"FBC" (space) message & send to 7575

توہین کا مباحثہ

جیسے ہی ہماری ''ریاست کا بحری جہاز‘‘ مسلم لیگ (نون) اور معزز سپریم کورٹ کے مابین جاری سیاسی آئینی کشاکش کے آخری مرحلے میں داخل ہوا‘ ایک پرانا مباحثہ از سرِ نو شروع ہو گیا: کیا معزز عدالت کے بارے میں سکینڈل بنانا یا اس کا مضحکہ اڑانا ''توہین‘‘ کے زُمرے میں آتا ہے؟ کیا معزز عدالتیں مریم صفدر اینڈ کمپنی (مثلاً نہال ہاشمی، طلال چوہدری، دانیال عزیز وغیرہ) کو توہینِ عدالت پر سزا دینے کی طاقت رکھتی ہیں؟ نیز یہ بھی کہ کیا عدالتوں کے پاس ایسی طاقت ہونا چاہیے؟ یا اس کی بجائے معزز عدالتوں اور ان کے ججوں کے خلاف کیے جانے والے سارے تبصروں کو آئین اور قانون کے تحت سزا سے بریت حاصل ہے؟ 
اس مباحثے کا محتاط تجزیہ منکشف کرے گا کہ دو مختلف و متمیز معاملات زیرِ بحث ہیں: 1) کیا عدالتیں لوگوں کو ''عدلیہ کی توہین‘‘ پر سزا دینے کا اختیار (موجودہ آئین اور قانونی دائرہ کار کے مطابق) رکھتی ہیں؟؛ اور 2) کیا کسی آئینی جمہوریت میں عدالتوں کے پاس ایسے اختیارات ہونا چاہئیں؟ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے توہین کے قانون کے مثالیے پر ایک نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت تقریر اور اظہار کی آزادی کو ایک بنیادی حق کے طور پر تحفظ حاصل ہے۔ بہرحال دوسری آئینی جمہوریتوں کی طرح پاکستان میں بھی تقریر کی آزادی کا حق بلا رکاوٹ نہیں، اور حدود کا پابند ہے‘ جن میں علاوہ دوسری باتوں کے توہینِ عدالت بھی شامل ہے۔
توہینِ عدالت پر سزا دینے کا عدلیہ کا اختیار بھی خود آئین ہی سے صادر ہوتا ہے۔ بالخصوص آئین کا آرٹیکل 204 توہینِ عدالت کے تین مختلف ''درجے‘‘ واضح کرتا ہے اور ہماری آئینی عدالتوں کو ''ایسے‘‘ فرد کو سزا دینے کا اختیار دیتا ہے جس نے: الف) عدالت کے کسی عمل کی خلاف ورزی کی ہو، اس میں مداخلت کی ہو یا رکاوٹ ڈالی ہو یا عدالت کے کسی حکم کی نافرمانی کی ہو ''بالفاظِ دیگر دیوانی توہین؛ ب) عدالت یا عدالت کے جج کو بدنام کیا ہو یا بصورتِ دیگر عدالت یا عدالت کے کسی جج کے خلاف نفرت پھیلائی ہو، مضحکہ اڑایا ہو یا توہین کی ہو‘‘- بالفاظِ دیگرعدلیہ کی توہین؛ اور ج) فیصلے کے لیے عدالت کے روبرو موجود کسی معاملے کے حوالے سے تعصب پر مبنی کوئی بات کہی یا عمل کیا ہو‘‘- بالفاظِ دیگر فوجداری توہین۔
اس آئینی فریم ورک کے مطابق توہین کے مقدمات توہینِ عدالت آرڈی نینس، 2003ء کے تحت قائم کیے اور چلائے جاتے ہیں، جو توہین کے انہی (تین) درجوں کو شمار کرتا ہے جنہیں آئین میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ واضح کرنا اہم ہے کہ خواہ توہین کے حوالے سے کوئی خاص قانون سازی ہوئی ہو یا نہیں، خود آئین (آرٹیکل 204) اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے توہین کے اختیارات استعمال کرنے کے لیے کافی ہو گا۔جہاں ان دو کیٹیگریز (دیوانی توہین اور فوجداری توہین) میں کوئی مین میخ نہیں نکالی جاتی، وہاں ''توہینِ عدالت‘‘ کے بارے میں بہت زیادہ بحث مباحثہ ہوتا رہا ہے کہ آیا اسے ہمارے قانون کا حصہ ہونا چاہیے یا نہیں۔
''توہینِ عدالت‘‘ کے مقصد سے، تقریر کی آزادی کو توہین کی قربان گاہ پر قربان کرنے کا جواز دو بالکل مختلف مگر باہم جڑے ہوئے تصورات میں ڈھونڈا جاتا ہے: 1) کسی جج کو بدنام کرنا یا اس کا مضحکہ اڑانا، بالخصوص اس کی دیانت کے حوالے سے شکوک پیدا کرنا، ہماری عدلیہ پر فریقینِ مقدمہ اور عمومی طور پر عوام کا اعتماد ختم کر دیتا ہے؛ 2) ایک جج (کوئی بھی جج) عہدے کی حدود اور ''عدالتی ضابطۂ اخلاق‘‘ کے تحت ذاتی الزامات کا عوامی سطح پر جواب نہیں دے سکتا‘ لہٰذا ''تصورات کی منڈی‘‘ میں اسے تحفظ کی ضرورت ہے۔ نتیجتاً عدالت کے وقار کے، جو خلقی اعتبار سے ان کی ذاتی دیانت سے مربوط ہے، تحفظ کی غرض سے ججوں کو اختیارات دیے گئے ہیں۔
اب ہم پہلے اٹھائے گئے سوالوں کا رخ کرتے ہیں۔ اول، کیا جج عدالت یا جج کو بدنام کرنے والے لوگوں کو سزا دینے کا اختیار رکھتے ہیں؟ بلا شبہ وہ اس اختیار کے حامل ہیں- آئین کے آرٹیکل 204‘ نیز توہینِ عدالت آرڈی نینس، 2003ء کے تحت‘ اگر ہماری قانون کی کتابوں میں قانون کی دفعات موجود ہیں تو عدالتیں انھیں نظر انداز نہیں کر سکتیں، یا ان کا اطلاق نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکتیں، یا انہیں بے معنی قرار نہیں دے سکتیں۔ یہ اصولِ قانون کا متفقہ اصول ہے کہ '''مجلسِ قانون ساز کو فالتو قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘ (مثال کے طور پر آفتاب شعبان میرانی کیس)۔چونکہ عدالتیں قانونی استثنا کو نظرانداز نہیں کر سکتیں، اس لیے انہیں اس کی کوئی نہ کوئی تعبیر کرنا ہوتی ہے۔ یہ طے کرنے کے لیے کہ ''بدنام کرنا‘‘ یا ''مضحکہ اڑانا‘‘ سے کیا مراد ہے، اس کے لیے عدالت مقدمے کے حقائق پر انحصار کرے گی۔ بہرحال کیا کسی بھی طور نہال ہاشمی یا طلال چوہدری کی تقریریں توہین کی تعریف میں آتی ہیں؟ اسے دوسرے انداز سے بیان کرتے ہیں: چونکہ قانون ہماری کتابوں میں موجود ہے، چنانچہ عدالتوں کو اس کی کوئی نہ کوئی تعبیر کرنا چاہیے، تو کیا ''عدالت کا مضحکہ اڑانے‘‘ کی اس انداز سے تعریف کرنا ممکن ہے جو نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کے تبصروں کو سزا سے بریت مہیا کرے؟
اب ہم دوسرے سوال کا رخ کرتے ہیں: کیا ہمارے آئینی/ قانونی مثالیے میں ''توہینِ عدالت‘‘ کا وجود ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب پہلے سوال کے جواب سے کہیں زیادہ گنجلک ہے۔آئیے ہم واضح بات کرتے ہیں: جج یا عدالتیں آئین یا توہین کا قانون نہیں لکھتیں؛ عوام (پارلیمان کے توسط) ایسا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ حقیقت کہ ہمارے قوانین میں ''توہینِ عدالت‘‘ وجود رکھتی ہے‘ عدالت پر حملہ نہیں ہے۔ اگر مریم صفدر (اور ان کے ساتھی) یقین رکھتے ہیں کہ یہ اختیار موجود نہیں ہونا چاہیے تو انھیں اپنے ''قائد‘‘ سے شکایت کرنا چاہیے، جنہوں نے تقریباً تین عشرے پارلیمان میں خدمات انجام دی ہیں، اس آئینی فریم ورک پر ایک بار بھی مکرر غور یا ترمیم کیے بغیر۔سیاست سے پرے، وکلا برادری کے بعض ارکان نے بھی اس بات پر بحث کی ہے کہ ''توہینِ عدالت‘‘ کو قانونی فریم ورک کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور یہ کہ 2012ء میں برطانیہ کے لا کمیشن نے تجویز دی تھی ''کہ عدالت کا مضحکہ اڑانے کو ایک جرم یا توہینِ عدالت کی صورت میں موجود نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
یہ قابلِ قدر تجویز ہے۔ بہرحال اسے پاکستان کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
پہلے تو ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ برطانیہ تک میں یہ محض ایک تجویز ہے؛ اور ایک ایسی تجویز جس پر چھ سال ہو گئے مگر عمل نہیں کیا گیا۔ ''توہینِ عدالت‘‘ آج بھی برطانیہ کے اصولِ قانون کا حصہ ہے، اور ''عدالت کو بدنام کرنا‘‘ آج بھی برطانیہ میں قابلِ تعزیر جرم ہے۔ لیکن بصورتِ دیگر نگرانی اور توازن کا آئینی نظام ریاست کے شرکا پر یکساں ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے۔ عدالتی اختیار کی وسعت سیاسی پُرجوش ملامتی تقریروں کی مدت کے مساوی ہونا چاہیے۔ کیا ہم یاد کر سکتے ہیں کہ برطانیہ میں وزیرِ اعظم (یا اس کے خاندان کے افراد) نے ایک دفعہ بھی شریف خاندان جیسی پرجوش ملامتی تقریر کی ہو؟ اسے دوسرے انداز سے بیان کرتے ہیں، اگر برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت کسی سیاست دان کو عہدے سے ہٹا دیتی تو کیا وہ اس طرح عمل کرتا/کرتی‘ جس طرح شریف خاندان نے پاناما لیکس کا نتیجہ نکلنے کے بعد کیا؟ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کروں گا کہ اگر کوئی بڑی سیاسی جماعت ''توہینِ عدالت‘‘ کو اپنے سیاسی منتر کے طور پر استعمال کرتی تو کیا برطانوی لا کمیشن اسے قانون سے مٹانے کی تجویز دیتا؟
یہ سوال (پی ایم ایل (نون) کے ہمدردوں کی طرف سے) اکثر پوچھا جاتا ہے کہ آیا دنیا بھر کی عدالتیں (مافیا) قسم کے تبصرے کرتی ہیں، جیسے پاکستان میں کیا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ مثال ڈھونڈنے کے لیے پیبلو ایسکوبار (کولمبیا میں) یا ال کیپون (امریکا میں) کے مقدمے پیش کرنا پڑتے ہیں۔بہرحال جو سوال پوچھا نہیں گیا، وہ یہ ہے کہ (دنیا میں کسی بھی جگہ) کسی وزیرِ اعظم نے ایسے تبصرے کیے جیسے نواز شریف کر رہے ہیں؟نگرانی اور توازن کا ایک مقصد ہوتا ہے اور ''توہینِ عدالت‘‘ کو مٹانے کے لیے دلیل ہوتی ہے- صرف یہ کہ سیاست پر ایسی ہی ذمہ داری عائد کی جائے جو اسے توہین کو مہم کا نعرہ بنانے سے باز رکھے۔
بلاشبہ عدالتوں کو توہینِ عدالت کو تلوار کی طرح استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بلا شبہ اسے اختلافِ رائے کو خاموش کروانے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے لیکن کیا یہ دلائل اس امر کا لائسنس ہیں کہ اکثریتی سیاسی جماعت توہینِ عدالت کو بادشاہ اور اس کی ذاتی دولت کے تحفظ کے لیے استعمال کرے؟
ہم عقل اور منطق کے سرے پر کھڑے ہیں۔ کیا وقوع پذیر ہوتا ہے، یہ قانون یا سیاست سے زیادہ عوام اور ذاتی اناؤں سے بالاتر ہو کر قانون برقرار رکھنے اور جمہوریت کے تحفظ کی ان کی اہلیت کا سوال ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں