"FBC" (space) message & send to 7575

آئین کاآرٹیکل 209

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی آئین کے آرٹیکل 209کے تحت معزولی سے ان لوگوں کو کسی قسم کی حیرت نہیں ہوئی جو اس کیس کی تفصیلات سے باخبرہیں۔دراصل ان کی اس 'اہم‘ تقریر سے بھی پہلے جسٹس صدیقی کے خلاف ایسے الزامات کا شہرہ تھا جو ان کی اس بینچ سے آئین کے آرٹیکل 209کے تحت معزولی کے لئے کافی تھے۔تاہم اب جب اس معاملے پر سیاسی شور شرابے کے باوجود فیصلہ آچکا ہے تو مناسب ہوگا کہ اس آئینی مسئلے اور عدلیہ کے احتساب سے متعلق وسیع تر بحث پر اس کے اثرات کا تجزیہ کیاجائے۔مختصر یہ کہ 21جولائی 2018ء کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن میں ایک تقریر کی جس میں انہوں نے ہمارے نظام عدل میں آئی ایس آئی کی مداخلت سے متعلق الزامات کی بوچھاڑ کر دی ۔ان کے ان سخت الزامات کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ آئی ایس آئی احتساب عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے‘ جس کا مقصد نواز شریف کو بہر صورت قید کی سزا دلوانا اور انتخابی عمل کے دوران انہیں مقید رکھنا تھا۔جب ان کی تقریر کی ویڈیو ریکارڈنگ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر وائرل ہوئی تو آئی ایس پی آر نے آئی ایس آئی کی طرف سے جج صاحب کے اس بیان کی مذمت کی اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے درخواست کی کہ وہ جسٹس صدیقی صاحب کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی صداقت جانچنے کے لئے مناسب کارروائی کا آغاز کرے۔اسی دوران جسٹس شوکت صدیقی نے بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب سے جو بلحاظ عہدہ سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین بھی ہیں‘ سے درخواست کی کہ وہ پیش کردہ حقائق کی سچائی اور صداقت کی جانچ پڑتال کے لئے ایک کمیشن کی تشکیل کریں۔چنانچہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو ہدایت کی کہ وہ جسٹس صدیقی صاحب کے الزامات کی حقیقت کے بارے میں تحریری طور پر اپنی رائے دیں نیز یہ کہ وہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر سے متعلق مواد اور ثبوت جمع کر کے مہیا کریں۔
اس کے جواب میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس کاسی نے جسٹس صدیقی کی جانب سے ان پر عائد کئے گئے الزامات کی دو ٹوک الفاظ میں تردید کی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی مطلع کیا کہ ایک تحریری انکوائری کے باوجود ان الزامات کے حق میں انہیں جسٹس صدیقی کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔جسٹس کاسی نے خاص طور پر اس امر کی وضاحت کی کہ آئی ایس آئی یا کسی اور ایجنسی کے کسی ممبر نے سابق وزیر اعظم کو 25جولائی ''الیکشن ڈے‘‘ تک زیر حراست رکھنے کے لئے ان پر کوئی دبائو نہیں ڈالا ؛ چنانچہ 30جولائی 2018ء کو سپریم جوڈیشل کونسل نے آئین کے آرٹیکل 209کے تحت جسٹس صدیقی کے خلاف ریفرنس پر باقاعدہ کارروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔مناسب ہوگا کہ آگے بڑھنے سے پہلے آئین کی اس متعلقہ شق کا مختصر جائزہ لے لیں۔
آئین کاآرٹیکل 209 ''سپریم جوڈیشل کونسل‘‘کی تشکیل کرتا ہے (جو سپریم کورٹ کے تین سینئرموسٹ جج صاحبان اورہائی کورٹس کے دو سینئرموسٹ جج صاحبان پر مشتمل ہوگا) ْآرٹیکل 209(6)سپریم جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی ایسے جج کی معزولی کی سفارش کرے جو ''اپنے عہدے کے فرائض کی ادائیگی کے لیے نااہل ہو یا مس کنڈکٹ کا قصور وار پایا جائے‘‘۔
اس حوالے سے ہمارا آئین اس امر کی تشریح نہیں کرتا کہ آرٹیکل 209کی رو سے ''مس کنڈکٹ‘‘کے زمرے میں کیا کچھ آتا ہے۔تاہم سپریم جوڈیشل کونسل کا وضع کردہ The Supreme Judicial Council Procedure Of Inquiry 2005 آرٹیکل 209کے تحت فرائض کی موثر ادائیگی کے لئے اس پر کچھ روشنی ڈالتا ہے۔خاص طور پر2005رولز کا رول 3(1)کہتا ہے کہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں (i) ایسا طرز عمل جو کسی جج کے شایان شان نہ ہویا (ii)ایسا طرز عمل جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 209(8)کے تحت جاری کردہ کوڈ آف کنڈکٹ سے مطابقت نہ رکھتا ہو(iii)ایسا کنڈکٹ جو غیر موثر پایا جائے یا وہ مؤثر نہ رہا ہو‘‘۔ 
ان پیرا میٹرز کے اندر رہتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل نے طے کردہ قانونی تقاضوں کو مد نظررکھتے ہوئے جسٹس صدیقی کے خلاف ریفرنس پر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا‘ یعنی ایسا کنڈکٹ جو ''کسی جج کے شایان شان نہ ہو‘‘ اور جوڈیشل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہو۔اس مقصد کے لئے 31جولائی کوجسٹس صدیقی کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا تھاا ور انہیں 15اگست تک اس کا تفصیلی جواب دینے اور 21اگست تک اضافی رد عمل دینے کا کہا گیا تھا۔
بدقسمتی سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے سنگین الزامات کے حق میں ایک بھی قابل قبول ثبوت یا شہادت فراہم کرنے سے قاصر رہے۔دراصل آخر میں جسٹس صدیقی کو اپنے دفاع میں یہ موقف اپنانا چاہیے تھا کہ ''اسلام آباد ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج کی حیثیت سے ‘‘ ان کے بیان ہی کو '' الزامات کے لئے کافی ثبوت ‘‘سمجھا جائے۔ یکم اکتوبر کو اٹارنی جنرل نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنا جواب جمع کرواتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ چونکہ جسٹس صدیقی نے اپنے الزامات کے حق میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جو آرٹیکل 209کے تحت وضع کردہ پیرا میٹرز کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ؛چنانچہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اس مسئلے کا بغور جائزہ لیااور اس امر پر زور دیا کہ کونسل کے روبرو بنیادی سوال یہ تھا کہ وہ کھوج لگائے کہ کیا جسٹس صدیقی کی پبلک تقریر ایک جج کے شایان شان کنڈکٹ کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں‘تاہم ان کی تقریر کے محرکات ان کے انکوائری کے دائرہ کار میںنہیں آتے۔ آخر کار گیارہ اکتوبر کوکونسل کے تمام ارکان نے مکمل غور خوض کے بعد متفقہ رائے دی کہ ''جسٹس شوکت صدیقی نے ہائی کورٹ کے جج کے شایان شان کنڈکٹ کا مظاہرہ نہیںکیا لہٰذا وہ مس کنڈکٹ کے قصور وار پائے گئے ہیں‘لہٰذا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 209(6)کے تحت اپنے عہدے سے معزول کئے جانے کے مستحق ہیں‘‘۔ 
جسٹس صدیقی کی عہدے سے معزولی کی بڑی وجہ عائد کردہ الزامات کی سچائی کے مقابلے میں ان کا کنڈکٹ تھا‘ جو انہوں نے بغیر ثبوت کے ایک پبلک فورم پر سنگین الزامات پر مبنی تقریر کر کے اپنا یا تھا‘ اور اس موقف کے حوالے سے کوئی اعتراض یا استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا ۔اس کے متبادل پر بھی غور کر لیتے ہیں۔ایک ایسا عدالتی نظام جس میں ہر جج اپنے شکوے شکایات کا اظہار ایک ٹی وی پریس کانفرنس کے ذریعے کرے جس سے پورے عدالتی نظام کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو‘کیا یہ بات ہماری آئینی جمہوریت میں رہتے ہوئے مناسب ہوگی؟کیا دنیا بھر میں کہیں ایسا سسٹم موجود ہے جہاں ججوں کو ایسی تقاریر کرنے کی اجازت ہو؟اس سے ہمارے عدالتی نظام کے تقدس کا کیا انجام ہوگا اگر ججوں کے انفرادی یا معروضی شکوے شکایتوں کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا جائے۔ 
پچھلے ایک عشرے سے خصوصا افتخار محمد چوہدری کے عہد سے عدالتوں کو اس بات پر سنگین تنقید کا سامنا رہا ہے کہ آرٹیکل 209کو شاید ہی بروئے کار لایا گیا ہو۔متعدد جج صاحبان کو اس بنا پر تنقید کا سامنا رہا کہ انہوں نے ایگزیکٹو کے خلاف تو احتساب کیا مگر آرٹیکل 209کے تحت عدالتی احتساب کرنے سے گریز کیا۔اب وقت آگیا ہے کہ عدالتیں اور معزز جج صاحبان زیر التوا ریفرنسز کی سماعت کر کے ادارہ جاتی احتساب کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کریں۔نہ صرف ان ججوں کے خلاف جنہوں نے کوئی غلط کا م کیا ہو بلکہ ان ججوں کے خلاف بھی اقدامات کئے جائیں جن کی عدالتی کارکردگی کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔اس عمل سے نہ صرف ججوں کے مقام و مرتبے اور عدالتی کارکردگی میں اضافہ ہوگا‘ بلکہ اس سے ہمارے عدالتی نظام کی فعالیت میں بھی ایک نیا جذبہ پیدا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں