تھے‘ لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ خان کو ہار مان لینی چاہیے تھی۔ ہوشیار اور زیادہ تجربہ کار سیاسی پنڈتوں نے انہیں سیاست کو تیاگ دینے کا مشورہ دیا کہ وہ نوشتۂ دیوار پڑھ لے۔ بہت سے لوگ پہلے ہی ان کی سیاسی موت لکھ چکے تھے۔ انہوں نے خان کے خیالات کا مذاق اڑایا اور اس کے کامیاب ہونے کے تصور پر ہنسے‘ لیکن خان‘ لچکدار کپتان‘ کو یقین تھا کہ اس کا وقت آئے گا‘ حالانکہ ایسا ہونے کی کوئی منطقی وجہ نہیں تھی۔ کیوں؟ کیونکہ وہ ایک ایسا راز جانتا تھا جو باقی نہیں جانتے تھے۔
2008ء کی انتخابی مہم کے دوران کپتان نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا (بے ضابطگیوں اورپری پول دھاندلی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے)۔ درحقیقت کپتان نے 2008ء کی انتخابی مہم کے دوران ایک پریس کانفرنس میں اپنے کاغذات نامزدگی پھاڑ دیے تھے۔ نتیجہ یہ کہ اچانک کپتان اور اس کی پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ میں کوئی موجودگی نہیں تھی۔ سیاسی جادوگروں نے قسم کھائی کہ یہ کپتان کا سیاسی اختتام ہے کہ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے وہ اپنے سیاسی گروہ کے باقی ماندہ چند ارکان کو بھگانے جا رہا ہے۔ لوگوں نے ان پر زور دیا کہ وہ سیاست چھوڑ دیںاوراپنی توجہ سماجی کاموں پر مرکوز کریںجہاں انہوں نے ہلکی پھلکی کامیابی کا مزہ چکھ رکھا تھا۔ یہ اچھا مشورہ تھا۔ کپتان کے پاس سیاست کو چھوڑنے کی ہر وجہ موجود تھی۔ اس کی سیاست کرنے کے دن‘ ہر لحاظ سے ختم ہو چکے تھے۔ اس کا پیغام ناکام ہو چکا تھا۔ لیکن جیسا میں نے کہا‘ کپتان کو ایک راز معلوم تھا جو باقی نہیں جانتے تھے کہ ہم عمران خان کے دور میں رہتے ہیں۔
اور پھر اچانک اکتوبر 2011ء کی ایک رات‘ کپتان کو اپنی ثابت قدمی کا صلہ مل گیا اور ہم سب نے لاہور میں ایک کرشمہ ہوتے دیکھا۔ ہمیشہ کی طرح سیاسی پنڈتوں نے قیاس کیا کہ یہ اکٹھ چھوٹا اور بے معنی ہو گا۔ حکمران جماعتوں نے اسے مرتی ہوئی سیاسی جماعت کی آخری ہچکی کے طور پر مسترد کر دیا تھا۔ ہر کوئی مینارِ پاکستان کی طرف نظریں جمائے اور سانسیں روکے یہ جاننے کا منتظر تھا کہ آیا وہ دن عمران خان کے وعدے کے خاتمے کا دن ہے یا ایک نئی سیاسی قوت کی پیدائش کا گواہ ہے۔ اور پھر یوں ہوا: وہ دس‘ بیس اور سینکڑوں کے گروہ میں آئے‘ گدھا گاڑیوں پر‘ لینڈ کروزرز پر‘ آسودہ رہائش گاہوں کے اندر سے اور خاک اڑاتے کھیتوں سے۔ انہوں نے صبر کے ساتھ انتظار کیا اور اکیلے ایک شخص کے انتظار میں گھنٹوں رقص کیا:عمران خان۔ وہ لمحہ ہماری سیاسی تاریخ کے تانے بانے میں ایک ٹوٹ پھوٹ کا‘ ایک نئی امید کے آغاز کا نشان تھا۔
کپتان کی پی ٹی آئی نے 2013ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کی تھی لیکن ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھری جس کو تسلیم کیا جانا چاہیے اور 2018ء میں وہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اگر کوئی یہ سوچتا تھا کہ وزیر اعظم بننا خان کی مقبولیت کا عروج ہو گا تو وہ غلط ہے کیونکہ یہ ہم ''عمران خان کے دور‘‘ میں رہتے ہیں۔
خان کو اس سال عہدے سے ہٹا دیا گیا‘ مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے مرتب کی گئی سازش کے تناظر میں‘ اور اگر کسی نے سوچا ہے کہ اس کے نتیجے میں عمران خان کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا تو اسے چاہئے کہ پھر سوچے۔ وہ پہلے کئی نسلوں کے آئیکون تھے۔ اب وزیر اعظم کے بعد کے مرحلے میں‘بالآخر عمران خان کا دور آ گیا ہے۔ کچھ وقت گزرے گا تو (چھوٹے) رہنما قومی یادداشت سے مٹ جائیں گے‘ تاریخ اس مدت کے بارے میں اپنا (نہ معاف کرنے والا) فیصلہ لکھے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں