"FBC" (space) message & send to 7575

خواہشات کی جنگ

'خفیہ سازش‘ ، 'امپائر کی انگلی‘ اور اب 'خلائی مخلوق‘ کے دعووں کے درمیان اس حقیقت کے بارے میں کوئی الجھن نہیں کہ پی ایم ایل (ن) ریاستی اداروں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔ پی ایم ایل (ن) کی قیادت یعنی نواز شریف اور ان کی بیٹی بالخصوص پاکستان کی عدلیہ اور مسلح افواج کے ساتھ براہِ راست تصادم کر رہے ہیں۔ یہ تصادم اب سطح کے نیچے سلگ نہیں رہا؛ یہ اب انتخابی لفّاظی کا چھپا ہوا دھیما لہجہ نہیں رہا۔ اب تصادم عیاں و واضح، بد فال و نحس اور انتہائی پریشان کن ہو چکا ہے۔ حقیقت میں ... سچ کہیں تو ... یہ تصادم ہماری جمہوری پیراڈائیم کا پورا تانا بانابرباد کر سکتا ہے۔
ہمیں یہ حقیقت کسی چون و چرا کے بغیر لازماً قبول کر لینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے کے موجود ہونے کا اعتراف کر کے ہم اسے حل کرنے کی طرف پہلاقدم اٹھائیں گے۔پس یہ فرض کرتے ہوئے کہ نواز شریف اور ہمارے ریاستی اداروں کے مابین ایک سوچا سمجھا (اور جانب دارانہ) تصادم موجود ہے، تین سوالوں کا جواب دیا جانا ضروی ہے: 1) اس مسئلے کا آغاز کیسے ہوا؟ 2) اس کے لیے کسے موردِ الزام ٹھہرانا چاہیے؟ 3) اسے کس طرح حل کیا جا سکتا ہے؟
آئیے ابتدا سے جائزہ لیتے ہیں: یہ تصادم کیسے شروع ہوا؟ اور اس کا الزام کس کو دیا جانا چاہیے؟ جب کبھی پاکستان کے اس دور کا آخری باب لکھا جائے گا تو ایک غیر جذباتی مبصر اس واضح و صریح نتیجے پر پہنچے گا کہ اکتوبر 2016ء میں ڈان لیکس کے وقت 'ریت پر ایک لکیر‘ کھینچ دی گئی تھی۔ اس وحشت ناک واقعے میں جو کچھ ہوا تھا، اس کی حقیقت آج تک عیاں نہیں ہوئی (جس کی وجہ یہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) کی حکومت نے راجا ظفر الحق کی انکوائری رپورٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا) لیکن خود حکومت کے مطابق وہ خبر جعلی اور من گھڑت تھی۔ صرف یہی نہیں مذکورہ واقعے کی بد نیتی سے کی جانے والی رپورٹنگ ... پاکستان کے ایک مؤقر ترین اخبار کی شہ سرخی کے طور پر اشاعت ... کا واحد مقصد بین الاقوامی/ علاقائی لینڈ سکیپ میں فوج کا کردار انتہائی کمزور کرنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد کے دنوں میں حکومت نے مانا تھا کہ یہ ''قومی سلامتی توڑنے کا عمل‘‘ تھا۔ بہر کیف یہ واقعہ کس طرح وقوع پذیر ہوا، وہ خبر گھڑنے والا کون تھا، اسے اخبارات میں کس طرح شائع کروایا گیا تھا اور اس کے پیچھے اصل مقصد کیا تھا اور حکومت نے اب تک انکوائری رپورٹ کیوں جاری نہیں کی، ان سب کے بارے میں سچ اب بھی پردۂ اَسرار میں چھپا ہوا ہے۔ درونِ پردہ کی جانے والی سرگوشیوں میں کہی جانے والی باتوں کے مطابق مریم صفدر اس سارے واقعے کا محور و مرکز تھیں۔
اس حقیقت نے کہ یہ واقعہ پاناما لیکس سکینڈل کے عین درمیان وقوع پذیر ہوا تھا، معاملے کو بد تر بنا دیا ہے۔اگرچہ کہا تو یہی جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے محض نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کی غرض سے پاناما لیکس کا سکینڈل پیدا نہیں کیا تھا (جس میں کئی غیر ملکی اعلیٰ عہدہ دار شامل تھے)۔ تمام تر احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے عرض کیا جاتا ہے کہ عالمی سطح پر نواز شریف اتنے اہم نہیں اور نہ ہی ملکی تناظر میں اتنے اہم ہیں کہ انھیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے ایک بین الاقوامی سازش کی جائے۔ جب وہ سکینڈل بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آیا تھا، تب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ فیصلہ کرنا پڑا تھا کہ نواز شریف کو اس سے بچ کر نکلنے دیا جائے یا قانون اور آئین کو اپنے فطری راستے پر چلنے کا موقع دیا جائے۔ ڈان لیکس کی صورت میں ہماری قومی سلامتی کو (ارادتاً) توڑنے پر متفکر و ناخوش ہماری خاکی کمان نے (دانش مندی سے) فیصلہ کیا کہ عدالت کی کارروائی میں دخل اندازی نہ کی جائے اور نواز شریف اور ان کے خاندان کو کسی قسم کا این آر او نہ کرنے دیا جائے۔
ان حالات میں کسی ناقابلِ توضیح وجہ سے پی ایم ایل (ن) کی قیادت نے (چوہدری نثار جیسے افراد کا دیا ہوا) ہر معقول مشورہ مسترد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بجائے پی ایم ایل (ن) کی قیادت نے ریاستی اداروں کے خلاف محاذ آرائی کا فیصلہ کیا۔ آئین اور ہمارے قانونی عملوں کے لیے احترام کا اظہار کرنے اور پاناما مقدمے میں اپنی بے گناہی قانونی طریقے سے ثابت کرنے کی بجائے نواز شریف اور ان کی بیٹی نے پورے پاناما مقدمے کو ایک طرف عدلیہ اور فوج اور دوسری طرف غیر فوجی (سِوِیلین) برتری کا نزاع بنانے کا فیصلہ کیا۔ دفعتاً آئین کو جمہوریت کا دشمن بنا دیا گیا۔ عدلیہ کو عوام کا جمہوری مینڈیٹ لوٹنے کا ہتھیار قرار دیا گیا (ان کے خیال میں جسے فوج استعمال کر رہی ہے)۔ ووٹ کو آئین کے خلاف کھڑا کر دیا گیا اور اس کہانی کو کہ نواز شریف کے بچے (حقیقت میںکوئی ملازمت / کام کیے بغیر) کس طرح کھرب پتی بنے، غیر فوجی و فوجی عدم توازن کی بحث میں بدل دیا گیا۔ اگر آپ یہ دریافت کرتے ہیں کہ دولت کہاں سے آئی تو آپ فوج کی کٹھ پتلی ہیں۔ اگر آپ عدلیہ کو دھمکانے والی تقریروں کو برا کہتے ہیں تو آپ عوام کے خلاف سازش کا حصہ ہیں۔ اگر آپ ہمارے سیاست دانوں کی مالی کرپشن کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں تو آپ غیر جمہوری ہیں۔
اس سیاسی بیانیے نے مضحکہ خیز باتوں کو اصول و معیار بنتے دیکھا۔ 'خلائی مخلوق‘ الیکشن مہموں کا جزو بن گئی۔ 'مجھے کیوں نکالا‘ ایک جمہوری نعرہ بن گیا۔ جلیل القدر عدالت کو پست کر کے ''پانچ لوگ‘‘ بنا دیا گیا۔ چیف جسٹس کو تحقیر سے ''بابا رحمتا‘‘ کہا جانے لگا۔ گلی کوچوں کے ٹھگوں کو ہیرو بنا دیا گیا۔ ''تمھیں کیا؟‘‘ قانونی ذرائع سے ماورا اثاثوں کی ملکیت کا قانونی اعتبار سے قابلِ قبول دفاع بن گیا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اس پورے عرصے کے دوران فوج نے ایک بھی جانب دارانہ بیان جاری نہیں کیا۔ وہ اپنا یہ مؤقف بار بار بیان کر رہی ہے کہ وہ 'آئین اور قانون کے ساتھ‘ ہے۔اس کا شاید سخت ترین جواب یہ تھا کہ ''خاموشی بھی ایک بیان ہے۔‘‘
کوئی سال بھر کی سیاسی نعرے بازی کے بعد پی ایم ایل (ن) اپنے آپ کو اس مقام پر لے آئی ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ اس نے اپنی صفوں میں موجود سرد و گرمِ زمانہ چشیدہ سیاسی مدبرین کے مشورے نظر انداز کر دیے۔ مریم صفدر کا آتش بداماں نظریہ ... جسے دانیال عزیز اور طلال چوہدری جیسوں نے بڑھاوا دیا، جو محض اپنے ذاتی مفاد کی حد تک 'نظریاتی‘ ہیں ...نواز شریف کو اس مقام تک لے آیا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ اس سیاسی صورتِ حال سے بچ نکلنے کی کوشش کریں۔
چوہدری نثار نے اپنی تازہ ترین پریس کانفرنس میں واضح الفاظ میں کہا، ''سیاست آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈنے کا نام ہے۔ سیاست کُشتی نہیں جس میں ایک فریق لازماً دوسرے فریق کو پچھاڑتا ہے۔ بہر حال ان الفاظ کا پی ایم ایل (ن) کے تھنک ٹینک پر کوئی اثر نہیں ہوا اور ان کی متعصبانہ لفّاظی پر تعقل و ہوش مندی کے غالب آنے کا کوئی امکان نہیں۔
(درباریوں میں سے کوئی بھی) بادشاہ سلامت کو یہ بتانے والا پہلا فرد نہیں بننا چاہتا کہ اس نے لباس زیبِ تن نہیں کیا ہوا۔ کوئی بھاپ سے چلنے والے اس بھاری بھرکم انجن کے سامنے لیٹنا نہیں چاہتا جو قابو سے باہر ہو چکا ہے۔ بہر حال پی ایم ایل (ن) کی صفوں میں موجود وہ سب لوگ جنھوں نے نواز شریف کی حکمتِ عملی کی حماقت وبے عقلی کو جانتے ہوئے بھی لب بستہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے، اس قوم کی خدمت نہیں کر رہے۔
یہ طاقت کے سامنے سچ بولنے کاوقت ہے۔ یہ وقت ہے کہ پی ایم ایل (ن) کے دانا ارکان اپنے 'قائد‘ کو یاد دلائیں کہ ان کی سیاسی زندگی اور ذاتی دولت اتنی اہم نہیں کہ ان کی خاطرآئینی پیراڈائیم کو خطرے میں ڈال دیا جائے۔یہ کہ نواز شریف محض ایک انسان ہیں اور تمام انسانوں کی طرح وہ بھی نہ تو ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی تا ابد حکومت کر سکتے ہیں۔ یہ کہ ان کی ذاتی خواہشِ اقتدار کا خمیازہ پوری قوم کو نہیں بھگتنا چاہیے۔ یہ کہ ان کی سیاسی زندگی (ہماری قومی کی تاریخ کی سب سے قابلِ رشک سیاسی زندگی) انجام کو پہنچ چکی ہے اور یہ کہ یہ حقیقت تسلیم کرنے میں ہی شان ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں