"FBC" (space) message & send to 7575

ایک غیر متعلق سینیٹ

اگرچہ کئی ماہ سے اندازے لگائے جا رہے تھے اور ایک مبہم سازش کے بارے سرگوشیاں کی جا رہی تھیں، تاہم سینیٹ کے 2018ء کے انتخابات پھسپھسے انداز میں انجام پذیر ہو چکے ہیں۔ 
اب جب کہ نتائج آ چکے ہیں اور بعض افراد اپنے باوقار منصب کا حلف اٹھانے جا رہے ہیں تو سوال کیا جانا چاہیے: کیا یہ سینیٹ اور اس کے ارکان اس ارفع ترین قانون ساز ادارے کی آئینی ذمہ داریاں نبھانے کے اہل ہیں؟ کیا ان پر جس جمہوری عمل کے لیے اعتبار کیا گیا ہے، وہ اسے ادا کر پائیں گے؟ کیا ہماری سینیٹ کے ایوان میں صوبائی اور علاقائی مسائل پر بات کی جائے گی؟ کیا ٹیکنوکریٹ قانون سازی کے عمل کی قدر و منزلت میں اضافہ کر سکیں گے؟ کیا سینیٹ کے ارکان (جن کے شانوں پر اپنے حلقۂ انتخاب کی سیاست کا کوئی بار نہیں) قومی اہمیت کے معاملات پر بات کر سکیں گے؟ کیا وہ حکومت اور اداروںکی پالیسیوں اور افعال و اعمال پر ان کا احتساب کر سکیں گے؟ یا کیا اس کی بجائے سینیٹ قومی اہمیت کے امور و معاملات پر اپنی خوابیدگی برقرار رکھتے ہوئے ناگوار و ناپسندیدہ سیاسی کلچر کے معمولی معاملات پر بٹی رہے گی؟
ان میں سے چند امور پر غور و فکر کرنے سے پہلے سینیٹ کے سیاسی مینڈیٹ اور جس انداز سے سینیٹ کے انتخابات منعقد ہوئے ہیں، اس کا جائزہ لینا شاید برمحل ہو۔
پاکستان کی سینیٹ آئین کے آرٹیکل 59 کے تحت تشکیل پذیر ہوئی ہے۔ قومی اسمبلی کے برعکس، جو پاکستان کے مختلف حلقہ ہائے انتخاب کی نمائندگی کی حامل ہوتی ہے (عوام کی براہِ راست منتخب کردہ)، سینیٹ کے ارکان کی تعداد صرف ایک سو چار ہے، جنہیں ''واحد قابلِِ انتقال ووٹ کے ذریعے متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت منتخب کیا جاتا ہے۔ سینیٹ کے سارے ارکان میں سے چودہ ارکان کا ''انتخاب ہر صوبائی اسمبلی کے ارکان کرتے ہیں‘‘؛ آٹھ ارکان کا ''انتخاب وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات سے کیا جاتا ہے‘‘؛ چار ارکان (بشمول ''دو ارکان جنرل نشست سے اور ایک خاتون اور ایک ٹیکنوکریٹ رکن) کا انتخاب اسلام آباد سے عمل میں آتا ہے؛ چار خواتین ارکان کو ''ہر صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب کرتے ہیں‘‘ ؛ چار ٹیکنوکریٹوں کا ''انتخاب ہر صوبائی اسمبلی کے ارکان کرتے ہیں‘‘؛ اور ہر صوبائی اسمبلی کے ارکان ''چار غیر مسلم ارکان، ہر صوبے سے ایک رکن‘‘ کو منتخب کرتے ہیں۔
مزید برآں آئین کے آرٹیکل 70 کی رُو سے ہر وفاقی مسودۂ قانون کے قانون بننے کے لیے لازمی ہے کہ سینیٹ کے ارکان اسے منظور کریں۔ صرف ایک استثنا ہے (آئین کا آرٹیکل 73): قومی اسمبلی کسی ''مسودۂ قانونِ زر‘‘ (مثال کے طور بجٹ) کو ''سینیٹ کی تجاویز شامل کیے یا کیے بغیر‘‘ منظور کر سکتی ہے۔
جیسا کہ سینیٹ کی رکنیت سے ظاہر ہے، اس میں سارے صوبوں کی مساوی نمائندگی ہوتی ہے، اور اس میں خواتین، ٹیکنوکریٹوں اور غیر مسلموں کے لیے خصوصی قانونی شرط شامل ہے۔ ان میں سے کسی بھی رکن کو کسی خاص حلقۂ انتخاب کے ووٹوں کے لیے ووٹروں کو قائل کرنے یا فرمائشیں پوری کرنے کا بار اٹھانا نہیں پڑتا۔ اسی طرح سینیٹ کے ارکان، عین اپنی نمائندگی کے اعتبار سے، دو بڑی ذمہ داریوں کے حامل ہوتے ہیں: 1) وہ مساوی نمائندگی کے ذریعے یقینی بناتے ہیں کہ قومی اسمبلی کوئی ایسا قانون نہ بنائے جو کسی بھی صوبے کے حقوق پر ناموافق اثر مرتب کرتا ہو؛ 2) ٹیکنوکریٹوں اور دوسرے ارکان کے ذریعے انتخابی سیاست کے معمولی معاملات پر غور کیے بغیر قومی اور تزویری اہمیت کے معاملات پر بات کرتے ہیں۔
اس آئینی فریم ورک کو بیان کرنے کے بعد، آئیے ہم یہ تسلیم کرنے کی عاجزی مجتمع کریں کہ شہری جمہوریت کے گزشتہ عشرے میں سینیٹ میں کوئی ایک بھی (اہم) قانون نہیں بنایا گیا۔ کسی ایک بھی موقع پر سینیٹ کے ارکان اپنے متعلقہ صوبے کے دفاع میں کھڑے نہیں ہوئے۔ اسی طرح کسی ایک بھی ٹیکنوکریٹ نے قانون سازی کے ایجنڈے کی ترقی اور/ یا اصلاح کے لیے سینیٹ میں بامعنی انداز سے کوئی کردار ادا نہیںکیا۔ یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ سینیٹ مکمل طور پر بانجھ ہے، یا یہ کہ سینیٹ کے سارے ارکان اپنے حلف پر پورا اترنے اور اس پر عمل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بہرکیف اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ سینیٹ کے ارکان نے نہ تو صوبائی حقوق کے لیے کوئی قابلِ ذکر موقف اپنایا اور نہ ہی قانون سازی کے عمل اور قومی اہمیت کے مسائل پر پالیسی بیانیہ میں کوئی ٹھوس حصہ لیا۔
اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں سینیٹ کے ارکان کو صوبائی خطوط کے برخلاف جماعتی خطوط پر منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ ان کا انتخاب ان کی کسی تیکنیکی مہارت کی بجائے ''بادشاہ‘‘ کے ساتھ وفاداری کی بنیاد پر کیا جاتا رہا ہے۔ انہیں قابلیت کی بجائے دولت کی مساوات کے طور پر منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ ان کا ایجنڈا قومی معاملات اور مسائل کے برخلاف شخصی وفاداریوں اور مفادات کی بنیاد پر ترتیب پاتا رہا ہے۔
اور سینیٹ کے حالیہ انتخابات پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ہر جماعت نے قبول کیا (یا اس پر الزام لگایا گیا) کہ سینیٹ کی نشستوں کے لیے ووٹوں کی خرید و فروخت عمل میں آئی ہے اور یہ کہ سب سے اونچی بولی لگانے والوں (آصف زرداری اور نواز شریف) نے اس مساوات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ خرید و فروخت کے عمل سے سب سے زیادہ اثر پذیر ہونے والے (مثلاً ایم کیو ایم) نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔
دریں حالات کیا ان نئے سینیٹروں سے کسی قابلِ ذکر کام کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کیا ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے آئینی حلف کی اطاعت و پاس داری کریں گے، جب کہ ان میں سے بعض ارکان نے متفقہ طور پر ایک نااہل فرد کی خدمت گزاری کا حلف اٹھایا ہو (جسے سپریم کورٹ نے پارٹی میں کوئی ''حکم یا ہدایت‘‘ دینے سے روک دیا ہو)؟ کیا ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ قومی مفادات کا تحفظ کریں گے، جب کہ ایسے افراد ان کی صفوں میں شامل ہیں جنھیں قانون کا بھگوڑا اور منی لانڈرنگ کا مرتکب قرار دیا جا چکا ہے؟ کیا ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبے کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں گے، جب کہ ان کی نامزدگی اور انتخاب علاقائی نمائندگی کی بجائے ''وفاداری‘‘ کی بنیاد پر عمل میں آیا ہو؟ کیا ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ مالی مفادات کی پروا کیے بغیر دیانت داری سے کام کریں گے، جب کہ سینیٹ کے لیے ووٹ سزا کے خوف سے آزاد ہو کر خریدے گئے ہیں؟
پاکستانی سیاست کی ان حقیقتوں سے دور قوم حقیقی اور سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ہماری مشرقی سرحد پچھلے دس برسوں کی نسبت بہت زیادہ خطرات کی زد میں آ چکی ہے۔ ڈیورنڈ لائن میں نہ صرف رخنے ہیں بلکہ وہ پاکستان کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ سرحد پار افغانستان میں امریکہ کی پشت پناہی میں کام کرنے والی حکومت طالبان کو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے ریاستی ڈھانچے میں شمولیت کی دعوت باقاعدہ طور پر دے چکی ہے۔ فاٹا کے افق پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ بھارت سرگرمی سے لابنگ کر رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ پارہ پارہ ہونے کو ہے اور اس کی مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگیں کی بازگشت لازماً پاکستان میں بھی ہو گی۔ ہمارا قومی قرض اتنا ہمت شکن ہو چکا ہے کہ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور ہماری آبادی میں اضافہ ریاستی اور قدرتی وسائل پر ناقابلِ برداشت بار ڈال رہا ہے۔
ایسے حالات میں، جب کہ قومی اسمبلی ''مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا‘‘ کے گیئر میں پھنسی ہوئی ہے، سینیٹ ہی پالیسی اور قانونی اصلاح کی واحد امید ہے۔ بہرحال سینیٹ کی حالیہ نام زدگیوں اور انتخابات کے پیشِ نظر ہمیں پارلیمان کے ایوانِ بالا میں اداراتی اور پالیسی مکالمے کی توقع بالکل نہیں رکھنا چاہیے۔ حقیقت میں تو یہ امر قابلِ تصور ہے کہ آنے والے دنوں میں کئی ارکان کی نمائندگی (مثلاً اسحاق ڈار، اگر نیب کی عدالت انھیں مجرم قرار دے دیتی ہے تو) پر عدالت نظرِ ثانی کرے گی۔
موجودہ سینیٹ اور اس کے ارکان ہر اعتبار سے آئین میں بیان کردہ مقصد سے غیر متعلق ہیں۔ وہ سیاسی مباحثے پر اپنا اثر جاری رکھ سکتے ہیں لیکن قومی مباحثے پر ان کا اثر اس قدر نہیں رہے گا۔ تسلیم کر لیا جائے تو یہ ایک غمناک حقیقت ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں