"FBC" (space) message & send to 7575

ایک نیا نظام؟

آئینی جمہوریت کی خوبی، گورننس کو عوام کی مرضی کے تابع بنانے کے اپنے وعدے پر منحصر ہے۔ ذرا وسیع تناظر میں آئینی پارلیمانی جمہوریت‘ جیسا کہ ہمارے ہاں پاکستان میں ہے‘ کی سماجی قبولیت کا انحصار تین بنیادی مفروضوں پر ہے: (1) یہ کہ عوام کی 'اجتماعی مرضی‘ جو ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لائی جائے گی‘ لوگوں کی بہتری کیلئے قانون سازی کرے گی۔ (2) یہ کہ ایگزیکٹو، جو بنیادی طور پر منتخب نمائندوں کے ذریعے منتخب کیا جائے گا، ایسی پالیسیاں بنائے گا جو لوگوں پر زندگی کا بوجھ کم کریں۔ (3) یہ کہ انصاف کا ایک ایسا نظام ہو گا جو مؤثر طریقے سے گناہ گاروں کو سزا دے گا اور ظالم سے بدلہ لے گا۔
دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان نے بھی تقریباً پچاس سال قبل آئینی پارلیمانی جمہوریت کا نظام درآمد کیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے بعد سے، جمہوریت کے بنیادی مفروضوں نے ہمیں اس سے اس انداز میں دور کر دیا کہ نظام اپاہج ہو کر رہ گیا‘ اور ہمارا معاشرہ تلخی پیدا کرنے والا بن گیا۔ نتیجے کے طور پر ہماری سیاست کے اس سنگِ میل لمحے پر، ہمیں اس بات کا (بالقصد) جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا اس نظام نے اپنا تصوراتی وعدہ پورا کیا‘ یا موجودہ حکمرانی کے ڈھانچے کی ناکامیوں کی روشنی میں، پاکستان کے عوام کو ایک مختلف جمہوری 'نظام‘ وضع کرنے کی ضرورت ہے، جو ثقافتی اور سیاسی حقائق سے زیادہ مربوط ہو۔
جمہوریت کے پہلے مفروضے سے شروع کرتے ہیں۔ یہ کہ 'عوام کی مرضی‘ کے مطابق لوگوں کی بہتری کے لیے قانون سازی ہو گی۔ ہمارے آئینی ڈھانچے میں، عوام کی مرضی پارلیمنٹ (قومی، صوبائی اور مقامی) میں جھلکتی ہے۔ جمہوری نظریے کا مفروضہ یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اپنی قانون سازی کی طاقت ان حلقوں کے فائدے کے لیے استعمال کریں گے جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہے۔ اس مفروضے کے بغیر جمہوریت کا پورا فریم ورک مفلوج ہو جاتا ہے۔ یہ جمہوریت کا بنیادی اتحاد ہے جو ریاست کو اپنے شہریوں سے جوڑتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں منتخب نمائندے عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے قانون سازی کیلئے انتھک کوششیں کرتے ہیں؟ کیا ہم پاکستان میں تعلیمی اور صحت کے نظام کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے‘ چاروں جانب سے قانون سازی کی تجاویز سے گھرے ہوئے ہیں؟ ہر سیاسی جماعت الیکشن مہم کے دوران انتخابی اصلاحات کا وعدہ کرتی ہے۔ کیا ان میں سے کسی نے (بشمول پی ٹی آئی) اس وعدے کا ایک معمولی سا حصہ بھی پورا کیا ہے؟
مقننہ، کچھ عرصہ پہلے‘ پاکستان میں کسی بھی دوسری جگہ سے زیادہ‘ ایک کرائم سین کا سا منظر ابھارتی تھی، جہاں لوگ ایک دوسرے پر گالیوں کی بوچھاڑ کر رہے تھے، کبھی کرسیاں پھینک رہے تھے۔ کیا اسمبلی کی کارروائی دیکھ کر کسی بھی سمجھدار آدمی کو اس میں شرکت کی ترغیب ملتی ہے؟ کیا پارلیمنٹیرینز کی جانب سے (پارلیمنٹ میں) اپنے متعلقہ حلقوں کے متعلقہ تحفظات کو اٹھانے کی کوئی کوشش نظر آتی ہے؟ درحقیقت، آرڈیننسوں اور ذیلی ترامیم کے علاوہ، گزشتہ پانچ سالوں میں عوامی بحث کے ذریعے کوئی بڑی قانون سازی نہیں کی گئی، جس سے ہماری گورننس کے سانچے کی ساختی بنیادوں کو بہتر بنایا جا سکتا۔ اس دوران، ہماری جمہوریت کے ڈھانچے کو متاثر کرنے والی واحد بڑی قانون سازی، الیکشن ایکٹ 2017 تھی، جس میں اراکین پارلیمنٹ نے (متفقہ طور پر) منظوری دی کہ اب انہیں اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ یعنی جب تک سپریم کورٹ اسے غیر آئینی قرار نہیں دیتی۔ پارلیمنٹ کی قانونی حیثیت کو مزید گھٹاتے ہوئے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے استعفے دے دیئے۔ ان حالات میں جبکہ ہماری قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت اب سڑکوں پر نکل آئی ہے، کیا کسی کو روکا جا سکتا ہے؟
اگلی ہے انتظامیہ: کیا کوئی یہ بحث کر سکتا ہے کہ ہماری ریاست کا ایگزیکٹو سروس ڈلیوری میکنزم بغیر کسی خوف یا طرفداری کے کام کرتا ہے؟ کیا تھانہ، متعلقہ پولیس قوانین کی تمام دفعات کے باوجود، اللہ دتہ کے ساتھ مقامی سیاسی رہنما جیسا ہی (یعنی برابر کا) سلوک کرتا ہے؟ کیا پٹواری؟ کیا ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال؟ یا ڈسٹرکٹ کمشنر؟ کیا عوامی تعلیم کا نظام واقعی اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ اللہ دتہ کے بچوں کو اس متحرک جدید دنیا میں ایلیٹ سکولوں کے بچوں سے مقابلہ کرنے میں مدد دے سکے؟ کیا واقعی یہ 'نظام‘ سٹریٹ چلڈرن کیلئے وہ سب کچھ کر سکتا ہے (جس کا وعدہ کیا گیا)؟ یا بے گھر افراد کیلئے؟ یا ان ہزاروں خواتین اور بچوں کیلئے جو ہر سال جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں؟ کیا ہمارا 'نظام‘ تھر کے ان 200 بچوں کی پروا کرتا ہے، جو پچھلے سال خوراک اور پانی کی کمی کے باعث مر گئے؟ کیا یہ نظام مختلف کمیونٹیز کے تحفظ کیلئے مؤثر ادارہ جاتی میکنزم فراہم کرتا ہے؟
آخر میں نظام عدل کے بارے میں جمہوری مفروضے کی بات کرتے ہیں۔ اس معاملے پر بمشکل ہی کوئی نکتہ چینی کی جا سکتی ہے کہ ہمارا یہ نظام اپنے آئینی وعدے کو پورا کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا، اور اس کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ، اچھے معزز جج، اور قابلِ قدر علمِ قانون‘ دونوں موجود ہیں لیکن، مجموعی طور پر، کیا 'نظام‘ واقعی اللہ دتہ کو انصاف فراہم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے؟ یا، اس کے بجائے، یہ اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ترازو طاقتوروں اور دولت مندوں کے حق میں دکھائی دے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظامِ عدل اسی طرح کام کررہا ہے، جیسا کہ ہونا چاہیے، جبکہ اللہ دتہ دہائیوں جیل میں بند رہتا ہے اور طاقت وروں کی ضمانت ایک ہی ہفتے میں ہو جاتی ہے؟ کیا کسی نے ریاست سے کہا ہے کہ وہ نواز شریف کے علاوہ بھی کسی قیدی مریض کی زندگی کی ضمانت فراہم کرے؟ کیا یہ 'نظام‘ کام کر رہا ہے جبکہ آصف زرداری کو نومبر 2020 تک اس مقدمے میں چارج شیٹ تک نہیں کیا جا سکا تھا، جو 1994 میں درج ہوا تھا؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انصاف ملتا ہے جبکہ مجید اچکزئی کو دن دہاڑے کوئٹہ میں ٹریفک وارڈن پر چڑھ دوڑنے کے بعد بری کر دیا گیا؟ سی سی ٹی وی فوٹیج میں پورا واقعہ دکھانے کے باوجود ملزم کو 'ثبوت کی کمی‘ کی بنا پر بری کر دیا گیا۔ کیا ہمارے نظامِ عدل نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کیلئے کام کیا جب آٹھ سال گزرنے کے باوجود ایک بھی سزا نہیں سنائی گئی؟ کیا 'نظام‘ ان لوگوں کے لیے کام کر رہا ہے جو لیاری میں عزیر بلوچ کی دہشت کے سائے میں زندگی گزارتے رہے تھے؟ کیا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملے میں مارے جانے والوں کے لیے یہ کام ہوا؟
حالیہ برسوں میں‘ اور خاص طور پر پچھلے چند مہینوں میں‘ یہ واضح ہو گیا کہ یہ 'نظام‘ کام نہیں کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جمہوریت کام نہیں کر سکتی۔ یہ کام کر سکتی ہے۔ صرف یہ کہ اس کا یہ مخصوص ماڈل جمہوریت کے وعدے کو پورا نہیں کر رہا ہے۔ مغربی دوستوں سے مستعار لی گئی دانش نے ہمارے لوگوں کو یہ باور کرایا ہے کہ ایک آئینی پارلیمانی جمہوریت بہترین (اور واحد؟) طرز حکمرانی ہے جو قوموں کی جدید کمیونٹی کے لائق ہے۔ اور یہ کہ ہم سے پہلے کی تمام تہذیبوں کی طرح، جو اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ انسانیت نے اب تک جتنے نظام دیکھے ان میں یہ نظام بہترین ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ایک نئے نظام کے بارے میں سوچے۔ درحقیقت، آنے والے الیکشن (جب بھی ہوں) کے بارے میں یہی ہونا چاہیے کہ نئی حکومت، عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ، ہمارے جمہوری نمونے میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لائے گی‘ اس امید کے ساتھ کہ نیا نظام، یا اس کا ترمیم شدہ ورژن، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے گا، اور جمہوریت کے وعدے کو پورا کرنے کی طرف پیش رفت کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں