"FBC" (space) message & send to 7575

اولڈ ورلڈ آرڈر

یوکرین میں روس کی مہم‘ روس پر تمام بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اپنے تزویراتی مقاصد تک پہنچ چکی ہے۔ یوکرین کی مسلح افواج‘ جنہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے تربیت دی‘ روسی فوج کے خلاف اتنی ہی مؤثر ہیں جتنی افغانستان کی دفاعی افواج طالبان کے خلاف تھیں۔ سابق افغان صدر اشرف غنی کے برعکس یوکرین کے صدر ولودویمیر زیلنسکی نے لچک دکھائی ہے؛ تاہم اس سے آگے بڑھتی ہوئی روسی فورسز کے حوالے سے کوئی فائدہ نہ ہو سکے گا‘ خاص طور پر اس وقت جب سے یہ واضح ہو گیا کہ امریکا اور اس کے اتحادی یوکرین کے فوجی دفاع کیلئے نہیں آئیں گے۔ جب ہم اس پیش رفت کی فوری لہر سے گزر جائیں گے تو ایک بہت زیادہ اہم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہو گی: افغانستان میں امریکا کی ذلت آمیز شکست کے بعد یوکرین میں روس کی مہم بین الاقوامی 'قواعد پر مبنی نظام‘ کیلئے کیا معنی رکھتی ہے؟ وہ نظام جو امریکی طاقت سے اپنی حیثیت حاصل کرتا ہے؟
اقوام متحدہ نے بین الاقوامی 'قواعد پر مبنی آرڈر‘ کی تعریف ''تمام ممالک کی طرف سے اپنی سرگرمیاں طے شدہ قواعد کے مطابق کرنے کیلئے مشترکہ عزم کے طور پر کی ہے‘ جو وقت کے ساتھ تیار ہوتے ہیں‘ جیسے بین الاقوامی قانون‘ علاقائی سلامتی کے انتظامات‘ تجارتی معاہدے‘ امیگریشن پروٹوکول اور ثقافتی انتظامات‘‘۔ اس تعریف کی نرم اور جامع زبان کے باوجود‘ بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر تمام ممالک سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ امریکا اور اس کے منتخب شراکت داروں کے بنائے ہوئے قوانین کی پابندی کریں اور کوئی بھی ملک جو امریکی لائن پر قائم نہیں رہتا‘ اسے سفارتی تنہائی کا شکار کیا جاتا ہے اور (بالآخر) اس کے خلاف فوجی کارروائی کی جاتی ہے۔ درحقیقت‘ بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر یا نظام دنیا پر حکمرانی کیلئے امریکا کا 'چھڑی اور گاجر‘ کا طریقہ کار ہے۔ اگرچہ یہ نظام ظاہری طور پر انسانی حقوق اور عالمی تعاون کی زبان میں ملفوف ہے لیکن اندر سے اس بین الاقوامی 'قواعد پر مبنی آرڈر‘ کا نفاذ جابرانہ مفروضوں کی ایک سیریز پر مبنی ہے‘ جیسے: (1) ممالک دو طرفہ مسائل سے بالاتر ہو کر بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام کے حکم کی پابندی کریں گے۔ (2) اس نظام کی خلاف ورزی کا نتیجہ یقینی طور پر اقتصادی اور سفارتی پابندیوں کی صورت میں نکلے گا (3) اس نظام کی خلاف ورزی کرنے پر امریکا اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں‘ کسی فریق کو قواعد پر مبنی آرڈر کی پابندی کرنے پر مجبور کرنے کیلئے کافی ہوں گی۔ (4) بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کے شرکا نظام کو نافذ کرنے کیلئے‘ مختلف کثیر الجہتی فورمز (مثلاً اقوامِ متحدہ اور نیٹو) کے ذریعے فیصلہ کن قوت استعمال کرنے کیلئے تیار ہوں گے۔ (5) اگر ضرورت پڑے تو یکطرفہ طور پر اس نظام کو نافذ کرنے کیلئے امریکا کے پاس فوجی طاقت موجود ہے۔ ان مفروضوں کے بغیر‘ بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کسی ترغیب یا تحریک سے عاری‘ طاقت یا جواز کا محض ایک تکیہ کلام ہی ہوگا۔ افغانستان میں امریکا کی شکست اور یوکرین میں مغربی ممالک کے سر جوڑ کر بیٹھنے کے بعد‘ یہ اندازہ لگانا مناسب ہوگا کہ آیا بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام طاقت کی کرنسی کے طور پر کام جاری رکھ سکتا ہے؟
سب سے پہلا مفروضہ یہ ہے کہ انفرادی ممالک دو طرفہ مفادات سے بالاتر ہو کر بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کی پابندی کریں گے۔ یہ بنیادی مفروضہ یوکرین پر روسی حملے کے ملبے تلے دب گیا ہے‘ ویسے ہی جس طرح افغانستان میں ہوا۔ شکست خوردہ امریکا جیسے جیسے عالمی سٹیج سے پیچھے ہٹ رہا ہے‘ ہمیں یہ نظر آنا شروع ہو چکا ہے کہ بعض ممالک بین الاقوامی وعدوں پر دو طرفہ تعلقات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ چین نے مبینہ طور پر پابندیوں کے خطرے کے باوجود ایران کو تقریباً 400بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یورپ امریکی حکم نامے کے برخلاف روس اور چین کے ساتھ اپنی شرائط پر معاملات طے کر رہا ہے۔ صدر میکرون پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ یورپ کی پالیسیاں نیٹو اور امریکا سے آزاد ہونی چاہئیں۔ دنیا بھر میں تمام تر پابندیاں صدر پوتن یا طالبان کو عالمی برادری کے ساتھ لین دین سے نہیں روک سکتیں۔ پاکستان مزید بین الاقوامی پابندیوں کے خطرے کے باوجود سی پیک کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے‘ لہٰذا یہ مفروضہ کہ ممالک دو طرفہ مفادات پر کثیرالجہتی اصولوں کو ترجیح دیں گے‘ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ دوسرا اور تیسرا مفروضہ: 'قواعد پر مبنی نظام‘ کی خلاف ورزی کا نتیجہ یقینی طور پر اقتصادی اور سفارتی پابندیوں کی صورت میں نکلے گا‘ جو ممالک کو بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام یا آرڈر کی پابندی کرنے پر مجبور کرنے کیلئے کافی ہوگا۔ یہ مفروضہ بھی حالیہ دنوں میں یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں کمزور ہوا ہے۔ حتیٰ کہ یورپ سے دور‘ بھارت نے امریکی پابندیوں کے خطرے کے باوجود‘ چابہار اور دیگر منصوبوں کے ذریعے ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کی۔ اسی بھارت نے امریکی پابندیوں کے خطرے کے باوجود روسی S-400 سسٹم کا آرڈر بھی دیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اسرائیل پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ کسی بھی پابندی نے ایران کو علاقائی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے سے نہیں روکا۔ دنیا امریکی بالا دستی کے بعد کی نئی حقیقت کے ساتھ مطابقت پیدا کر رہی ہے‘ لہٰذا جو ممالک بھی قوانین پر مبنی آرڈر کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ ان کے خلاف بلا امتیاز پابندیاں عائد کرنے کے خدشات مزید کم ہونے کا امکان ہے۔ چوتھا مفروضہ یہ ہے کہ ورلڈ آرڈر کے حصہ دار‘ نظام کو نافذ کرنے کیلئے مختلف کثیرالجہتی فورمز (مثلاً اقوام متحدہ اور نیٹو) کے ذریعے فیصلہ کن فوجی طاقت کا استعمال کریں گے۔ یہ مفروضہ بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی عسکری مشن اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ نیٹو نے کبھی بھی سوویت یونین کے خلاف یا یوکرین میں 'لڑائی‘ نہیں لڑی۔ بحرالکاہل میں نیٹو کی سسٹر آرگنائزیشن‘ کواڈ، ہانگ کانگ کی مدد کیلئے نہیں آئی‘ اور اگر معاملہ جنگ تک بڑھ جاتا ہے تو نہ کواڈ اور نہ ہی اواکس تائیوان کو برقرار رکھ سکیں گی۔ اس طرح‘ انفرادی یا ممالک کے گروپوں کیلئے بین الاقوامی فوجی تعاون سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
پانچواں مفروضہ: اگر ضرورت پڑی تو یکطرفہ طور پر اس نظام کو نافذ کرنے کیلئے امریکا کے پاس فوجی طاقت ہے۔ یہ مفروضہ شروع ہی سے کمزور ہے‘ پورے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں بار بار غلط ثابت ہوتا رہا ہے۔ کیا امریکا دنیا بھر میں چند کمزور ممالک کے خلاف یکطرفہ جنگ لڑ سکتا ہے؟ اس کا جواب ہے: جی ہاں۔ کیا یہ امکان ہے کہ یہ مستقبل قریب میں کسی وقت ایسا کرے گا؟ جواب ہے: نہیں۔ کیا امریکا میں بڑے حریفوں کا عسکری طور پر مقابلہ کرنے کی جرأت ہے‘ جیسے روس اور چین؟ جواب ہے: نہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے‘ کیا امریکا نے کبھی یکطرفہ جنگ جیتی ہے؟ جواب ہے: نہیں۔ امریکا پہلی خلیجی جنگ میں صدام حسین کو نہیں ہٹا سکا۔ جب آخرکار اس نے دوسری خلیجی جنگ کے دوران صدام کو ہٹا دیا تو یہ عراق میں استحکام لانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہ کر سکا۔ امریکا بشارالاسد کو ہٹانے میں ناکام رہا۔ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں اسے شکست ہوئی‘ اور یہ ایک لمحے کیلئے بھی یوکرین کا دفاع نہیں کر سکا۔ تو 'بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر‘ کو کون نافذ کرے گا؟
یہ 'پرانا ورلڈ آرڈر‘ جو امریکا کی یک قطبی دنیا میں موجود تھا، اب دفن ہو چکا ہے‘ اور اس کی جگہ‘ ایک نئی دنیا‘ دباؤ کے نئے مراکز، نئے اتحادوں اور نئے تجارتی راستوں کے ساتھ تشکیل پاتی نظر آتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جو اصولوں کے نئے غیر تحریری سیٹ کے تحت لین دین کرتی ہے۔اس نئی دنیا کے ساتھ پاکستانی خارجہ تعلقات کے ایک نئے نظریے کے ساتھ ملنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نظریہ جس کا مرکز و محور مغرب نہ ہو اور جو اس کے بجائے قومی مفادات اور علاقائی اتحاد پر توجہ مرکوز کرتا ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں