"FBC" (space) message & send to 7575

سپورٹس سٹرکچر کی تنظیمِ نو

میرا ایک کولیگ آج کل پاکستان کے ایشیا کپ سے باہر ہونے کی وجہ سے خاصا پریشان ہے۔ دوسرے بے شمار پاکستانیوں کی طرح اس نے بھی پاکستان کی فتح کے لئے دعائیں مانگنے کے ساتھ ساتھ ایک منت بھی مانی تھی۔ اسے پریشان دیکھ کر مجھے کچھ عرصہ پہلے سنی ہوئی ایک کہانی یاد آ گئی۔ ایک مسیحی اور یہودی کی آپس میں دوستی ہو گئی اور انہوں نے ایک دوسرے کے بارے میں جانکاری کا فیصلہ کیا۔ وہ دونوں ایک باکسنگ میچ دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔ جب میچ شروع ہونے والا تھا تو ایک باکسر ایک کونے میں جھکا، اور آشیرباد لینے کے لئے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا۔ یہودی نے مسیحی سے استفسار کیا کہ ''اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ تو مسیحی بولا ''اگر یہ باکسر باکسنگ نہیں جانتا تو اس کا کوئی بھی مطلب نہیں ہے‘‘۔
ایشیا کپ میں پاکستان کی مایوس کن کار کردگی سے مجھے پاکستان میں کھیلوں کی قابلِ افسوس صورت حال کا احساس ہو رہا ہے۔ اعلیٰ درجے کی کرکٹ کھیلنے والی دیگر اقوام نے ٹریننگ، فٹنس اور حکمتِ عملی کے جدید طریقے اپنا لئے ہیں‘ مگر پاکستان ابھی تک بیٹسمینوں کی ایسی جوڑی کی تلاش میں ہے جو کھیل کے دوران کافی دیر تک کریز پر جمی رہے۔
پاکستانی شکست کی روایتی توجیہہ یوں کی جا سکتی ہے کہ ''ہمیں ہمیشہ ہی برے بیٹسمین ملے ہیں، یا یہ کہ بولرز کو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا یا پھر یہ کہ اس دن بری سلیکشن ہوئی‘‘ ہمیں چاہئے کہ ایسی باتوں کے بجائے اپنے اندر سچ بولنے کا حوصلہ پیدا کریں‘ جو ہمارے دلوں پر پوری طرح عیاں بھی ہے۔ پاکستان کو اعتماد، ڈسپلن اور فٹنس کے بحران کا سامنا ہے۔ اعتماد، ڈسپلن اور فٹنس میں سے کسی چیز کا ہمارے کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کا مسئلہ ٹریننگ، مینجمنٹ اور ملکی کرکٹ کا وہ کلچر ہے جو ہماری کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی پیدا کرتا ہے۔
ماضی میں یہی ''خام ٹیلنٹ‘‘ انٹرنیشنل سطح پر اپنا لوہا منواتا رہا ہے اور پاکستان اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود کرکٹ کے شاندار کھلاڑی پیدا کرتا رہا ہے۔ 'ٹیلنٹ ہی کافی ہے‘ والی باتیں گئے دنوں کا قصہ نہیں ہے۔
کرکٹ کے عہدِ جدید میں بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوانے سے قبل ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ کو کرکٹ کے قومی ڈھانچے کی مدد سے پالش اور منظم ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔ بد قسمتی سے ہمارا کرکٹ کا قومی ڈھانچہ ایک زبوں حالی کا شکار ہے۔
بات یہیں سے شروع کر لیتے ہیں کہ ہمارے ہاں کرکٹ ابھی تک حکومتی کنٹرول میں کیوں ہے۔ بالفاظ دیگر پی سی بی کا ڈھانچہ کچھ اس طرح ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اس کا پیٹرن ان چیف ہوتا ہے‘ جس کے پاس چیئرمین پی سی بی کی تقرری کا اختیار ہوتا ہے لہٰذا پی سی بی کو اسی کی ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ ماضی میں انہی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بہت سے وزرائے اعظم نے من پسند سیاسی تقرریاں کیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں‘ جس نے کرکٹ کی تاریخ کے نامور کھلاڑی پیدا کئے ہیں' اعجاز بٹ، ذکاء اشرف اور نجم سیٹھی جیسے لوگ پی سی بی کے چیئرمین رہے ہیں۔ ان سب کی تقرری وقت کے وزیر اعظم کے ساتھ خصوصی تعلق کی بنیاد پر ہوتی رہی ہے نہ کہ ان کے انقلابی نظریات کی وجہ سے کہ کس طرح پاکستانی کرکٹ کے قومی ڈھانچے کو از سر نو مضبوط کرنا ہے۔
تمام تنظیموں میں سیاسی تقرریوں کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ پی سی بی کی انتظامیہ اور ٹیم میں میرٹ کی جگہ سفارشیوں کی بھرتی شروع ہو گئی۔ کرکٹ کے قومی ڈھانچے کو پھر سے ڈیزائن کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ در حقیقت کرکٹ کی دیوانی قوم میں کسی کو اس بات کی پروا نہیں ہے کہ ہماری قومی کرکٹ کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ کرکٹ کے اکثر شیدائی تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ملکی کرکٹ کا سیزن کب شروع ہوتا ہے اور اس میں بہترین کھلاڑی کون سے تھے۔
جس طرح دنیا کا فوکس ریاستی کنٹرول کے بجائے اب مارکیٹ کی فورسز کی طرف چلا گیا ہے، پاکستان میں اس رجحان کے بر عکس ہوا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں ایک نا اہل اور اقربا پرور انتظامیہ نے بے لچک افسر شاہی کی مدد سے کھیلوں کے فروغ کا گلا گھونٹنے کے لئے اپنی گرفت اور بھی مضبوط کر لی۔ پاکستانی سپورٹس بورڈز میں شفافیت اور نجکاری کے مطالبے کو ہر سیاسی قیادت نے اپنی توہین سمجھا ہے کیونکہ وہ تو ان اداروں کے ذریعے اپنے وفادار حواریوں کو نوازنا چاہتے ہیں۔ 
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں تمام سپورٹس کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ ایک وقت تھا جب پاکستان نے سکواش کے میدان میں کئی برس تک اپنا سکہ جمائے رکھا مگر ربع صدی سے بھی کم عرصے میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عالمی رینکنگ میں پہلے پچاس کھلاڑیوں میں کوئی پاکستانی شامل نہیں ہے۔ پچھلے اولمپکس اور ایشین گیمز میں پاکستان کی کارکردگی پستیوں کو چھونے لگی‘ اور ہم اپنے قومی کھیل ہاکی میں دسویں نمبر پر آ گئے۔ ایشیا کپ میں کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس پر کسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
جب تک کھیلوں کی اوپن مارکیٹ پر ریاستی کنٹرول اور بے جا مداخلت کا سلسلہ جاری رہے گا‘ میرٹ کا نظام سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھتا رہے گا۔ جب تک پاکستان کرکٹ بورڈ، پاکستان ہاکی فیڈریشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ سیاسی مفادات کے تابع ریاستی کنٹرول میں رہیں گے‘ ہم اسی نا اہلی کے گھن چکر میں پھنسے رہیں گے۔ جب تک پی سی بی کے انتظامی معاملات سیاسی شخصیات کے منظور نظر افراد کے ہاتھ میں رہیں گے اس وقت تک پاکستانی کرکٹ ٹیم سے موجودہ کارکردگی سے بہتر کی توقع رکھنا عبث ہے۔
کرکٹ کے سرپرست اعلیٰ سے خصوصی اپیل: جناب وزیر اعظم! آپ سے التماس ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے موجودہ سٹرکچر میں با مقصد اور فوری اصلاحات کی طرف توجہ فرمائیں جو اسے ریاست کے کنٹرول سے نجات دلانے سے شروع ہوں۔ کرکٹ کے حوالے سے آپ کی فہم و فراست اور قیادت کا اکثر بیرون ملک بھی حوالہ دیا جاتا ہے۔ ماضی میں کئی انٹرویوز میں آپ پی سی بی اور قومی کرکٹ کے ماڈل کے حوالے سے اپنے ویژن کے بارے میں اکثر بات کرتے رہے ہیں۔ ایک دل شکستہ قوم ان موعودہ اصلاحات کے لئے آپ پر نظریں لگائے بیٹھی ہے کیونکہ اگر عمران خان جیسا عظیم کرکٹ ہیرو بھی اس میدان میں اصلاحات نہ لا سکا تو ہمارے ملک میں سپورٹس کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ایک ایسا ملک جو پہلے ہی کئی عشروں کی دہشت گردی اور کرپشن کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکا ہے‘ اس میں کھیلوں خصوصاً کرکٹ نے عوام میں امید اور خوشی کا دیا روشن رکھا۔ اب یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ پی سی بی اور قومی کرکٹ کے ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ قوانین میں ترامیم کی جائیں، اسے حکومتی گرفت سے نکال کر مارکیٹ فورسز کے حوالے کیا جائے۔ مارکیٹ کو یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ پاکستان کی گلیوں سے ٹیلنٹ کو ڈھونڈے۔ اور یہ آپ جیسے کرکٹ کے بے تاج بادشاہ کی طرف سے اپنی قوم کی بے پناہ اور لافانی خدمت سمجھی جائے گی۔ 
اب یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ پی سی بی اور قومی کرکٹ کے ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ قوانین میں ترامیم کی جائیں، اسے حکومتی گرفت سے نکال کر مارکیٹ فورسز کے حوالے کیا جائے۔ مارکیٹ کو یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ پاکستان کی گلیوں سے ٹیلنٹ کو ڈھونڈے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں