"FBC" (space) message & send to 7575

ناکام ہوتی جمہوریت؟

پاکستان کا سیاسی ادارہ جس کی قیادت شریف‘ زرداری اور مولانا مشترکہ طور پر کر رہے ہیں، کام نہیں کر رہا۔ ٹھیک ہے‘ یہ اس حد تک کام کر رہا ہے کہ ہمارے پاس حکومت ہے؛ تاہم عوامی قبولیت کے کسی بھی قابلِ اعتبار پیمانے کے مطابق اس حکومت کو نہ تو ہمارے عوام کی اکثریت کا‘ نہ ہمارے دوستوں اور اتحادیوں کا اور نہ ہی ریاستی اداروں کا اعتماد حاصل ہے۔
ملکی اور بین الاقوامی قابلِ اعتبار تنظیموں کی طرف سے کیے گئے متعدد حالیہ پولز کے مطابق اس حکومت پر عوام کا اعتماد 30فیصد کی کم ترین سطح پر ہے‘ اور مسلسل کم ہو رہا ہے۔ دوسرے طریقے سے دیکھیں‘ 10میں سے تقریباً 7 پاکستانی‘ جو ووٹ دینے کے اہل ہیں‘ موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت اور اس کے کام کرنے کے طریقے پر اعتماد نہیں کرتے۔ یہ حکومت جو طے شدہ آئینی عمل (عدم اعتماد کے ووٹ) کے ذریعے تشکیل دی گئی تھی‘ اور اسے پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت حاصل ہے‘ آئینی جواز کے باوجود پورے پاکستان میں اس کا سیاسی اور اخلاقی اختیار اتنا کم کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے جمہوری نظام کی فلسفیانہ بنیادوں اور خوبیوں پر ایک بار پھر نظر ڈالنا مناسب ہو گا۔ سر ونسٹن چرچل کے الفاظ میں جمہوریت حکومت کی سب سے کم بری شکل ہے جس کو قانونی حیثیت سیلف رُول کے تین بنیادی اصولوں سے حاصل ہوتی ہے: (1) عوام نے ایک شفاف اور جائز عمل کے ذریعے اپنی آزادی کے محافظوں کا انتخاب کیا ہے۔ (2)یہ نمائندے ذاتی اور سیاسی طرزِ عمل میں اخلاقی اور سیاسی استحکام کے کم از کم سماجی معیارات پر عمل پیرا ہوں۔ (3)جمہوری ادارے کی قانون سازی اور انتظامی فیصلوں کا رخ حلقوں (جو سیاسی طاقت کے حقیقی محافظ ہیں) کی فلاح و بہبود کی طرف موڑا جائے گا۔
آئیے ان تین جمہوری اصولوں کی کسوٹی پر موجودہ حکومت اور اس کی جمہوری‘ قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حقیقت پر کم ہی نکتہ چینی ہو سکتی ہے کہ موجودہ حکومت آئینی عمل کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک طریقہ کار کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی‘ اور اس کے بعدقومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے اسے منظور کیا گیا۔ بعد ازاں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کو آئین کے آرٹیکل 91(4) کے مطابق قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت کے ذریعے باضابطہ طور پر اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس کے باوجود‘ موجودہ حکومت کو عوامی قبولیت اور اعتماد کے لحاظ سے قانونی حیثیت کے بحران کا سامنا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حکومت‘ جسے پارلیمانی اکثریت حاصل ہو‘ اقتدار میں آنے کے ابتدائی چند مہینوں میں ہی عوامی اعتماد کی اس قدر کمی کا سامنا کر رہی ہو؟ اس حوالے سے تمام تر ادارہ جاتی کوششوں کے باوجود پارلیمانی اکثریت عوامی اکثریت میں کیوں نہیں بدل سکی؟ کیا ہمارا جمہوری 'نظام‘ ایسی حکومت کو اقتدار میں لا سکتا ہے جس کی کوئی عوامی قبولیت نہ ہو یا بہت کم ہو؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہمارا 'جمہوری نظام‘ کام کر رہا ہے؟
سیاسی اور سماجی حقیقت کے مابین اس بظاہر ناقابلِ تسخیر دراڑ کو بھرنے کا ایک آسان طریقہ ہے: موجودہ حکومت 14سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے‘ جسے ڈکٹ ٹیپ اور گوند کے ذریعے ملا کر رکھا گیا ہے۔ نچلی سطح پر ان جماعتوں کے حامی نظریاتی اور سیاسی طور پر ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھی شیری رحمن کے لبرل ازم کی حمایت نہیں کرتے۔ پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ مسلم لیگ (ن) کے سرمایہ داروں سے پیچھے نہیں رہتے اور پی ٹی ایم کے رہنما اور محمود اچکزئی اس کمزور اتحاد کو ایک ساتھ رکھنے والے گلو سے فطری طور پر متصادم ہیں۔ اس طرح اس اتحاد کے مرکز میں اس کے سیاسی حامیوں کو ریاست کے اس اَن چارٹرڈ جہاز کے اجتماعی نظریے کی شناخت کرنے اور اس سے منسلک رہنے میں دشواری کا سامنا ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان پارٹیوں نے عوام سے اجتماعی مینڈیٹ نہیں لیا بلکہ یہ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے اقتدار میں آئیں۔ یہ ایک آئینی حکومت ہے‘ بالکل درست‘ لیکن اجتماعی عوامی مینڈیٹ رکھنے کے حوالے سے یہ 'جمہوری‘ نہیں ہے۔
اگلا معاملہ کم سے کم اخلاقی اور معاشرتی معیار سے جڑے رہنے کا ہے۔ شاید اس حکومت کی جمہوری حیثیت کو سب سے بڑا دھچکا اس کی قیادت کے اخلاقی اور معاشرتی معیارات کے مکمل انحطاط سے پہنچا ہے۔ اس حکومت کی قانونی حیثیت کے خلاف سب سے کمزور دلیل کا خلاصہ ایک ہی تصویر میں کر دیا گیا ہے جس میں شہباز شریف‘ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو ایک اتحاد میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دکھایا گیا تھا۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں‘ لیکن یہ دلیل کسی طور پیش نہیں کی جا سکتی کہ یہ سیاسی رہنما (ان کی جماعتیں) گزشتہ 37برسوں میں (1985ء سے) بدعنوانی میں ملوث نہیں۔ 'بدعنوانی اور بدانتظامی سے متعلق کئی دہائیوں کے ناقابل تردید شواہد کے بعد عوام کو یہ باور کرانا کہ ایسے سیاستدانوں کا یہ گروہ پاکستان میں جمہوریت کیلئے درست انتخاب ہے۔ اس دلیل کے کامیاب ہونے کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنے آتش فشاں میں برف کے تودے موجود ہونے کے۔ پاکستان میں عملی طور پر کوئی بھی ایسا نہیں جو یہ تسلیم کر لے کہ شریف خاندان‘ یا زرداری فیملی یا مولانا کے امتزاج سے ہمارے ملک میں تیز رفتار تبدیلی لائے جانے کا کوئی امکان ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے‘ ہماری سیاسی تاریخ کے مختلف مواقع پر‘ خاص طور پر مغرب کے دباؤ میں‘ ایسے ناقابل اصلاح اخلاقی اور سیاسی سمجھوتے کیے کہ کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ پاکستان میں جمہوری بحالی کی کلید ان جماعتوں کے پاس ہے۔ در حقیقت اجتماعی طور پر دیکھا جائے تو ان سیاست دانوں نے جمہوریت کے اس پرانے وعدے کو بے نقاب کر دیا ہے‘ جس میں اصرار کیا گیا ہے کہ جمہوری عمل‘ وقت گزرنے کے ساتھ‘ بدعنوانوں اور نااہلوں کو نظام سے باہر نکال دے گا۔
آخر میں سیاست دانوں کے اس مخصوص گروہ کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ دلیل دینا بھی مشکل ہے کہ عوامی پالیسی کے فیصلے‘ انتظامی یا قانون سازی کے حوالے سے‘ ذاتی جاگیروں کے تحفظ کے بجائے عوامی بہبود میں کیے جائیں گے۔ درحقیقت‘ اس سلسلے میں پہلا آرڈر آف بزنس پہلے ہی سامنے آ چکا ہے: نیب آرڈیننس میں ترامیم۔ ان ترامیم کے ذریعے نہ صرف نیب کو ایک بے ضرر باڈی میں تبدیل کر دیا گیا ہے بلکہ شریف اور زرداری خاندان کے زیر التوا مقدمات‘ نیب کے (ترمیم شدہ) دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی وجہ سے جلد ہی خارج کر دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کی منسوخی بھی عمل میں لائی گئی۔ درحقیقت بجٹ کے علاوہ یہ صرف تین قانون سازی کے آلات ہیں‘ جو اس حکومت نے پاس کیے ہیں۔ کیا کوئی واقعی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ ساری قانون سازی ''عوامی فلاح و بہبود‘‘ کیلئے تھی؟
جمہوریت ایک کمزور مالکن ہے۔ یہ ان آئینی نظاموں کی بنیاد پر کم کام کرتی ہے جو اس کی کامیابی کی ضمانت دیتے ہیں اور اپنے شرکا کی اخلاقی اتھارٹی پر زیادہ۔ موجودہ حکومت اگرچہ طریقہ کار میں جمہوری ہے مگر اخلاقی اتھارٹی سے بالکل عاری ہے۔ اگر اس طرح کا نظام زیادہ دیر تک چلتا رہا تو بہت جلد ہمیں خود جمہوریت کے خلاف سرگوشیاں سنائی دینے لگیں گی کہ یہ اپنے وعدے پورے نہیں کر پائی، اور یہ کہ اسے بدعنوان اشرافیہ کے ایک گروہ نے ہائی جیک کر رکھا ہے‘ جن کی واحد خواہش اقتدار کے ذریعے استثنیٰ حاصل کرنا ہے۔ اس سے پہلے کہ ایسا ہو‘ ہمیں اس میں واضح اصلاح کرنی چاہیے‘ اور اگر ضرورت ہو تو ملک میں جمہوری حکمرانی کے لیے ایک نیا (بہتر) نظام تحریر کرنا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں