"FBC" (space) message & send to 7575

’’کیا ہمیں اجازت دینا چاہیے …‘‘

نواز شریف اور ان کے خاندان کا اذیت ناک زوال، اقتدار کی راہ داریوں سے نکل کر تاریخ کے اوراق میں فراموش کر دیے جانے تک، اس ہفتے کے آغاز پر... نواز شریف کے اس بیان کے ساتھ کہ پاکستان ممبئی حملے میں ملوث تھا، اپنے (اب تک کے) پست ترین مقام تک پہنچ گیا۔ ''ڈان لیکس2‘‘ قرار دیے جانے والے اس بیان میں نواز شریف نے فضول باتیں برداشت کرنے کی ہماری قوم کی (غیر متعینہ) حد عبور کر لی۔ ایسی فضول باتیں جن میں ہماری قومی سلامتی اور نظریاتی سالمیت کی جڑیں اکھاڑتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھارت کے مضحکہ خیز اور مہمل بیانیے کی توثیق کی گئی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری سیاست اور ذرائع ابلاغ ہذیان میں مبتلا ہو گئے۔ جہاں عوام کی اکثریت نے (تمام سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر) نواز شریف کی علانیہ مذمت کی، وہاں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ناقابلِ دفاع معاملے کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس الجھاؤ کے عالم میں پی ایم ایل (ن) کی قیادت بے پتوار دکھائی دے رہی ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران وزیرِ اعظم نے نواز شریف کے بیان کی مذمت کی لیکن اس اجلاس کے بعد منعقد کی جانے والی پریس کانفرنس میں اپنے قائد کے لیے جواز تراشے گئے‘ جبکہ قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں بھی انھوں نے ایسے ہی جواز تراشے۔ پی ایم ایل (ن) کے قانونی راہنما شہباز شریف نے پہلے تو یہ کہتے ہوئے اس سارے معاملے کو رد کر دیا کہ ''نواز شریف ایسی بات بالکل بھی نہیں کر سکتے‘‘ لیکن بعد میں یہ کہتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے کہ جس کسی نے بھی (یہاں مریم نواز پڑھیے) نواز شریف کو یہ بیان/ انٹرویو دینے کا مشورہ دیا تھا، وہ ان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ چوہدری نثار نے تو ابتدا ہی سے واضح مذمت کی۔ جہاں تک رانا ثنااللہ جیسوں کا تعلق ہے تو انھوں نے اپنے حساب سے بہترین کارکردگی دکھانے کی کوشش کی... بدنیتی سے دوسری جماعتوں اور اداروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اس امید میں کہ لوگوں کی توجہ پی ایم ایل (ن) کے قائد کو ہونے والی شرمندگی سے ہٹ جائے گی۔
سب سے برمحل امر یہ تھا کہ نواز شریف نے غلط رپورٹنگ یا 'سیاق و سباق سے ہٹ کر‘ پیش کیے جانے سے متعلق شکوک رفع کرتے ہوئے خود اپنے بیان کی توثیق کی۔ حقیقت میں وہ بار بار تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور پوچھ چکے ہیں کہ ''اس میں کیا غلط ہے؟‘‘خوب، آئیے ہم معزول وزیرِ اعظم کو اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئیے، ہم سادہ الفاظ میں (تاکہ وہ سمجھ سکیں) نواز شریف پر اختصار سے یہ واضح کرنے کی کوشش کریں کہ ریاستِ پاکستان کی جڑیں اکھاڑنے، اس کے اداروں کو بلیک میل کرنے اور اس کے دشمنوں کو مضبوط بنانے کی ان کی کوششوں میں ''غلط‘‘ کیا ہے۔آئیے اس مقصد کے لیے ہم شائع ہونے والے ان کے لفظ بہ لفظ اصل بیان سے (جس پر نواز شریف اب بھی قائم ہیں) ابتدا کریں۔ نواز شریف نے (ڈان لیکس1 کے حوالے سے معروف) سرل المیڈا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''عسکریت پسند تنظیمیں فعال ہیں۔ انھیں غیر ریاستی عناصر کہیں، کیا ہمیں ان کو سرحد پار کرکے ممبئی میں 150افراد کو ہلاک کرنے کی اجازت دینا چاہیے؟ ذرا مجھے بتائیںتو سہی۔ ہم مقدمہ مکمل کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘۔
آئیے مفاہیم کھولنے کی غرض سے اس بیان کی تشریح کرتے ہیں۔ نواز شریف اس بیان میں خصوصاً دعویٰ کرتے ہیں: 1) پاکستان میں ''عسکریت پسند تنظیمیں فعال ہیں؛ 2) ''انھیں سرحد پار کرکے‘‘ دوسرے لوگوں کو ''ہلاک کرنے کی اجازت دی جاتی ہے‘‘؛ 3) ''ممبئی میں 150افراد (کا ہلاک کیا جانا)‘‘ اس قسم کی 'اجازت‘ کی ایک مثال تھی؛ 4) ممبئی حملہ کرنے والوں کا ''مقدمہ مکمل نہ کرنے‘‘ پر پاکستان قصوروار ہے۔
اس طرح نواز شریف نے ایک ہی بیان میں پاکستان کو ایسی دہشت گرد ریاست قرار دے دیا جو معصوم لوگوں کو قتل کرنے کے لیے (جیسا کہ 2008ء میں ممبئی میں ہوا تھا) دہشت گردی کو سرحد کے پار برآمد کرنے کی ''اجازت‘‘ دیتی ہے اور پھر اپنے عدالتی نظام کے تحت ملزموں پر مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کرتی ہے۔
واہ، کیا کہنے! کیسا (خوفناک) دعویٰ ہے اس شخص کا جو ہمارے وطن کے سب سے برے فوجی ڈکٹیٹر کی سوچ کی پیداوار ہے۔ اس شخص کی کتنی (مضحکہ خیز) عقل و فہم ہے جس نے (سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق) بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت ختم کرنے کی غرض سے ''اسٹیبلشمنٹ‘‘ سے رقم وصول کی تھی۔ کیسی جرأت ہے اس شخص کی جسے ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نااہل قرار دے چکی ہے اور جس پر اربوں کی کرپشن کا مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔ اس حقیقت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا یا اس کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا کہ نواز شریف نے جو بیان دیا تھا، وہ صریحاً مضحکہ خیز (اور بدنیتی سے دیا جانے والا) بیان ہے۔
جیسا کہ ظاہر ہو رہا ہے، اس قسم کے بیان کا کوئی موقع یا محرک نہیں تھا۔ انٹرویو جس طرح رپورٹ ہوا، اس کے محتاط مطالعے سے عیاں ہوتا ہے کہ نواز شریف سے ممبئی حملے، اس کے جاری مقدمے یا عمومی اعتبار سے خارجہ پالیسی کے بارے میں سوال بالکل بھی نہیں پوچھا گیا تھا۔ سوائے اس کے کہ ''سوال پوچھے جانے پر کہ انھیں حکومتی منصب سے معزول کیے جانے کی کیا وجہ تھی، (نواز شریف) نے براہِ راست جواب نہیں دیا بلکہ گفتگو کا رُخ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی طرف موڑ دیا۔‘‘ پھر انھوں نے ممبئی حملے کے بارے میں تبصرہ کیا۔ دوسرے الفاظ میں نواز شریف کا منصوبہ تھا کہ ایسا بیان دیا جائے جو (قصداً) پاکستان کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی جڑیں اکھاڑ ڈالے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے ''غدار‘‘ ہونے کے حوالے سے اتنا شور برپا ہوا ہے۔
نواز شریف کے ''کیا ہمیں انھیں اجازت دینا چاہیے ...‘‘ والے بیان سے خود وزیرِ اعظم کو نااہل قرار دیے جانے کے بارے میں بہت سے دوسرے (اور بہت زیادہ اہم) سوال پیدا کر دیے ہیں۔ کیا ہمیں (کرپشن کے مقدمے میں) نااہل قرار دیے جانے والے شخص کو قومی اور علاقائی مفادات کی جڑیں اکھاڑنے کی ''اجازت‘‘ دینا چاہیے؟ کیا ہمیں اس شخص کو خارجہ پالیسی کے چیلنجز کے بارے میں ہدایات و احکامات جاری کرنے کی اجازت دینا چاہیے؟ کیا ہمیں انھیں اجازت دینا چاہیے کہ وہ ہماری سلامتی اور سیاست کے ایجنڈے کا تعین اپنی غلط سوچ کے تحت کریں؟ کیا ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے کسی شخص کو اجازت دینا چاہیے کہ وہ ہزاروں جانوں کا نذرانہ لینے والی ''دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ‘‘ کو برباد کر دے؟ کیا ہمیں اس شخص کو شہیدوں کی یاد کی بے حرمتی کرنے کی اجازت دینا چاہیے؟ کیا ہمیں اسے پانچویں نسل کی جنگ کے ایجنٹ کی حیثیت سے آزادانہ کام کرنے کی اجازت دینا چاہیے؟ کیا ہمیں اسے اجازت دینا چاہیے کہ وہ محض بدعنوانی سے بنائی گئی اپنی مالیاتی سلطنت کو بچانے کے لیے پاکستان کے نظریے اور سلامتی کو داؤ پر لگا دے؟ کیا ہمیں اسے (حکمراں جماعت کے 'قائد‘ کی حیثیت سے) اپنے سیاسی منظرنامے پر حاوی ہونے کی اجازت دینا چاہیے جبکہ وہ پاکستان کے دشمنوں (یعنی را اور این ڈی ایس) کے بیانیے کی وکالت کر رہا ہو؟ کیا اسے اپنی دولت بچانے کے تباہ کن راستے پر چلتے ہوئے پوری قوم کو یرغمال بنانے کی اجازت دینا چاہیے؟ کیا ہمیں اسے اجازت دینا چاہیے کہ وہ ہماری ریاست کو راز فاش کرنے کی دھمکیاں دے کر بلیک میل (جی ہاں بلیک میل) کرے؟
یا اس کی بجائے ہمیں ہمیشہ کے لیے واضح کر دینا چاہیے کہ کوئی شخص جتنا بھی دولت مند یا طاقتور ہو جائے، خواہ وہ کتنے ہی ووٹ یا (بکنے پر رضامند) سیاست دانوں کو خرید سکتا ہو، ہم (ایک قوم کی حیثیت سے) اسے اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری اجتماعی تقدیر کو اپنے پیروں تلے روند دے۔ یہ کہ یہ ملک ہمارا ہے، اور اس کی سیاست ہماری ہے، اس میں ان لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں جو حلف سے غداری کرتے ہوئے شخصی مفاد پر قومی مفاد کو قربان کر دیتے ہوں۔ یہ کہ اس نئی پراکسی جنگ کے حربوں سے ہماری قوم کو نہ تو خریدا جا سکتا ہے نہ ڈرایا دھمکایا جا سکتا ہے، جس میں ہمارے بکنے پر آمادہ سیاست دان دشمن کے پیادے بنے ہوئے ہیں۔
یہ سیاست کا وقت نہیں۔ یہ وقت دشمن کو صاف صاف للکارنے کا وقت ہے اور جوبھی یہ قومی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے شرمائے گا، اسے آخرِ کار سوگوار و محروم قوم کی عدالت کے روبرو جواب دہ ہونا پڑے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں