"FBC" (space) message & send to 7575

یہ جوش ہمیں کہاں لے جائے گا؟

عمران خان کو سیاست میں جو مقبولیت حاصل ہے اس نے زیرک اور گھاگ سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا ہے۔ اُس نے ٹوٹ پھوٹ کے شکار سٹیٹس کو یعنی جمود کی لپیٹ میں آئے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے جو اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ اب کوئی اس کی سیاسی بالادستی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ آپ عمران خان یا اس کے بیانیے سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں‘ آپ اس کی کامیابی کے امکانات پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں مگر آپ اس کی مقبولیت سے انکار نہیں کر سکتے جس کی بازگشت خیبر پختونخوا سے لے کر پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ میدانوں تک یکساں سنائی دے رہی ہے۔ وسائل کی قلت‘ قدرتی آفات اور 25مئی کو رانا ثنا اللہ کی طرف سے ریاستی مشینری کے وحشیانہ استعمال کے باوجود عمران خان جہاں جاتا ہے انسانوں کا ایک سمندر اس کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ عمران خان کی اس مقبولیت کے پس پردہ کیا اسباب اور وجوہات کار فرما ہیں؟ پاکستانی سیاست کے تناظر میں یہ ایک بنیادی سوال ہے جو گہرے تجزیے کا متقاضی ہے۔
سیاسی نظام آئینی اورجمہوری ہو یا آمرانہ‘ عوام پر حکومت کرنے کے تین طریقے ہوتے ہیں: اول خوف اور طاقت کے استعمال کے ذریعے۔ دوم: رعایا کی بے حسی اور لاتعلقی کی صورت میں۔ سوم: احترام اور لیڈر شپ کی مدد سے۔ پہلا طریقہ ہے خوف اور طاقت کے ذریعے عوام پر حکومت کرنا۔ اسے فوری طور پر سمجھنا اور پہچاننا بہت آسان ہوتا ہے۔ ہمدردانہ بیانیے‘ گمراہ کن اور کھوکھلی نعرے بازی کے باوجود خوف اور طاقت کے ذریعے قائم حکومت کے لیے اپنی حقیقت کو چھپانا ممکن نہیں ہوتا۔ استعماری حکومتیں بھی ایسی کسی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ یہ طریقہ بادشاہت میں بھی ناکامی سے دوچار ہوا۔ نام نہاد جمہوریت پسندوں اور اُن خود ساختہ نجات دہندوں کے لیے بھی بیکار ثابت ہوا جنہوں نے ریاستی مشینری کے بل بوتے پر اپنی سیاسی بالا دستی قائم رکھنے کی کوشش کی۔ 25مئی کو رانا ثنا اللہ کے حکم سے جو کچھ ہوا وہ خوف اور طاقت کے بے محابا استعمال کے ذریعے اپنی حکومت قائم رکھنے کی ایک کوشش تھی۔ عمران خان کے مذکورہ مارچ کے دوران حکومت نے راستے بلاک کرکے‘ آنسو گیس کے شیل چلا کر‘ لاٹھی چارج اور گرفتاریاں کرکے عوام کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ وہ عمران خان کے مارچ میں شامل نہ ہو سکیں۔ وقتی طور پر اسے کامیابی مل بھی گئی۔ وزیر داخلہ اور ان کے حواریوں نے سمجھ لیا کہ عمران خان عوام کو اپنے حق میں متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے؛ تاہم 25مئی کے بعد انہیں اچھی طرح سمجھ آگئی کہ آہنی ہاتھوں سے عوام پر حکمرانی تو کی جا سکتی ہے ان کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔
حکمرانی کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عوام بالکل بے حسی اور لاتعلقی کا مظاہرہ کریں او ر یہ مشکل ترین طریقِ حکومت ہے۔ دیکھنے والے کو اس کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ اس طریقے سے آپ ایک ایسی حکومت قائم کر لیتے ہیں جسے کبھی عوام کی اشیر باد اور پسندیدگی نصیب نہیں ہوتی۔ عوامی دلچسپی اور فلاح عامہ کے امور سے متعلق فیصلے بند کمروں میں ہوتے ہیں۔ احتساب کا عمل عوام کی دسترس سے ماورا ہوتا ہے۔ انتظامی امور میں عوام کی شرکت مفقود ہوتی ہے۔ عدالتی نظام عوامی جذبات کے اظہار اور احتساب یعنی (توہینِ عدالت اور ججوں کی تقرری اور معزولی کے عمل سے) قطع تعلق نظر آتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ سیاسی حکمرانی ان چند افراد کے انتخاب تک محدود ہو جاتی ہے جو اپنے خاندانی حسب نسب‘ دولت یا خوف کے ذریعے رعایا پر حکومت کرتے ہیں۔ قانون سازی مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کے تحفظ اورکمزوروں کو عدالتوں میں گھسیٹنے کے لیے کی جاتی ہے۔ جب کبھی اس حکومتی عملداری یا اس کے سٹیک ہولڈرز کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے تو اسے دبانے اور مقتدر لوگوں کے تحفظ کے لیے قانون کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب یہ کارگر ثابت نہیں ہوتا تو اس ایشوکو اس پیچیدہ نظام کی طرف ریفر کر دیا جاتا ہے جو نہ توکوئی نتائج دیتا ہے نہ اس تنازع کو حل کرتا ہے۔
درحقیقت ایسے نظام سے عوام کی دلچسپی ختم ہونے لگتی ہے۔ ایسے حکومتی نظام میں جن لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہ پولیس کے پاس بھی نہیں جاتے کیونکہ کوئی تھانہ بھی طاقتور کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لاتا۔ وہ اپنے مسائل کے لیے کسی پٹواری کے پاس جانے سے بھی گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا مسئلہ حل ہونے میں کئی عشرے لگ سکتے ہیں۔ وہ انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹاتے اور اس کی وجوہات بھی سب لو گ جانتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اس نظام پر عوام کا اعتماد اس قدر کمزور پڑ جاتا ہے کہ وہ اس میں شامل ہونا ہی ترک کر دیتے ہیں۔ آپ کتنے ہی ایسے لوگوں کو سن چکے ہوں گے جو کہتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی ووٹ نہیں دیں گے یا یہ کہ پولیس کو کسی جرم کے بارے میں نہ بتانا یا انصاف کے لیے کسی عدالت میں نہ جانا ہی بہتر ہے۔ پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آگے میدان صاف ہے اور کوئی روکنے والا نہیں۔ عوام بے حس اور لاتعلق ہو جائیں تو اس سماجی اور سیاسی نظام کے باسی جتنی چاہیں تباہی مچا سکتے ہیں۔ جب عوام کی یہ آواز رفتہ رفتہ اس طرزِ حکمرانی کے سامنے ہتھیار پھینک دیتی ہے تو اعلان کر دیا جاتا ہے کہ عوام نے اس نظام کو قبول کر لیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ عوام احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلتے‘ یا وہ جبر کے سامنے احتجاج کرنے کے قابل ہی نہ تھے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ حکومت کو عوام کی مکمل اشیر باد حاصل ہے۔
حکمرانی کا تیسرا طریقہ باہمی احترام اور لیڈر شپ ہے اور یہ ایسا طریقہ ہے جس کا ہمیں پاکستان میں آج تک کوئی تجربہ نہیں ہوا۔ ہم نہیں جانتے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ ہمیں کہاں لے جا سکتا ہے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ ہمیں پسند بھی آئے گا یا نہیں۔ چونکہ اس نظام نے ایسی مزاحمت پہلے کبھی دیکھی نہیں شاید اسی وجہ سے ''سٹیٹس کو‘‘ کا شکار غیر فعال اور گلا سڑا نظام عمران خان کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ہم تو یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ سٹیٹس کو کی زنجیروں سے آزاد عمران خان پاکستا ن کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔ اس وقت عمران خان کو (کسی بھی طرح سے) سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے سوا کوئی ایسا طریقہ نظر نہیں آرہا کہ انہیں مسندِ اقتدار واپس لینے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ عمران خان نے عوام کے جوش اور جذبے کو اس قدر بیدار کردیا ہے کہ ان سے پہلے کوئی بڑا سیاست دان یہ کام نہ کر سکا۔ ایسا جذبہ جو ''لاالہ الا اللہ‘ ایبسولیوٹلی ناٹ اور امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘ کے نعروں کے گرد گھومتا ہے۔ ان نعروں کے کچھ الفاظ پہلے بھی استعمال ہوتے رہے ہیں مگر اس طرح اکٹھے کبھی نہیں استعمال ہوئے نہ کبھی کسی نے ہزاروں لاکھوں پرجوش کارکنوں کو اس طرح جلسہ گاہوں میں کسی لیڈر کا انتظار کرتے دیکھا (اور نہ کبھی اس سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگوں کو اپنے گھروں میں اس کی تقاریر سنتے دیکھا ہے)۔
کوئی نہیں جانتا کہ یہ جوش و جذبہ عمران خان اور پاکستان کو کہاں لے جائے گا؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ اس سماجی نظام کو بہتر اور ترقی یافتہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے یا پھر وہ اسے تباہ و برباد کر دے گا۔ ہم سب مل کر دعا کرتے ہیں کہ عوام کا بظاہر یہ ناقابلِ شکست جوش و جذبہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں