"FBC" (space) message & send to 7575

فاٹا کا آئینی میٹرکس

قومی اسمبلی نے اس ہفتے اپنے اختتامی ایام میں ایک تاریخی قانون منظور کیا ہے، جسے برسوں پہلے منظور ہو جانا چاہیے تھا ۔ خاص طور سے پارلیمان نے 228 تائیدی ووٹوں کے ساتھ ... جے یو آئی (ف) اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی نے تائید نہیں کی ... فاٹا (The Federally Administered Tribal Areas) کے خیبر پختون خوا کے جزو کی حیثیت سے انضمام کے لیے آئین میں اکتیسویں ترمیم منظور کی ۔ یہ مسودۂ قانون خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد ہماری قبائلی پٹی میں بسنے والے حقوق سے محروم 50 لاکھ افراد سے ہمارا آئینی وعدہ پورا ہو جائے گا۔
جمہوریت کم از کم اپنی سادہ صورت میں انصاف، مساوات اور انسان کے فطری امکانات کے پنپنے کے لیے نہایت ضروری بنیادی حقوق پورے کیے جانے کے تصورات سے مملو ہوتی ہے ۔ یہ تصور جمہوریت کا بنیادی وعدہ اور بطور نظامِ حکومت اس کی مسلسل کامیابی کی کلید ہے کہ ہر مرد اور عورت ذات پات، عقیدے، ثقافت اور مذہب سے قطعِ نظر برابر ہے اور اسے ریاستی ڈھانچے میں ایک ارادی اور مساوی آواز حاصل ہو گی ۔ یہ بنیادی اصول نہ ہو تو جمہوریت کی بنیاد ہی ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور پست ہو کر ایک ایسا نظامِ حکومت بن جائے گی جو آمرانہ حاکمیت سے قابلِ امتیاز نہیں ہو گا ۔
جمہوریت ... ایک آئینی جمہوریت ... کا یہ وعدہ ہماری قبائلی پٹی (فاٹا) کے لوگوں کے لیے نہیں تھا ۔ صدیوں پر محیط قبائلی جنگوں سے بھرے، پہاڑی سلسلوں، فرسودہ رواجوں، سیاسی حقوق سے محروم اور ایک متوازی نظامِ انصاف والے پاکستان کے قبائلی علاقے جدید دور میں فراموش کر دیے جانے والے ایسے تاریخی آثار لگتے ہیں جو وقت میں منجمد ہو چکے ہوں ۔
آزادی کے بعد سات عشرے گزر جانے کے باوجود فاٹا کے باسی کسی نامکمل جمہوری حویلی کے لے پالک بچوں کی طرح ہمارے آئینی تحفظات کے دائرے سے باہر ہیں ۔
اپنی غیر ترمیم شدہ حالت میں آئین کے بارہویں حصے کے تیسرے باب میں '' قبائلی علاقوں ‘‘ کی حکومت اور انتظام سے متعلق خاص شقیں شامل ہیں۔ اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 246 میں علاوہ دوسری باتوں کے '' وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں ‘‘ (فاٹا) کا تعین بھی کیا گیا ہے ۔ مزید برآں آرٹیکل 247 صراحت کرتا ہے کہ '' فیڈریشن کی انتظامی اتھارٹی فاٹا تک وسیع کی جائے گی ۔‘‘ اہم امر یہ ہے کہ آئین فیڈریشن کی صرف '' انتظامی اتھارٹی ‘‘ قبائلی علاقوں کو دیتا ہے ۔ یوں ان علاقوں کو مقننہ کے دائرے سے خارج کر دیتا ہے ۔
قبائلی علاقوں کے مقننہ کی اتھارٹی سے خصوصی اخراج کی مزید توضیح کرتے ہوئے آئین کا آرٹیکل 247 (3) خاص طور سے بیان کرتا ہے کہ '' فاٹا پر پارلیمان کے '' کسی ایکٹ کا اطلاق نہیں ‘‘ ہو گا‘ جب تک کہ صدر مملکت ایسا کرنے کی ہدایت جاری نہ کریں ‘‘۔ در حقیقت آئین صدر مملکت کو اجازت دیتا اور اختیار عطا کرتا ہے کہ وہ مقننہ کے منظور کردہ کسی قانون کے قبائلی علاقوں کے کسی مخصوص حصے میں اطلاق کی ہدایت جاری کر سکتے ہیں یا وہ قانون موزوں '' استثنا اور ترمیم و اضافے کے ساتھ مؤثر ‘‘ ہو گا ۔
سادہ الفاظ میں خود پاکستان کا آئین قبائلی علاقوں کے لوگوں سے جمہوریت اور ان پر ان کی آزادانہ بالغ رائے دہی کے مطابق حکومت کرنے کا وعدہ نہیں کرتا ۔ آئین کی یہ شقیں یقینی بناتی ہیں کہ قبائلی علاقوں کے قوانین اور حکومتی ڈھانچہ زیادہ تر ایک فرد یعنی صدر کی مرضی کے تحت ہوں گے ... جنھیں قبائلی علاقوں کے لوگوں نے ( براہِ راست ) منتخب نہیں کیا ۔
واقعتاً دنیا بھر کی جدید جمہوریتوں میں جہاں کہیں بھی حکمرانی کی دستاویز ( یعنی آئین ) کسی خاص آئینی منصب کے حامل فرد کو اضافی انتظامی اتھارٹی دیتی ہے‘ وہاں عموماً آزاد عدلیہ کو ایسے انتظامی اقدامات کا جائزہ لینے کا اتنا ہی اختیار دیتا ہے ۔ بہر حال اس آئینی اور جمہوری اصول کے بر خلاف پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 247 (7) اعلان کرتا ہے کہ '' نہ تو سپریم کورٹ اور نہ ہی کوئی ہائی کورٹ قبائلی علاقوں کے ضمن میں آئین کے تحت کسی کارروائی کی مجاز ہوں گی ‘‘ جب تک کہ مقننہ قانون کے ذریعے اس کا اختیار خاص طور سے اسے نہ تفویض کر دے ۔
پاکستان کے آئین کے تحت اس وقت فاٹا کا انتظام خاص قوانین کے تحت چلایا جا رہا ہے جنھیں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) (The Frontier Crimes Regulations) کہا جاتا ہے۔ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز کے مطابق ایک فرد کے جرم کی اجتماعی سزا اس کے خاندان یا قبائل کے افراد کو دی جا سکتی ہے اور یہاں روایتی / متوازی عدالتی ڈھانچے ( جرگے ) دیوانی اور فوجداری معاملات میں جرم اور سزا کا تعین کرتے ہیں۔ در ایں حالات '' بنیادی حقوق ‘‘ جن کی ضمانت پاکستان کے آئین میں دی گئی ہے ... بشمول قانون کے مطابق معاملہ کیے جانے کا حق ( آرٹیکل 4 اور 5 )، فرد کا تحفظ ( آرٹیکل 9 )، گرفتاری اور قید سے تحفظ ( آرٹیکل 10 )، دہرا مقدمہ یا خود الزامی کے خلاف تحفظ کا حق ( آرٹیکل 13 )، انسان کے وقار کی حرمت (آرٹیکل 14)، نقل و حرکت کی آزادی ( آرٹیکل 15 )، حقوقِ املاک کا تحفظ ( آرٹیکل 23 اور 24 ) اور شہریوں کی برابری ( آرٹیکل 25 ) ... فاٹا کے باسیوں کو اکثر نہیں دیے جاتے ۔
نئی آئینی ترمیم ہمارے آئینی حقوق اور عدالتی جائزہ فاٹا کے باسیوں کو فراہم کرنے کے لیے آئین کے چھ مختلف آرٹیکلز میں ترمیم کرے گی ( جن میں آرٹیکل 247 بھی شامل ہے )۔ اس کے علاوہ ( فاٹا کے خیبر پختون خوا میں ) انضمام کی ترمیم سینیٹ میں نشستوں کی تعداد 104 سے کم کر کے 96 کر دے گی اور خیبر پختون خوا اسمبلی کی نشستیں بڑھا کر 145 کر دے گی ۔ شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ ترمیم وعدہ کرتی ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات کے ایک سال کے اندر اندر فاٹا میں '' آزادنہ و منصفانہ ‘‘ انتخابات منعقد کروائے جائیں گے ۔
پوری انسانی تاریخ میں حکومت کی واحد صورتیں، جنھوں نے اقتدار مقامی لوگوں کو منتقل کرنے کی مزاحمت کی یا جمہوری انتقالِ اقتدار کے طویل مدتی منصوبے کی حوصلہ افزائی کی، ان کے حکمران مطلق اقتدار کے مالک تھے یا نو آبادیاتی آقا تھے ۔ اس ترمیم اور فاٹا کے شہریوں کے ہمارے آئینی تحفظات کے دائرے میں شامل کیے جانے میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے ۔ فاٹا کے باسی طویل عرصے سے نو آبادیاتی حالت میں، پاکستان کے صدر ( ان کے وائسرائے ) کی حکمرانی میں جی رہے ہیں۔ پاکستان کے تمام با ضمیر شہریوں کو اس نظامِ حکومت کے خاتمے کا لازماً خیر مقدم کرنا چاہیے۔

جمہوریت کم از کم اپنی سادہ صورت میں انصاف، مساوات اور انسان کے فطری امکانات کے پنپنے کے لیے نہایت ضروری بنیادی حقوق پورے کیے جانے کے تصورات سے مملو ہوتی ہے ۔ یہ تصور جمہوریت کا بنیادی وعدہ اور بطور نظامِ حکومت اس کی مسلسل کامیابی کی کلید ہے کہ ہر مرد اور عورت ذات پات، عقیدے، ثقافت اور مذہب سے قطعِ نظر برابر ہے اور اسے ریاستی ڈھانچے میں ایک ارادی اور مساوی آواز حاصل ہو گی ۔ یہ بنیادی اصول نہ ہو تو جمہوریت کی بنیاد ہی ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور پست ہو کر ایک ایسا نظامِ حکومت بن جائے گی جو آمرانہ حاکمیت سے قابلِ امتیاز نہیں ہو گا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں