"FBC" (space) message & send to 7575

’’الیکٹیبلز‘‘ پر نظرِ التفات

اب جبکہ پاکستان کے سیاست دان 2018ء کے عام انتخابات کے حتمی مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں تو ہمارے سیاسی طبقے کی گھبراہٹ واضح محسوس کی جا رہی ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے نتائج کا انحصار بڑی حد تک اس امر پر ہو گا کہ سیاسی تغیر کے مسلسل بدلتے ہوئے موسم میں کون اپنے حواس قابو میں رکھتا ہے۔
جہاں تک پی ایم ایل (ن) کا تعلق ہے تو اُس کا اعصابی ہیجان قابلِ فہم حتیٰ کہ متوقع ہے۔ پاناما کیس میں نواز شریف کی نااہلی کے نتیجے میں پارٹی کے اندر قیادت کا بحران ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی حیثیت اعداد میں شامل اُس صفر کی سی تھی جس کی اپنی کوئی قیمت نہیں ہوتی جبکہ شہباز شریف کو پارٹی پر کبھی مکمل کنٹرول دیا ہی نہیں گیا۔ اس کے ساتھ ہی مریم نواز کا ابھر کر سامنے آنا، چوہدری نثار علی خان کا الگ ہو جانا، جنوبی پنجاب سے ایک ساتھ بہت سے سیاست دانوں کا پارٹی چھوڑ دینا اور زعیم قادری کی عیب جویانہ تقریر جیسے واقعات، ان سب نے مل کر ایک خاص ترکیب سے ڈھالی گئی انتخابی مہم میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
بہرکیف پی ٹی آئی کی صفوں میں نااتفاقی و نزاع کا پیدا ہو جانازیادہ حیران کن امر ہے۔ پی ٹی آئی (پی ایم ایل ن کے مقابلے میں) کسی بڑے بحران سے دوچار نہیں، سو اسے اپنے امیدواروں کو تربیت دیتے اور حکمرانی، خارجہ پالیسی اور سلامتی کی ناکامی جیسے معاملات و مسائل کے حوالے سے دوسری سیاسی جماعتوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے اپنی حمایت کے حلقے میں توسیع کرنا چاہیے تھی۔ اس کی بجائے ہوا یہ ہے کہ انتخابات سے صرف چار ہفتے کی دوری پر خان صاحب ٹکٹوں کے حوالے سے تنازعات، سینئر قیادت کی صفوں میں جھگڑے (جیسا کہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کا جھگڑا) اور پارٹی کے وفاداروں کے شرمندہ و نادم کر دینے والے ''دھرنے‘‘ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
چنانچہ یہ سوالات دریافت کیا جانا برمحل ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمتِ عملی میں کیا خرابی واقع ہوئی ہے؟ وہ انتخاب کے مرحلے سے (پُرسکون انداز میں) کیوں نہیں گزر پا رہی؟پارٹی کے وفاداروں نے خان کی قیادت پر سوال اٹھانا کیوں شروع کر دیا ہے؟ نوجوانوں کو (جو پی ٹی آئی کی تاریخی قوت رہے ہیں) انتخابات میں خان کی حمایت میں کیوں نکل آنا چاہیے؟ پارٹی کی کیا معنویت ہے؟ اس کا انتخابی نعرہ کیا ہے؟ اور اگر وہ اقتدار میں آ گئی تو کیا کرے گی؟
پی ٹی آئی کی صفوں میں (بظاہر) نزاع پیدا ہونے کے پسِ پردہ وجوہ کا اندازہ لگانے کے لیے ابتدا سے جائزہ لیتے ہیں: اکتوبر 2011ء کو مینارِ پاکستان میں ہونے والے تاریخی جلسے کے وقت (یہ وہ اصل تاریخ ہے جب عمرن خان کی پارٹی وجود میں آئی) پی ٹی آئی اپنے اصل قالب سے مختلف قالب میں ڈھل گئی۔ بیانیہ یہ تھا کہ 'سب چورہیں جبکہ پی ٹی آئی چور نہیں!؛ دوسری پارٹیوں کے ارکان اپنے اثاثے چھپاتے ہیں، دوسرے ملکوں میں جائیداد کے مالک ہیں اور ٹیکس چوری کرتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے ارکان ان جرائم کا ارتکاب نہیں کرتے؛ دوسری پارٹیاں مالی احتساب کے معاملے میں اکثر مفاہمت کر لیتی ہیں (مثلاً بدنامِ زمانہ این آر او) جبکہ پی ٹی آئی ایسا نہیں کرتی؛ دوسری پارٹیاں چھپ چھپا کر سودے بازی کر لیتی ہیں (بین الاقوامی ضامنوں کے ساتھ) اور خود ساختہ جلاوطنی میں رہتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی ایسا نہیں کرتی۔ یہ تعریف (definition) ... یہ تصور کہ پی ٹی آئی ''سٹیٹس کو‘‘ کی دولت مند اور طاقتور قوتوںکا اینٹی تھیسس ہے... دوسری پارٹیوں سے مایوس ووٹروں کی نئی نسل کے لیے پی ٹی آئی کی کشش کا جزوِ لازم تھا، جو چند افراد کی انتہائی شان و شوکت والی جاگیروں کے خلاف سخت غصے میں تھی۔
بہرکیف 2011ء والے جلسے کے بعد کے برسوں میں پی ٹی آئی کی اس تعریف کو پی ٹی آئی کی داخلی پالیسیوں کی وجہ سے مہلک ضربیں لگیں۔ متنازع وفاداریوں اور داغدار سیاسی ورثے کے حامل افراد خان کے ساتھی بن گئے۔ خان نے ''الیکٹیبلز‘‘ امیدواروںکو شامل کرنے کی کوششیں شروع کیں اور وہ ان کی پارٹی میں شامل ہونے لگے تو پی ٹی آئی (سر اٹھا کر) یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ یہ وہ پارٹی ہے جو ''سٹیٹس کو‘‘ کی قوتوں سے نفرت کرتی ہے۔ یوں ہم نے دیکھا کہ عمران خان کے دائیں بائیں وہی چہرے موجود تھے، جن کے حوالے سے انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انھیں ساتھ ''نہیں‘‘ ملائیں گے!
پی ٹی آئی اپنی شناخت کھو بیٹھی تو اس کے ''الیکٹیبلز‘‘ 2013ء کے انتخابات میں زوردار کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے (نشستیں جیتنے کے معاملے میں)۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مئی 2013ء میں خان صاحب دو اہم چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھے: 1) انتخاب؛ اور 2) اپنی سیاسی کشش کی بنیادی خصوصیت۔
جب 2013ء کے انتخابات کے بعد خان صاحب اور ان کی پارٹی‘ دونوں پی ایم ایل (ن) کی مضبوط حکومت کا تعاقب ترک کرنے لگے تھے (انتخابات اور عدالتی کمیشن میں عام انتخابات میں دھاندلی سے متعلق مقدمات میں ہارنے کی وجہ سے)، تب ''پاناما لیکس‘‘ کے انکشافات نے ہمارے سیاسی ڈھانچے میں زلزلہ برپا کر دیا۔ اس غیبی امداد سے پی ٹی آئی کھیل میں واپس آ گئی۔
''پاناما لیکس‘‘ نے پی ٹی آئی کے اس بیانیے کو درست ثابت کر دیا کہ نواز شریف کرپٹ ہیں اور انھیں ہٹایا جانا ضروری ہے۔ خان ''گو نواز گو‘‘ کے واضح اور ٹھوس نعرے کے ساتھ ایک بار پھر سڑکوں پر آ گئے۔ پی ٹی آئی کو تعریف (definition) دوبارہ مل گئی یعنی یہ کہ یہ وہ پارٹی ہے، جو نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے ہٹا کر ان پر مالی کرپشن کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔ یہ تعریف اتنی اچھی تھی کہ لوگ بڑی تعداد میں اس کی طرف مائل ہو گئے اور اسے ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی حاصل ہو گئی۔ اس نے خان صاحب کو مثالی سیاسی رفعت تک پہنچا دیا۔ کسی کو پی ٹی آئی کی حمایت کیوں کرنا چاہیے؟ ''گو نواز گو‘‘ کے لیے! ہمیں خان کے جلسے میں کیوں شرکت کرنا چاہیے؟ ''گو نواز گو‘‘ کے لیے! آج خان نے اپنی تقریر میں کیا کہا؟ گو نواز گو! اب تک کے پی کے کی حکومت نے کیا کِیا؟ کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا لیکن گو نواز گو! کیا پی ایم ایل (ن) نے اپنے انتخابی وعدے پورے کیے؟ شاید... لیکن گو نواز گو! اگلے انتخابات میں کیا ہو گا؟ گو نواز گو!
اور پھر معزز سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت نواز شریف چلے گئے۔ ''گو نواز گو‘‘ کے کا نعرہ حقیقت بن گیا۔ جنگ جیت لی گئی۔ اب خان اور پی ٹی آئی کی مزید حمایت کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ حاصل کرنے کو کچھ اور نہیں تھا۔ کوئی واضح مقصد نہیں تھا۔ یقیناً خان لیڈر تھے لیکن کوئی ایسی خاص منزل نہیں تھی جس کی طرف وہ سب کو لے کر جاتے۔
یوں پی ٹی آئی ایک دفعہ پھر ایسی پارٹی بن گئی جس کی کوئی تعریف (definition) یا مربوط سیاسی بیانیہ نہیں ہے۔ایسی صورت میں کہ جب سیاسی پارٹیوں کو اپنی سیاسی بنیاد بنانے کے لیے کسی محرک کی ضرورت ہو تو وہ پارٹی کے وفاداروں کا رخ کرتی ہیں۔ ہر صورت وفادار رہنے والے حامیوں پر مشتمل ایک مرکزی گروپ، جو طویل دوڑ کے فیصلہ کن مرحلے میں ذاتی اغراض و مفادات سے بالاتر ہونے پر رضامند ہوں۔ بدقسمتی سے ''الیکٹیبلز‘‘ تلاش کرنے کی پی ٹی آئی کی جدوجہد نے وفاداروں پر بہت برا اثر ڈالا۔ ٹکٹوں کی تقسیم نے ''پاکیزہ‘‘ افراد کی مایوسی میں بڑا کردار ادا کیا، جنھوں نے اُس وقت خان کا ساتھ دیا تھا جب وہ مشکل میں تھے۔ انتخابات کا وقت نزدیک آتا جا رہا ہے چنانچہ خان کے پاس یہ معاملہ سلجھانے کا وقت تھوڑا بچا ہے۔
پی ٹی آئی کے اندر شناخت کا بحران ہے۔ اگر پی ٹی آئی اپنے حامیوں کو ''پاکیزہ‘‘ ٹکٹ ہولڈروں کے پیچھے متحد کرنے میں ناکام رہی تو یہ امر ناگزیر ہے کہ ''گو نواز گو‘‘ کے بعد کے منظر نامے میں اسے انتخابات میں بہت نقصان ہو گا۔ یوں پچھلے پانچ سال کی جدوجہد اکارت جائے گی۔
خان صاحب کو وہی جذبہ کسی نہ کسی طرح دوبارہ ابھارنا ہو گا، جس نے اکتوبر 2011ء میں ہزاروں لوگوں کو بادشاہی مسجد کے سامنے واقع میدان میں جمع کیا تھا۔ انھیں کسی نہ کسی طرح ٹکٹوں کے جھگڑے پسِ پشت ڈال کر پاکستان کے عوام کی اس صلاحیت پر یقین کرنا ہو گا کہ وہ ''الیکٹیبلز‘‘ کو نظرانداز کرکے ان کی پارٹی کے وعدے کو ووٹ دیں گے۔
شاید یہ آنے والے انتخاب میں جیتنے کا واحد طریقہ ہے۔ زیادہ بہتر انداز میں کہا جائے تو یہ شاید واحد طریقہ ہے جس سے یہ انتخاب جیتا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں