"FBC" (space) message & send to 7575

انحراف اور آنے والا بحران

پاکستان کے بے مثال عدالتی و سیاسی ماحول میں جو بہت سی تبدیلیاں ممکن ہیں‘ ان میں سے ایک ایشو جو یقینی طور پر سر اٹھانے والا ہے‘ قومی اور خاص طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی تقدیر سے متعلق ہے۔ اس مقصد کیلئے سب کی نظریں الیکشن کمیشن اور معزز سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر لگی ہوئی ہیں۔ آئیے چند حقائق کا اعادہ کرتے ہیں تاکہ اس آئینی مسئلے کو اس کے سیاق و سباق میں پیش کیا جا سکے۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی حکومت سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا دی گئی۔ عدم اعتماد کے اس ووٹ سے پہلے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے متعدد ارکان نے عمران خان کی قیادت پر عدم اطمینان کا اظہار اور برسر عام پارٹی سے تعلق ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان اختلافی اراکین کے عوامی موقف کی بنیاد پر پی ٹی آئی کی حکومت کی کئی اتحادی جماعتوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں اور عدم اعتماد کی تحریک میں عمران خان کے خلاف ووٹ دیا۔ اتحاد میں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ 174 ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہوا اور یہ کام پی ٹی آئی کے کسی بھی ناراض رکن کے ووٹ کے بغیر مکمل ہوا۔عمران خان کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ کے خلاف بھی ایسا ہی ووٹ طلب کیا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے برعکس پنجاب میںپی ٹی آئی کے 26 منحرف اراکین (جن میں جہانگیر ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے اراکین بھی شامل ہیں) نے پارٹی لائن کے خلاف حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح انہوں نے واضح طور پر پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کی۔قائد ایوان کے خلاف ووٹنگ کے دوران سیاسی جماعت سے منحرف ہونے کی اس 'غلطی‘ کا آئین کے آرٹیکل 63 اے میں خاص طور پر ذکر ہے۔
ماضی کی 'چھانگا مانگا‘ سیاست کے تریاق کے طور پر 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے متعارف کرائی گئی یہ آئینی شق‘ جس کا عنوان ''انحراف کی بنیاد پر نااہلی‘ وغیرہ‘‘ ہے‘ خاص طور پر یہ شرط عائد کرتی ہے کہ ''اگر کوئی شخص اس پارلیمانی پارٹی‘ جس سے اس کا تعلق ہے‘ کی طرف سے جاری کردہ کسی ہدایت کے برخلاف درج ذیل حوالوں سے ہونے والی ووٹنگ میں ووٹ دیتا یا ووٹ دینے سے احتراز کرتا ہے تو پارٹی کا سربراہ تحریری طور پر اسے منحرف قرار دے سکتا ہے اور وہ رکن اپنی نشست سے محروم ہو جائے گا:(i) وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا انتخاب‘(ii) اعتماد کا ووٹ یا عدم اعتماد کا ووٹ‘ (iii) منی بل یا آئینی ترمیم کا بل۔ اس مقصد کیلئے ''پارٹی سربراہ‘‘ انحراف کا ڈیکلریشن پریذائیڈنگ آفیسر/ سپیکر اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیجتا ہے۔ اس کے بعد ''دو دن کے اندر‘‘ ایسا ڈیکلریشن الیکشن کمیشن کو ریفر کر دیا جاتا ہے کہ ''وہ اس کی تصدیق کرے یا بصورت دیگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے اس کی وصولی کے تیس دن کے اندر اس کی تصدیق ہو‘‘۔
اہم بات یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63A(4) کے مطابق ''الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کی تصدیق کے ساتھ ہی‘‘ ایسا رکن ''ایوان کا رکن نہیں رہتا‘‘ اور اس کی نشست ''خالی‘‘ ہو جاتی ہے۔آرٹیکل 63اے کی زبان اور منشا‘ جیسا کہ ظاہر ہے‘ کسی تدبیر کیلئے زیادہ گنجائش نہیں چھوڑتا۔ ایک بار جب اسمبلی کا ممبر آئینی شق میں درج (تین) آئٹمز میں سے کسی ایک میں بھی‘ پارٹی لائن سے ہٹ جائے تو‘ ایسے ممبر کی نااہلی اور سیٹ کھونا یقینی ہے۔ اس طرح کے حالات میں‘ واحد باقی قانونی سوال یہ ہے کہ آیا آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی/ ڈی سیٹنگ‘ آرٹیکل 62(1)(f) سے متعلق علمِ قانون کی روشنی میں‘ فطری طور پر عارضی ہے‘ یا مستقل (تاحیات)؟ اس مقصد کیلئے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس پہلے ہی معزز سپریم کورٹ کے سامنے ''سوال پر رائے‘‘ کیلئے زیر التوا ہے۔ اس سال مارچ میں جب یہ ریفرنس دائر کیا گیا تھا تب اختلافی اراکین کا معاملہ محض علمی نوعیت کا تھالیکن حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے دوران سب کچھ بدل گیا۔ مذکورہ الیکشن میں‘ واضح ہدایات کے برعکس‘ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے 26 ایم پی ایز نے کھلی رائے شماری میں حمزہ شہباز کے حق میں اپنا ووٹ ڈالا اس طرح آئین کے آرٹیکل 63اے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔اس کے فوراً بعد پی ٹی آئی نے ایسے اراکین کو شوکاز نوٹس جاری کیے اور آئینی طور پر طے شدہ عمل کو مکمل کرنے کے بعد ان کی نااہلی کا اعلامیہ سپیکر کے ذریعے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا۔ اس کے بعد سے الیکشن کمیشن نے اس معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں کی‘ اور اس کے نتیجے میں‘ جناب حمزہ شہباز‘ پی ٹی آئی کے 26 منحرفین کی مدد سے 371 میں سے 197 ووٹ حاصل کر کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
جو جاری صورتحال ہے‘ اس کے نتیجے میں متعدد معاملات سامنے آ سکتے ہیں۔ پہلا: الیکشن کمیشن اعلان کر سکتا ہے کہ ان اراکین کو آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہل نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کے پاس الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اختیار ہو گا اور معزز عدالت (جیسا کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں ہوا تھا) الیکشن کمیشن کو متعلقہ اراکین کو کو ڈی سیٹ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ یہ سوال کہ یہ نااہلی کب تک چلے گی‘ ابھی تک زیرسماعت صدارتی ریفرنس کے فیصلے سے جڑا رہے گا۔
دوسرا: پنجاب اسمبلی سے پی ٹی آئی کے 26 ناراض اراکین کے نشستوں سے محروم ہونے/ نااہل قرار پانے پر‘ حمزہ شہباز کے پاس171 اراکین کی حمایت باقی رہ جائے گی جو کہ پنجاب کی کل نشستوں(371) کی اکثریت نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میںگورنر پنجاب آئین کے آرٹیکل 130(7) کے تحت وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے‘ اور چونکہ 26 نااہل ارکان کی غیر موجودگی میں‘ کوئی بھی فریق ایوان میں مطلوبہ اکثریت (187 ووٹ) حاصل نہیں کر سکے گا اس لیے گورنر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کو تحلیل کر سکتا ہے۔ اس طرح کے واقعات ممکنہ طور پر رد عمل کے ایک سلسلے کو متحرک کریں گے‘ جس کے نتیجے میں کے پی اسمبلی بھی تحلیل ہو جائے گی‘ اور اس طرح عام انتخابات کی راہموار ہو گی۔
تیسرا: اگر گورنروزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا تو پنجاب میں پی ٹی آئی کا اتحاد موجودہ چیف منسٹر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے پر مجبور ہو جائے گا۔ اتحاد یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 136 کے تحت‘ صوبائی اسمبلی کے کم از کم 20 فیصد اراکین کی قرارداد کے ذریعے کرے گا‘ تاہم 26 منحرف/ ڈی سیٹڈ اراکین کی عدم موجودگی میں عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب نہیں ہو سکے گا‘ کیونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کا اتحاد بھی مطلوبہ 187 ووٹ حاصل نہیں کر سکے گا اور پنجاب‘ اس کے نتیجے میں‘ ایک ایسے وزیر اعلیٰ کی حکومت میں ہو گا جو نہ تو ایوان میں اکثریت رکھتا ہو گا اور نہ ہی عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
پاکستان گزشتہ کئی ماہ سے آئینی اور سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ یہ بحران ہماری جمہوریت کی ساکھ خراب کرنے اور نظام انصاف پر عدم اعتماد کا باعث بنے ہیں۔ یہ ایک طرح کا تیزابی ماحول سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا میں طنز اور تحقیر کا مسئلہ رہے گا۔ اس طرح اداروں اور سیاسی حکمت کو جمہوریت میں خرابی کو روکنے کیلئے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سیاست سے بہت کم توقع کی جا سکتی ہے‘ جو بنیادی طور پر ذاتی جاگیروں کے تحفظ کی خواہش پر مبنی ہیں۔ اس کے بجائے آئینی سسٹم میں عقل و خرد کا احساس لانے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ اس میں ناکامی کی صورت میںہماری سرزمین میں جمہوریت کے پہلے سے شکستہ شعبے کو نقصان پہنچے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں