"FBC" (space) message & send to 7575

سیکولر بھارت کا مغالطہ

25مئی 2022کو جب پورے پاکستان کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے انجام کیلئے ٹیلی وژن سکرینوں کے ساتھ چپکا دیا گیا تھا‘ سرحد پار‘ دہلی میں‘ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزامات میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ یہ سزا خاص طور پر 2017ء کے ایک من گھڑت مقدمے میں سنائی گئی جس میں بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے دو سال کی تاخیر کے بعد‘ یاسین ملک کو ملوث کیا۔ اس اہم واقعے پر پاکستان سے جو ردعمل آنا چاہیے تھا‘ دیکھنے میں نہیں آیا۔ چند اعلیٰ سیاسی شخصیات کے ٹوکن بیانات ضرور آئے‘ باقی خاموشی چھائی رہی۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے بھارت کے معاملے میں جس بے ہمتی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا‘ حالیہ دنوں اس میں اضافہ ہو ا ہے۔ کسی نہ کسی طرح‘ کہیں نہ کہیں‘ لوگوں کی اجتماعی سوچ مجہول سیاست میں گم ہو چکی ہے۔ چاہے جیسا بھی ہو‘ قدرت اپنا راستہ اختیار کرنے کا ایک طریقہ رکھتی ہے اور ہمیں یقینا وقت کی عدالت میں ان جرائم اور مجرموں کیلئے مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا‘ لیکن بھارت کو بھی تاریخ میں زعفرانی چُھری کیلئے ناقابلِ معافی سزا دی جائے گی۔ وہ زعفرانی چُھری جس نے ''سیکولر بھارت‘‘ کے دھوکے یا مغالطے کے چھلکے اتار دیے ہیں۔
صدی کے موڑ پر‘ بھارتی معاشرہ ایشیا میں اگلی ''بڑی چیز‘‘ بننے کیلئے تیار تھا۔ ہم نے سرحد کے اس پار سے رشک کے ساتھ دیکھا کہ بھارت دنیا کو اپنے ہاں پیدا ہونے والے بھرپور مواقع سے آگاہ کر رہا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر بھلا دیا گیا تھا‘ حتیٰ کہ سرزمینِ ہند کے مسلمانوں نے بھی وادی میں ہونے والے مظالم سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔پاکستان کو ''دہشت گردی اور عدم برداشت کی جنت‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی بھارتی پالیسی کام کر رہی تھی اور نئی امریکہ بھارت سٹریٹیجک شراکت داری جغرافیائی و سیاسی ثمرات دے رہی تھی۔ پھر مودی آ گیا۔ گجرات کے قصائی کے طور پر جانے جانے والے مودی نے اپنے آپ کو 'انکریڈیبل انڈیا‘ کے داعی کے طور پر دوبارہ برانڈ کیا تھا‘ لیکن حقیقت میں یہ محض برانڈنگ ہی تھی۔ احتیاط سے تعمیر کردہ جمہوری نظریے کے پردے کے نیچے مودی کا ابلتا ہوا ہندو توا کا نظریہ تھا‘ جو حملہ آور ہونے کیلئے کسی مناسب لمحے کا منتظر تھا۔ مودی کی دوسری انتخابی مہم کے دوران‘ اس نے خود کو ظاہر کر ہی دیا۔ پلوامہ کے فالس فلیگ واقعے کے تحت مودی نے فروری 2019ء میں پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس کے پُرجوش بنیاد پرست حامیوں نے اس خیال کو پسند کیا‘ جس نے مودی کو مئی 2019ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت دلائی۔ اس جیت نے ہندوتوا کے غنڈوں کو یہ مینڈیٹ دے دیا کہ وہ نفرت کے اپنے نظریے کو مضبوط کرنے کیلئے مزید کھل کھیلیں۔ اگلا قدم اگست 2019ء میں کشمیر کی خود مختار حیثیت کو منسوخ کرنے کاتھا‘ اور اس کے ساتھ ہی مودی کی ہندو توا ویگن کے پہیے دوڑنا شروع ہو گئے۔ بھارت کا دائیں بازو کا فاشسٹ نظریہ پوری دنیا کے سامنے تھا۔ یہاں تک کہ بھارت کے اندر بھی ذی شعور آوازوں نے عوامی سطح پر مودی پر سوال اٹھانا شروع کر دیے۔ مسلمان‘ مسیحی حتیٰ کہ نچلی ذات کے ہندو بھی اپنی ریاست کو عوام دشمن تصور کرنا شروع ہو گئے‘ لیکن فاشسٹ مودی نہیں رکا۔ اس کے بعد اس سے بھی زیادہ متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ آیا۔ ایک ایسا قانون جو بھارت کے مسلمان تارکینِ وطن کی شہریت منسوخ کرتا ہے۔ جیسے ہی پورے بھارت میں لاکھوں لوگ اس اقدام کے خلاف سڑکوں پر نکلے‘ مودی نے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا۔ اس نے اپنے دائیں بازو کے غنڈوں کو مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے اور اذیت دینے کی اجازت دے دی۔ دنیا بھر میں لوگوں نے یہ تسلیم کرنا شروع کر دیا کہ صرف مقبوضہ کشمیر ہی میں حالات خراب نہیں‘ پورے بھارت میں ایک جیسی صورتحال ہے۔ نسل پرست اورمسلم دشمن مودی اقلیتوں کا مخالف تھا۔ بھارت بھر میں‘ خاص طور پر دہلی میں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں نے لاکھوں اقلیتی افراد (بیشتر مسلمانوں) کو بے گھر کر دیا گیا۔ ان کے گھروں کو ہندوتوا کے غنڈوں نے جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔ راتوں رات یہ اقلیتیں اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کا سب سے بڑا گروہ بن گئیں۔ بھارت کا مکروہ سیکولرازم اپنی پوری بے شرمی کے ساتھ کھل کر سامنے آ چکا تھا۔
مودی ابھی اس سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ کورونا وائرس بھارت پہنچ گیا اور اچانک غربت‘ نقل مکانی‘ بیروزگاری اور کمزور سماجی تحفظ کے ڈھانچے کے معاملے میں بھارت کی کمزوریاں سب کو نظر آنے لگیں۔ وبائی مرض پر قابو پانے کیلئے مودی کی پالیسیاں‘ جن میں پورے بھارت کو چار گھنٹے کے نوٹس پر بند کرنا بھی شامل تھا‘ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بنیں۔ اس طرح یہ بیماری پسماندہ اور اقلیتی آبادی والے علاقوں میں پھیل گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ مودی کی پالیسیاں صرف اعلیٰ طبقے کے ہندوؤں کی زندگیوں کے تحفظ کیلئے وضع کی گئی ہیں۔ بھارت بھر میں کورونا وائرس کے بے تحاشا پھیلاؤ کا سامنا کرتے ہوئے‘ مودی کی نسل پرست حکومت نے ان ہتھکنڈوں کی طرف رجوع کیا جو آزمودہ تھے۔ مودی کی ہندوتوا حکومت نے اس وبا کو خالصتاً فرقہ وارانہ مسئلے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اورتبلیغی جماعت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا۔ مودی کے وزرا ''کورونا جہاد‘‘ اور ''تبلیغی وائرس‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے تھے اوربھارتی میڈیا اس پروپیگنڈے میں شامل ہونے پر نازاں تھا۔
بھارت ابھی کورونا وائرس کے اثرات سے دوچار تھا کہ مودی نے پاکستان کے ساتھ تنازع کا ڈھول پیٹنے کی اپنی حکمت عملی سے رجوع کر کے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کیلئے بھارتی حکومت نے دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ وہ طاقت کے ذریعے پورے کشمیر پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے‘ بشمول آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان اور اقصائے چن۔ اور یہ کہ‘ اس طرح‘ وہ سی پیک کی شہ رگ کاٹ دے گی۔ ایسا کرنا بعید از قیاس تھا۔ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں چین کے مفادات کیلئے بھی خطرہ پیدا ہو گیا اور چین اپنی فوجی طاقت سے اس کا دفاع کرنے کو تیار تھا‘ نتیجتاً مودی کے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے رد عمل میں چین نے وادی گلوان اور پینگونگ جھیل کے علاقے میں اپنی فوجیں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس تنازع میں بھارت کو دو درجن سے زائد فوجیوں کے ساتھ ساتھ کافی علاقے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ جب یہ تنازع بھڑک رہا تھا تو چین نے اپنی 'نرم طاقت‘ کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے بھارتی ہمسایوں (بشمول نیپال اور بھوٹان) کو مودی کے خلاف موڑا اور جن عالمی طاقتوں پر مودی نے حمایت کیلئے انحصار کیا تھا‘ ان میں سے کوئی بھی اس کی مدد کو نہ پہنچ سکی۔
اگر کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مودی کی فاشسٹ حکومت نے سبق سیکھ لیا ہوگا تو وہ غلطی پر ہیں۔ مودی نے اپنی نسل پرستانہ پالیسیوں کو تیز کر دیا ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم کو دوگنا کرکے‘ اور اب یاسین ملک کو سزا سنا کر۔ اور بہت سے لوگوں کیلئے‘ جو بھارت کی جغرافیائی سیاست کی پیروی کرتے ہیں‘ یہ ''سیکولر بھارت‘‘ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ کشمیریوں کے جذبہ حریت کو بڑھائے گا‘ بھارت بھر میں مسلم اقلیت کو بے چین کرے گا اور ہندوتوا کے خلاف نفرت کی آگ کو مزید بھڑکائے گا۔ جب مودی دوسری مدت کیلئے منتخب ہوا تو سب کو توقع تھی کہ وہ دائیں بازو کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرے گا‘ لیکن کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ وہ بھارت کو عدم برداشت والے فاشزم کے دہانے پر لے آئے گا‘ اور پھر اس چٹان پر سے چھلانگ لگا دے گا۔ جب بھی بھارت کے اس دور کی بے لاگ تاریخ لکھی جائے گی‘ تو مودی کو یاد رکھا جائے گا‘ وہ شخص جس نے اکیلے ہی ''سیکولر‘ انکریڈیبل انڈیا‘‘ کے خیال کو نیست و نابود کر دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں