"FBC" (space) message & send to 7575

مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت کا جائزہ

تین سال بیت گئے کہ اگست کا مہینہ ایک تلخ و شیریں قومی بیانیے کی یاد دلاتا ہے۔ 14اگست ایک طرف آزادی کی 75ویں سالگرہ اور جذباتی یادیں لے کر آیا تو دوسری جانب 5اگست ایک دن دہاڑے آئینی ڈاکے کی یاد دلاتا رہا جو بھارت نے اپنی قابض فوجوں کی مدد سے کشمیری عوام کے حق پر ڈالا ہے۔گزشتہ تین سال سے کشمیر کے عوام بی جے پی کی فاشسٹ حکومت کے زیر عتاب زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انسانی حقوق کی غیر معمولی پامالی اور ریاستی تشددکی داستانوں کے باوجود عالمی برادری ایک عمومی بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ صد حیف کہ مٹھی بھر سیاست دانوں کی جائز کوششوں کے باوجود ہمارے اربابِ سیاست مسئلہ کشمیر سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ اس لاتعلقی کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو جس بھونڈے انداز میں کشمیر کو اپنی ریاست میں مدغم کیا ہے ہم اس کے آئینی اور قانونی ایشوزکا مکمل ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ مسئلے کے حل کے لیے پہلے ہم کشمیر کے بھارت میں انضمام سے متعلق فریم ورک کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
کشمیر کی بھارتی یونین میں غیر قانونی شمولیت کا عمل ایک صدارتی حکم نامے (CCO,272) کی روشنی میں مکمل کیا گیا تھا جس نے جموں وکشمیرکے آئین اور (درحقیقت) بھارتی دستور کے آرٹیکل 370 اور 35Aکو منسوخ کردیا گیا تھا۔ آرٹیکل 370کیا تھا اور یہ اس قدر اہمیت کا حامل کیوں ہے؟ آرٹیکل 370بھارتی دستور کی وہ شق ہے جو جموں و کشمیرکے ریجن کو ایک خصوصی خود مختار سٹیٹس عطا کرتی ہے اور یوں اس نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی اس وقت بنیاد فراہم کر دی جب اس شاہی ریاست کے پاس یہ چوائس تھی کہ وہ 1947ء میں آزادی کے بعد بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ شمولیت اختیار کر لے۔ آرٹیکل 370تو 1949ء میں نافذ ہوا تھا اور اس نے جموں و کشمیر دستور ساز اسمبلی کو اس کے قیام کے بعد ہی یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ فیصلہ کرے کہ بھارتی آئین کی کون سی شقوں کو اس ریجن پر نافذ کیا جا سکتا ہے اور اسی اسمبلی کو بھارتی آئین منسوخ کرنے اور اس کی جگہ اپنی مکمل سیلف گورننس کے فیصلے کا اختیا ربھی ودیعت کر دیا تھا۔جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی سے مشاورت کے بعد اس فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے بھارت نے 1954ء میں ایک صدارتی آرڈر جاری کیا جس کے تحت بھارتی آئین میں آرٹیکل 35Aمتعارف کرایا گیا۔ اس آرٹیکل کے تحت کشمیر کی ریاستی اسمبلی کو کشمیر کے مستقل باشندوں کی تشریح کا اختیار مل گیا‘ نیز اسے بھارتی آئین کے ان آرٹیکلز کی تشریح کا اختیار بھی مل گیا جن کا اطلاق کشمیر پر ہوگا اور کشمیر کو خزانہ‘ دفاع‘ خارجہ امور اور مواصلات کے سوا تمام امور سے متعلق قانون ساز ی کی اجازت بھی مل گئی۔ آرٹیکل 35A‘ جسے مستقل باشندوں کا قانون کہا جاتا ہے‘ کے تحت غیر کشمیریوں کے یہاں زمین خریدنے اور کشمیر میں مستقل آباد ہونے پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان تمام آئینی شقوں کی موجودگی میں جموں و کشمیر کے خطے کو اپنا آئین‘ پرچم‘ شہریت‘ ریجن میں اپنی حکومت کے قیام کا اختیار دینے کے ساتھ ساتھ غیر کشمیریوں کا جائیداد کی خریداری کا استحقاق ختم کردیا گیا۔درحقیقت ان آئینی شقوں کی مدد سے اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ بھارت کو آئینی طور پر کشمیر میں صرف اس حد تک اور ان امور میں کنٹرول حاصل ہوگا جنہیں کشمیری عوام نے (اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے) تسلیم کیا ہے۔ کشمیری عوام کی یہ چوائس‘ جسے جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی وساطت سے منظور کیا گیا تھا‘ بھارت کی اس خطے میں موجودگی کو اخلاقی اور آئینی بنیاد فراہم کرتی تھی۔
اسی فریم ورک یعنی دائرہ کار میں رہتے ہوئے آرٹیکل 370اور اس کی ذیلی شقوں کو تکنیکی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی اجازت کے بعد ہی ختم کیا جا سکتا تھا؛ تاہم جموں اینڈ کشمیر دستور ساز اسمبلی کو 1957ء میں تحلیل کر دیا گیا تھا؛ چنانچہ آرٹیکل 370اور اس کے ذیلی ثمرات کو ایک دائمی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہ میرا ہمدردانہ تجزیہ یا رائے نہیں ہے۔ دراصل سپریم کورٹ آف انڈیا نے 2018ء میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ آرٹیکل 370 کو ''دائمی حیثیت حاصل ہے اور اسے کسی صورت منسوخ نہیں کیا جا سکتا‘‘؛ تاہم ریاستی حکومت کی عدم موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے متواتر صدارتی آرڈرزکی مدد سے نریندر مودی کی دائیں بازو کی فاشسٹ حکومت نے آرٹیکل 370کی عبارت میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا اور 2018ء میں ''دستور ساز اسمبلی‘‘ کے الفاظ کو ''قانون ساز اسمبلی‘‘ میں تبدیل کردیا گیا۔
حتیٰ کہ اگر آرٹیکل370 میں اس ترمیم کو جائز بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی ریاست کے قانونی سٹیٹس کو تبدیل کرنے کے لیے کشمیر کی ''دستور ساز اسمبلی‘‘ کی جگہ ''قانون ساز اسمبلی‘‘ سے منظوری حاصل کرنا لازمی ہے جس پر مودی حکومت نے عمل نہیں کیا۔ جون 2018ء میں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو ختم کردیا گیا تھا اور 18 دسمبر2018 ء کو ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 356کی روشنی میں نریندر مودی کی دائیں بازو کی حکومت میں صدارتی راج کے ماتحت کر دیا گیا جس کے بعد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے تمام اختیارات یونین یعنی مرکزی مقننہ کے پاس چلے گئے۔
اہم بات یہ ہے کہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370(3)کہتا ہے کہ ''صدر ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ آرٹیکل اب غیر مؤثر ہو گیا ہے یا بعض استثنیٰ اور ترامیم کے ساتھ مؤثر ہوگا‘‘؛ تاہم اس مقصد کیلئے ''صدر کی طرف سے کسی ایسے نوٹیفکیشن کے اجرا سے قبل ریاست کی مقننہ کی سفارش لازمی ہوگی‘‘۔ اس کیس میں چونکہ جموں و کشمیر کی مقننہ فنکشنل نہیں تھی؛ چنانچہ صدر نے اپنے ہی مقرر کردہ گورنر مقبوضہ جموں و کشمیر کے ساتھ مشاورت کی۔ ایک طرف جہاں یہ حقیقی اور بامعنی مشاورت نہیں تھی وہیں اس میں کشمیری عوام کی آواز اور نمائندگی بھی شامل نہیں تھی۔ درحقیقت مودی حکومت نے چودہ ملین کشمیری عوام کو ان کے جمہوری حقوق سے محروم کر دیا جو کہ سیکولر جمہوری بھارت کے نام پر ایک گھنائونا مذاق تھا۔ چونکہ مودی حکومت جانتی تھی کہ اس پر شدید رد عمل آئے گا تو بھارتی آئین سے کھلواڑ کرنے سے پہلے ہی حفظِ ماتقدم کے طور پر قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے خطے میں50ہزار سے زائد بھارتی فوجی تعینات کر دیے تھے جو بڑھ کر 6لاکھ تک ہوگئے‘ نیم فوجی دستے اس کے علاوہ تھے۔ اس ریجن کے تمام مواصلاتی رابطے بھی منقطع کر دیے گئے۔تو کیا آرٹیکل 370 کی معطلی سے کشمیر ایک آزاد ریاست بن گیا؟ اگر ایسا ہے تو کیا اب بھارت خطے کی ایک غیرقانونی طورپر قابض فورس کہلائے گا؟ چونکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی موجودگی کا جواز آرٹیکل 370 اور جزوی طورپر کشمیر ی عوام کی منشا کا مرہون منت تھا مگراسے اب منسوخ کر دیا گیا ہے۔ کشمیر میں پاکستان کی دلچسپی کی تین جہتیں ہیں اول: کشمیر کی سرزمین پچھلے 75 برسوں سے ہمارے شہداء کے خون سے رنگین ہے۔ دوم: کشمیری عوام جو ہمارے بھائی ہیں اور وہ پچھلی سات دہائیوں سے مسلح تحریک حریت میں اپنا خون بہا رہے ہیں۔ سوم: یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے ہماری لائف لائن یعنی ہمارے تمام دریائوں کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ بی جے پی کی قیادت پہلے ہی واشگاف الفاظ میں دھمکی دے چکی ہے ہم پاکستان کا پانی بند کرکے اسے قحط اور خشک سالی کے دلدل میں پھنسا دیں گے جس کا ہمارا ملک کسی طرح متحمل نہیں ہو سکتا۔
ہماری سیاسی قیادت کشمیر کے آئینی مقدمے کو سمجھنے کی بھرپو رکوشش کرے۔ سیاسی بیان بازی سے قطع نظر ان قانونی ایشوز کی بہتر تفہیم سے ہی ہم کشمیری عوام کو ان کی اس زبوں حالی سے پُرامن اور مثبت طریقے سے نکلنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں