"FBC" (space) message & send to 7575

ہمارے حکمرانوں کی نامزدگی

انتخابات 2018 ء کے امیدواروں کی نامزدگی کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے‘ امیدواروں کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے اور پارٹی ٹکٹ دئیے جا چکے ہیں۔ چند زیر التوا عدالتی معاملات کے علاوہ‘ نامزدگی کا عمل ہر لحاظ سے مکمل ہے اور ہم پولنگ کے دن کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ 
اس خیال سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ نامزدگی کا یہ عمل (ریٹرننگ آفیسر سے اپیلٹ ٹربیونل تک) عدالتی فروگزاشت کے لحاظ سے شاید سب سے زیادہ گمبھیر تھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ماننا ہو گا کہ ممکنہ امیدوارووں کے کاغذات نامزدگی وصول یا مسترد کرنے کے اختیار پر عدالتی عہدیداروں کی جانب سے امتیازی رویے کے سوالات نے نامزدگی کے عمل کو متاثر کیا ہے۔ اور یہ تنازعہ بجا طور پرسب سے زیادہ جناب جسٹس عباد الرحمن لودھی (بحیثیت اپیلٹ ٹربیونل) کے اس فیصلے سے سے ظاہر ہوا ہے‘ جس میں انہوں نے حلقہ این اے 57 (راولپنڈی ایک) کے امیدوارشاہد خاقان عباسی کے کاغذات نامزدگی مسترد کردئیے۔ 
جیسا کہ ثابت ہوا ہے‘ سابق وزیر اعظم نے مری کے اپنے روایتی حلقے سے آئندہ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ ریٹرننگ آفیسر نے یہ کاغذات منظور کر لیے‘ جس کے خلاف اپیلٹ ٹربیونل میں اپیل کی گئی۔ اپیل گزار کا موقف تھا کہ اپنے کاغذات نامزدگی میں عباسی نے اپنی جائیداد چھپانے اورغلط بیانی کا جرم کیا ہے۔ خاص طور پر یہ کہا گیا کہ عباسی نے پاکستان میں اپنی غیر منقولہ جائیداد کی درست تفصیلات نہیں دیں‘ نیز یہ کہ انہوں نے ''جانتے بوجھتے‘‘اپنے اثاثوں کی قیمت کو کم بیان کیا ہے۔ اندریں حالات اپیلٹ ٹربیونل میں یہ استدعا کی گئی کہ شاہد خاقان عباسی کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے جائیں اور انہیں نااہل قرار دیا جائے (اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت صادق اور اور امین نہ ہونے کی وجہ سے)۔
جیسا کہ جسٹس لودھی کے فیصلے میں قرار دیا گیا‘ کہ شاہد خاقان عباسی کی جانب سے دو مختلف مقامات پر جمع کروائے گئے کاغذات نامزدگی میں (ہر دوکو حلف نامہ کے ساتھ داخل کیا گیا) اختلاف واقع ہوا ہے۔ این اے 57 میں کہا گیا کہ وہ کسی کمپنی میں کوئی حصص نہیں رکھتے‘ جبکہ دوسرے حلقے کے کاغذات میں (بعد از تصیح) ائیر بلیو اور بلیو پائینز ان مری میں اپنے حصص ظاہر کئے گئے ہیں۔ بادی النظر اور اختلافات کی روشنی میں جسٹس لودھی نے متعلقہ ریٹرننگ آفیسر (مسٹر حیدر علی خان ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنزجج) کو نوٹس جاری کیا۔ پہلے روز کی انکوائری پر فاضل ریٹرنگ آفیسر تسلی بخش جواب نہ دے سکے کہ کیوں انہوں نے اس ردوبدل کی اجازت دی‘ تاہم بعد ازاں (دوسرے روز کی سماعت پر) ریٹرننگ آفیسر ''سمجھدار‘‘ ہو چکے تھے اورانہوں نے جواب دیا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کے ایکٹ مجریہ 2017 کی شق62(9)(d)(ii)‘ جو کہ غیر ارادی املا کی غلطیاں دور کرنے اجازت دیتی ہے‘ کے تحت شاہد خاقان عباسی کے وکیل کو یہ سقم دور کرنے کی اجازت دی۔مزید برأں مسٹر عباسی کی جانب سے اپنے کاغذات نامزدگی (حلفاً) میں پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق وہ ایک گھر (مکان نمبر 4 گلی نمبر 17 سیکٹر ایف 7/2 اسلام آباد) جس کا رقبہ ایک کنال سے زیادہ ہے‘ کے مالک ہیں۔ اس گھر کی قیمت صرف تین لاکھ روپے ظاہر کی گئی ہے۔ آنر ایبل ٹربیونل نے اس انکشاف پر حیرانگی ظاہر کی اور قرار دیا کہ صرف ایک مرلے کی مارکیٹ قیمت 60 لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ 
اس کے جواب میں مسٹر عباسی کے وکیل نے بیان کئے گئے حقائق کو ثابت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی‘ بلکہ انہوں نے اپنا دفاع اس سادہ قانونی نکتے پر مرکوز رکھا کہ اس طرح کی مبنی برحقائق تنازعات اس موقع پر یعنی قبل از انتخابات نہیں اٹھائے جا سکتے‘ بلکہ یہ بعد از انتخابات‘ انتخابی تنازعات کے حل کے لیے قائم ہونے والے ٹربیونل کے لیے چھوڑ دینے چاہیں۔ باالفاظ دیگر حقائق میں پائے جانے والے اختلافات ( حلف میں بیان کردہ) کو صرف الیکشن ٹربیونل ہی جائزہ لے سکتا ہے (شہادتیں موصول ہونے کے بعد)‘ اور ریٹرننگ آفیسرز اور اپیلٹ ٹربیونلز کو بہر صورت کاغذات نامزدگی منظور کر لینے چاہیں (کاغذات نامزدگی میں پائے جانے والے واقعاتی سقم سے قطع نظر )۔
تمام متعلقہ فریقین کی جانب سے تفصیلی دلائل کی سماعت کے بعدجسٹس لودھی نے قرار دیا کہ (سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے) یہ ظاہر ہے کہ شق62(9)(d)(ii) سے متعلق کوئی فیصلہ قانونی عدالت ہی کر سکتی ہے‘ تاہم سوال یہ تھا کہ آیا کوئی عدالت انتخابات سے قبل اس قسم کا فیصلہ دے سکتی ہے یا انتظار کرنا چاہیے کہ بعد از انتخابات قائم ہونے والے الیکشن ٹربیونل ایک طویل عمل کے بعد اس بارے کوئی فیصلہ دے۔
یہاں جسٹس لودھی نے قرار دیا کہ ایک شخص کو صادق اور امین نہ ٹھہرانے سے قبل یہ استدعا کرنا کہ عدالتی فیصلے کا انتظار کیا جائے قانون کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں‘ مزید یہ کہ الیکشن ٹربیونل سے اس طرح کے فیصلے عام طور پر منتخب دور میں چلتے رہتے ہیں ۔اس ضمن میں جسٹس لودھی ریاست کے ستونوں پر الزامات دیتے ہیں۔ اس قسم کے عناصر ‘ جو نہ صرف مقننہ میں ہیں‘ بلکہ ریاست کے دیگر ستونوں مین بھی موجود ہیں‘ کے ہاتھوں میں ہمارانظام زنگ آلود ہو چکا ہے۔ نامزدگی کے تنازعات کے حل کے اس بیمار نظام سے اپنی راہیں الگ کرتے ہوئے‘ جسٹس لودھی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ (مسٹر عباسی کے معاملے میں) میں فیصلہ دیتا ہوں کہ وفاقی قوانین کے تحت قائم ہونے والا یہ ٹربیونل ایک قانونی عدالت ہے ۔ اور یہ فیصلہ دینے کے بعد کہ مسٹر عباسی حقائق چھپانے کے بعد اور اپنے ووٹرز سے اپنی مکمل معلومات خفیہ رکھنے سے ایک ایماندار شخص نہیں رہے ‘ اور اس طرح وہ اس کے اہل بھی نہیں رہے کہ انہیں مجلس شوریٰ کا رکن منتخب کیا جائے۔ 
اس فیصلے کے ردعمل میں جسٹس لودھی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ ن کے دیگر حامیوں نے ان کے بارے جو زبان استعمال کی ہے وہ ہر لحاظ سے توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک لارجر بینچ نے جسٹس لودھی کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کو حلقہ این اے 57 سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے‘تاہم یہ واقعات جسٹس لودھی کے فیصلے میں اٹھائے گئے بنیادی سوالات سے توجہ نہیں ہٹا سکتے: کیا قبل از انتخابات کے فورمز کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ بادی النظر حقائق کی بنا پر لوگوں کو نااہل کریں (آئین کے آرٹیکل10-A کے مطابق بغیر تفصیلی شہادت موصول ہوئے ) اگر نہیں تو کیا الیکشن ٹربیونلز کا طویل عمل ان لوگوں کے خلاف درست مداوا ہے جو اپنے نامزدگی فارمز میں حقائق میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں‘ بصورت ِدیگر جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی رو سے نااہلی کے مستوجب ہیں؟ الیکشن ٹربیونلز ایک مقدمے کے فیصلے میں کئی سال لیتے ہیں (تفصیلی شہادت جمع کرنے کے بعد) ‘ اور پھر اس فیصلے پر پہنچتے ہیں کہ امیدوار کو شروع ہی سے نااہل قرار پانا چاہیے تھا‘ تو اس سالوں پر مبنی حکومت کا ذمہ دار کسے قرار دیا جائے گا‘ جو اس (نااہل) امیدوار نے کی ہو گی؟ کیا موجودہ صورت میں طریقہ کار اس کے مترادف نہیں‘ جسے جسٹس لودھی نے ''قانون کا مذاق‘‘ قرار دیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا اپنے جمہوری عمل میں ہمیں اس خرابی کی تصحیح کے لیے اقدامات نہیں کرنا چاہیں؟ 
جمہوری اسٹیبلشمنٹ کے لیے پاکستان میں یہ نازک وقت ہے؛ اگرچہ ہم نے ملک میں ایک جمہوری نظام کی بنیاد تو رکھ دی ہے‘ مگر ہم جمہوری اقدار (شفافیت اور مکمل اظہار)سے بدستور فاصلے پر کھڑے ہیں۔ جسٹس لودھی کا فیصلہ (چاہے مستقبل میں اس کا جو بھی مقدر ہو) ان سبھی کے لیے رجز ہے ‘جو ایماندار حکمرانوں اور صاف ستھری جمہوریت کا خواب دیکھتے ہیں۔ ہمارے منتخب عہدوں کے امیدواروں کو بلند ترین اخلاقی و قانونی اصولوں پر پورا اترنا چاہیے۔ جہاں اخلاقی معیار کا فیصلہ صرف ووٹ کی پرچی سے ہوتا ہے‘ قانونی معیار قبل از انتخابات سخت جانچ پڑتال کا متقاضی ہے۔ اس جذبے کے ساتھ آئین جسٹس لودھی کے فیصلے کی روح کا ساتھ دیں اور اپنے انتخابی نظام کی اس طرح اصلاح کریں کہ جو امیدوار اپنے اثاثے چھپائیں یا اس ضمن میں غلط بیانی کریں ‘ انتخابات کے مرحلے سے پہلے ہی ان کی بیخ کنی کی جا سکے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں