"FBC" (space) message & send to 7575

پارٹی سربراہ یا کچھ بھی کہہ لیں

بدھ کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017کے خلاف اپنا مختصر فیصلہ سنایا جس میں اس نے نواز شریف کو مسلم لیگ نواز کی سربراہی سے ہٹا نے کا حکم دے دیا۔مختصر یہ کہ جو شخص بھی آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے تحت قومی اسمبلی کا رکن بننے کے لیے نااہل ہو وہ الیکشن ایکٹ 2017کے تحت کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بھی منتخب نہیں ہو سکتا۔چنانچہ اب نواز شریف مسلم لیگ نواز کی مزید سربراہی نہیں کر سکتے۔اس فیصلے کے آنے کے بعد مسلم لیگ نواز کے عام کارکنوں اور میڈیا کے ساتھ ساتھ وکلاء برادری میں اس کے ہمدردوں کے سپریم کورٹ کو جانبدارانہ ادارہ قرار دینے میںمزید شدت آگئی ہے۔
لہٰذا یہ سوال اپنی جگہ بجا ہے کہ کیا سپریم کورٹ نے کوئی جانبدارانہ فیصلہ سنایا ہے ؟کیا یہ مغل اعظم کو تخت سے معزول کرنے کے لیے ایک غیر علانیہ ''سازش ‘‘کی طرف ایک اور قدم تھا؟کیا عدالت نے پہلے سے طے شدہ نتائج حاصل کرنے کے لیے قانون کی من مانی تشریح کی ہے؟کیا پاکستان کے جاری سیاسی بحران میں سپریم کورٹ بھی ایک سیاسی جماعت بن گئی ہے؟
اس مقدمے کے بارے میں چند حقائق سے بات شروع کرتے ہیں۔الیکشن ایکٹ 2017ء پاس ہونے سے قبل سیاسی جماعتوں اور ان کے عہدیداروں کا کنڈکٹ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی روشنی میں جانچا جاتا تھا۔خصوصاً2002ء کے قانون کے مطابق ہر وہ شخص جو '' سروس آف پاکستان کا حصہ نہ ہو‘‘کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتا تھا۔تاہم متذکرہ بالا شق یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ ''ایسا شخص کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار نہیں بن سکتا اگر وہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے تحت پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہ ہو یا اسے رکن بننے سے نااہل قرار دیا گیا ہو۔‘‘ 
پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002ء 28جولائی 2017ء کو اس وقت بھی نافذ تھا جب نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل(f) 62(1)کے تحت پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔چنانچہ وہ پی ایم ایل این کی سربراہی سے بھی محروم ہو گئے ۔فیصلہ آنے کے فوراًبعد مسلم لیگ نواز کے سیاسی کرتا دھرتائوں نے نئے پولیٹکل ایکٹ 2017ء کو حتمی شکل دے کر اسے پاس کر دیا(جسے مسلم لیگ نواز نے اپنے پہلے چار سالہ دور حکومت میںمتعارف کرانے کی اس وقت مخالفت کی تھی جب تمام سیاسی جماعتیں الیکشن اصلاحات کے لیے شور مچا رہی تھیں۔)2017ء کے ایکٹ نے 2002ء کے پولیٹکل پارٹیزآرڈر کو منسوخ کر دیااور ایک نیا قانونی ضابطہ متعارف کرا دیا جس کے تحت کسی بھی نااہل شخص کے لیے سیاسی جماعت کا عہدیدار ہونے کی ممانعت نہیں تھی۔
معزز سپریم کورٹ کے روبرو پندرہ الگ الگ درخواستوں کے ذریعے اس قانون کو چیلنج کیا گیا جن میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ ایک نااہل شخص کو(وہ جو کوئی بھی ہو) کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار بننے سے روکا جائے۔معزز سپریم کورٹ نے تمام متعلقہ فریقوں کو سننے کے بعد گزشتہ ہفتے اپنا مختصر فیصلہ سنا دیا سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے جس کی تفصیلی وجوہات بعد میں دی جائیں گی میں لکھا کہ متعلقہ آئینی اور قانونی شقوں کو ملا کر پڑھیں تووہ یہ تقاضا کرتی ہیں کہ جو شخص آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ میں بیان کردہ اہلیت یا نااہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا (وہ جماعتی سربراہ کی حیثیت سے پارلیمنٹ سے باہر بیٹھ کر)پارلیمنٹ کے فنکشن اور کنڈکٹ پر اثر انداز ہو سکتا ہے‘ نہ اس پر کنٹرول رکھ سکتا ہے۔
معزز عدالت کے مختصر فیصلے میں دی گئی وجوہات درج ذیل قانونی تقاضوں پر مبنی ہیںاول :آئین کی تمہید (Preamble) یعنی قرار داد مقاصد یہ قرار دیتی ہے کہ انجمن سازی یعنی ایسوسی ایشن (سیاسی سرگرمی)کا حق قانون اور اخلاق عامہ سے مشروط ہے۔دوم :آئین کے آرٹیکل 17کے تحت حاصل(ایسوسی ایشن کی آزادی)ایک غیر مشروط حق نہیں ہے اور یہ قرار دیتا ہے کہ ہر شہری کو انجمن سازی کا بنیادی حق ہے بشرطیکہ آئین کے تحت کوئی قانون پاکستان کی وحدت اور خود مختاری ،پبلک آرڈر یا اخلاقیات کے مفاد میں کسی قسم کی قدغن نہ لگاتا ہو۔سوم :آئین کے آرٹیکلز 62,63,63(A)اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ایک مکمل فریم ورک وضع کرتے ہیںکہ پارلیمنٹ کے امو رخواہ پارلیمنٹ کے اندر ہوں یا باہر صرف راست بازی ،سالمیت اور اعلیٰ کردار کے حامل افراد سر انجام دیں گے۔ چہارم :آئین کے آرٹیکل 63-Aکے تحت پارٹی سربراہ کو وزیر اعظم کے انتخاب، منی بلز کی منظوری اور آئینی ترامیم کے لیے وسیع تر اختیارات حاصل ہیں۔پنجم :الیکشن ایکٹ بذات خود پارٹی سربراہ کو کثیر جہتی فرائض سر انجام دینے کے اختیارات عطا کرتا ہے جن کا انتخابی عمل اور سیاسی جماعتوں کے فرائض سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ششم :چنانچہ الیکشن ایکٹ کی شقوں(بشمول سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں سے متعلق شقوں)کا لازمی تقاضا ہے کہ ان کوآئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ اور تریسٹھ اے کے ساتھ مشروط کر کے پڑھا یا تشریح کی جائے جو تقاضا کرتی ہیںکہ جو شخص آرٹیکل باسٹھ کے تحت اہلیت نہ رکھتا ہو یا آرٹیکل تریسٹھ کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہو۔اس کے پارٹی سربراہ یا اسے جو بھی نام دے لیں‘بننے پر پابندی ہے۔
سیاسی بیان بازی سے قطع نظر یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس آرڈر کا کون سا حصہ یا قانونی اور آئینی استدلال جانبدارانہ نوعیت کا حامل ہے۔کیا یہ ہمارے علم قانون (Jurisprudence)کا ایک طے شدہ اصول نہیں ہے کہ ہر دستوری قانون (بشمول الیکشن ایکٹ 2017)کو آئین کے مطابق پڑھا جائے‘ تشریح کی جائے اور نافذ کیا جائے؟اسے ایک اور طرح دیکھتے ہیں۔اگر آئین کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ کے تمام فیصلے ایسے افراد کریں جو آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترتے ہوںتو کیا ذیلی آئینی قانون سازی کر کے کسی نااہل فرد کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے (پارلیمنٹ سے باہر بیٹھ کر )پارلیمانی مینڈیٹ کو ڈکٹیٹ کرائے؟اس کے بعد کیا ہوگا ؟کیا غیر ملکی شہری ہمارے قانون سازی کے ایجنڈے کا فیصلہ کریں گے ؟کیا سزا یافتہ مجرم یہ فیصلہ کریں گے کہ ہماری پارلیمنٹ کے ارکان کس شخص کو ہمارا وزیر اعظم منتخب کریں یا کون سی آئینی ترامیم پاس ہو سکتی ہیں؟ایک اور بات یہ کہ اس فیصلے کا کون سا حصہ صرف نواز شریف یا مسلم لیگ نواز کے خلاف ہے؟کیا سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ صرف نواز شریف یا مسلم لیگ نواز کے سربراہ کو آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی شرائط پر پورا اترنا ہوگا ؟یا یہ کہ یہ فیصلہ تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں پر برابر لاگو ہوتا ہے ؟ اگر لمحہ موجود میں صرف مسلم لیگ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا سربراہ ایک نا اہل شخص ہے تو اس کا الزام بھی ہماری سپریم کورٹ پر عائد ہوگا؟ اگر نواز لیگ اجتماعی طور پر اصرار کرتی ہے کہ ایک نااہل شخص کو پارٹی سربراہ کے طور پر منتخب کیا جائے تو اس کا الزام بھی سپریم کورٹ پر لگایا جائے گا؟
علم قانون کے معاملات میں عدلیہ پر تنقید کا ٹھوس جواز موجود ہے (مثلاًعدالت نے آرٹیکل 184(3)کے دائرہ کار کی ابھی تک تعریف کیوں نہیں کی یا عدلیہ میں تقرریوں کے عمل کو اتنا مخفی اور پر اسرار کیوں رکھا جاتا ہے ؟)مگر یہ فیصلہ اور آئینی مینڈیٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی الیکشن ایکٹ2017کی شقوں کی تشریح تو کسی طرح تنقید کا جواز فراہم نہیں کرتی۔
بلاشبہ ہماری معزز عدالت اس وقت دوطرفہ سیاسی گولہ باری کی زد میں ہے۔تاہم غیر جذباتی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ نے کسی جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ یہ ایک سیاسی جماعت ہے جو جانب داری کی آڑ میں سپریم کورٹ پر گندگی اچھال رہی ہے۔ اپنی برسوں کی لوٹی ہوئی دولت اور گورننس کی ناکامیوں کوچھپانے کے سوا ا س گھٹیا طرز عمل کی کوئی دوسری وجہ نظر نہیں آتی۔شایدیہ سیاسی حکمت عملی شریف فیملی کے لیے مفید لگتی ہے مگر عدلیہ کو حرف تنقید کا نشانہ بنانے سے ہمارے پورے جمہوری عمل کی بسا ط نہ لپیٹ دی جائے۔ان حالات میں یہ گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ دانشمند حلقے اس منافقت کا ادراک کرتے ہوئے اور فوری نوعیت کے سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کرہماری آئینی جمہوریہ کا دفاع کریں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں