"FBC" (space) message & send to 7575

نظام تعلیم کا از سر نو جائزہ

ریاستی اور سیاسی امور میں ''فوری‘‘ کو ''اہم‘‘کے مقابلے میں ایک منفرد قسم کی فوقیت حاصل ہے۔ہم جو چوبیس گھنٹے سیاسی جھگڑوں پر مبنی سنسنی خیز خبروں میں پھنسے رہتے ہیں اکثر اہم قومی اور پالیسی امور کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔پنجاب اسمبلی میں ہونے والی ہلڑ بازی اور اس کے بعد منعقدہ پریس کانفرنسوں جیسے معاملات پر مسلسل جاری بحث و تمحیص کی وجہ سے ہم تعلیم عامہ جیسے اہم موضوع کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔درحقیقت اشرافیہ کے ڈرائنگ رومز اور دیہات کے چوکوں میں ہونے والی نجی گفتگو میں ہمیں ایک ہی قسم کے عوامی جذبات کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ پاکستان کے کثیر جہتی مسائل کا ایک ہی حل ہے یعنی ایک ایسی چابی جسے لگانے سے خوشحالی کے سب دروازے خود بخود کھل جائیں گے اورظلمت وتاریکی کے تمام در بند ہوجائیں گے۔ہمارے تمام مسائل کا واحد حل تعلیم ہے،یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ تعلیم ہی سے بہتر حکومتی عملداری ،مضبوط جمہوریت ،بہتر انتخابی چوائس اورترقی پذیر معاشی سرگرمیاں پیدا ہوں گی اور بیروزگاری کی شرح کم ہوگی‘ جس کے نتیجے میں قوت برداشت میں اضافہ اور شدت پسندی میں کمی واقع ہوگی۔ 
یہ بات باعث حیرت نہیں ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں سیاسی نعروں کی حد تک تعلیمی اصلاحات کا نمایاں ذکر موجود ہے اور موجودہ حکومت کے 100روزہ پروگرام میں بھی انہیں مرکزی اہمیت حاصل ہے‘ تاہم کسی ناقابل فہم وجہ سے تعلیمی شعبے میں اصلاحات سے متعلق قومی سطح پرکسی قسم کی بامعنی گفتگو کا سلسلہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ او ر یہ اتنی بڑی تبدیلی۔فوری طور پر۔ اسی جذبے کی رو میں یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ ہمارے قومی مقاصد میں تعلیم کا کیا مطمح نظر ہونا چاہیے اور ان اصلاحات کے دائرہ کار کے بارے میں ہمیںکیسے سوچنا شروع کرنا چاہیے؟ہارورڈ لا سکول کے پروفیسرRoberto Mangabeira Ungerنے ایک دفعہ بڑے معروف کمنٹس دیتے ہوئے کہا تھا ''تعلیم کا مقصد ہر بچے کے اندر چھپے ہوئے زبان بند فلسفی کو ڈھونڈنا ہے‘‘۔محترم پروفیسر صاحب کی بات سے ہمیں ہر معاشرے کے اجتماعی آئیڈیلزم کا ادراک ہوتا ہے اور امید کا ایک چراغ روشن ہوتا ہے کہ ہر فرد میں‘ اگر اس کی مناسب انداز میں تعلیم وتربیت ہوئی ہے‘ انسانیت کی قسمت سنوارے کی استعداد موجودہوتی ہے۔ یہاں ایک فطری سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنے معاشرے میں تعلیم عامہ کا وعدہ پورا کر رہے ہیں؟کیا ہمارے سرکاری سکول طلبامیں اپنی زبان کھولنے اور اپنے ذہنوںکو ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد کرنے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں‘ تاکہ وہ اپنی پوری استطاعت کے مطابق کام کر سکیں؟کیا ہمارے نصاب اعلیٰ تعلیم کے حصول میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں؟کیا ہمارے طلبا میں ایک کامل معاشرے کے آئیڈیلز کا تصور نمو پا سکے گا؟کیا ہمارا نظامِ تعلیم ہمارے طلبا کے ذہنوں کو کثیر جہتی تصورات ونظریات قبول کرنے کے لئے تیار کر سکے گا؟برداشت اور مساوات کے لئے‘کیا وہ اپنی فکر ی سرحدوں کو وسعت دینے پر آمادہ ہوں گے؟کیا وہ عقل و شعور اور اخلاقی قوت کے قلعے ثابت ہو سکتے ہیں؟فی الحال اس سوال کا کم از کم جواب ہے کہ ''نہیں‘‘۔
یہ مسئلہ دو امتیازی سطحوں پر موجود ہے۔پہلا یہ کہ پاکستان بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب طلبا کے اند ر تاریخ،سیاست مذہب حتیٰ کہ سائنس کے بارے میں عدم برداشت ،تنگ نظری اور تعصب کو فروغ دیتا ہے۔دوسرا یہ کہ ہمارے معروف تعلیمی اداروں کا کلچر طلبا میں بحث و تمحیص،سیاسی بات چیت ،جدید خیالات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ مذہبی عقائد کے حوالے سے ایک محدود دائرہ کار سے باہر کسی قسم کے سوالات اٹھانے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔جہاں تک نصاب کے جائزے کا تعلق ہے تو یہ ایک قانونی نوعیت کا معاملہ ہے؛ چنانچہ اسے بآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد ہر صوبہ اپنے سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ لینے اور کلاس روم میں پڑھائے جانے والے تعلیمی موادکی تشکیل میں با اختیار ہے۔اس سلسلے میں پاکستان بھر میں جہاں یکساں نصاب تعلیم کی ضرورت ہے وہیں صوبوں کویہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ ہر کلاس کے لئے نصاب کے مطابق کتابیںیا ان کے مسودات تیار اور شائع کر سکتے ہیں۔اس اختیار کے تحت ،مثلاً صوبہ پنجاب نے (نصابی کتب کے مسودات کے انتخاب اور جائزے کے لئے)پنجاب کریکلم اتھارٹی ایکٹ 2012 ء اور (کتب کی اشاعت کے لئے )پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ آرڈی ننس 1962ء پاس کیا تھا۔تاہم پنجاب کریکلم انیڈ ٹیکسٹ بک بورڈ ایکٹ 2015ء کے تحت ان دونوں قانونی اتھارٹیز کا ایک ہی اتھارٹی میں انضمام کر دیا گیا۔چونکہ اب نصاب اور کتب کی اشاعت اسی ایک آئینی ادارے کے کنٹرول میں ہے اب نصاب کے از سر نو جائزے اور اوور ہالنگ کے لئے صرف سیاسی عزم اور ارادے کی ضرورت ہے۔
طلبا کو تعصب و تنگ نظری سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ شدت پسندوں کو ہیرو نہ بنایا جائے ، دوسری قومیتوں کے خلاف نفرت کا پرچار نہ کیا جائے بلکہ اس کے برعکس معاشرتی پابندیوں سے متعلق دیرینہ آئیڈیلز کے بارے میں سوالات کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔یہ سب کچھ ایک ایگزیکٹو اتھارٹی بیک جنبش قلم اور محض ایک قانون سازی کے ذریعے کر سکتی ہے۔دوسرا ایشو آزادیٔ فکر و اظہار کا ہے جو کلچرل نوعیت کا ہے۔اس سے نمٹنا ذرا مشکل ہے۔پاکستان بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں میں سیاسی بحث مباحثے اور قومی امور پر گفتگو میں طلباء کی شرکت کے حوالے سے ایک حوصلہ شکن فضا پائی جاتی ہے۔سرکاری سکولوں میں طلباء کی طرف سے کسی مقصداور مشن کے لئے آگہی پیدا کرنے ،اس کی حمایت کرنے اور کوئی ریلی نکالنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے‘ حتیٰ کہ کئی لبرل تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور اساتذہ بھی کسی متنازعہ مسئلے کو چھیڑنے سے گریز کرتے ہیں۔مذاہب کا تقابلی مطالعہ ممنوع ہے ۔سعادت حسن منٹو یا ڈی ایچ لارنس کو اپنے ادبی نظریات کی وجہ سے قبول نہیں کیا جاتا۔محفوظ سٹیٹس کو کی پالیسیوں کے خلاف سوال اٹھانا بدعت سمجھا جاتا ہے۔پچھلے چند مہینوں سے خاص طور پر سٹون مین ڈگلس ہائی سکول میں ہونے والی فائرنگ کے واقعے کے بعد حکومت کے کمزور Gun Lawsکے خلاف امریکہ میں مظاہرے جاری ہیںیہ مظاہرے حکومت کو مجبور کرنے کے لئے کافی ہیں کہ وہ گن لابی کے خلاف قانون سازی کر سکے۔پاکستان میں ایسا واقعہ آخری بار کب پیش آیا تھا ؟ان ممنوعات سے خوف زدہ ہو کر ہمارے تعلیمی اداروں نے اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ عالمی تاریخ میںتمام سٹوڈنٹ باڈیز سیاسی اور سماجی شعور کی ترقی اور ترویج میں ایک انجن کا کردار ادا کرتی ہیں۔اس سیاسی اور سماجی بحث میں ہمارے طلباکی شرکت کے بغیر ہم صرف ایسے ڈاکٹرز ،انجینئراور وکلا پیدا کرتے رہیں گے‘ جو عہد جدید کے تقاضوں اور ہمارے نئے سماجی رویوں سے مکمل طور پر بے بہرہ ہو ں گے۔ اخلاقی اور سماجی ضمیر کی اس بے حسی سے سیاسی ارتقا اور ادارہ جاتی ترقی کی موت واقع ہو جائے گی‘ جن کے بغیر کوئی ملک یا نسل اپنی پوری استعداد کے حصول کی امید نہیں رکھ سکتی۔ 
ہمارے دانشور ،سماجی کارکن اور سیاستدان طویل عرصے سے یہ بتا رہے ہیں کہ عسکریت پسندی ،عدم برداشت اور شدت پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد ذریعہ تعلیم ہے۔نیز یہ کہ ہم تعلیم کی مدد ہی سے اپنی قوم کو درپیش مہلک خطرات سے بچا سکتے ہیں اور جمہوریت کی روشنی اور تابندگی سے مستفیض ہو سکتے ہیں۔لیکن اگر القاعدہ کے رکن پنجاب یونیورسٹی اور نسٹ جیسے اداروں سے گرفتار ہوں گے ،اگر کراچی یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس کے طالب علم پر نسلی ٹارگٹ کلنگ کا شک ہو اور اگر عبدالولی خان یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ گینگ مشال خان کو قتل کر ڈالے تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارا نصاب اور تعلیمی ادارے سماجی برائیوں کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ان حالات میں تعلیم کا نعرہ محض ایک فریب ہے۔اور ہم لوگ جو ابھی تک اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں ایک تعلیم یافتہ سوسائٹی کے وعدے پر خود کو دھوکا دے رہے ہیں۔اس سرطان زدہ معاشرے کو از سر نو زندہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب اور کلچر میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔یہ تبدیلیاں لانے کی بنیادی ذمہ داری پی ٹی آئی کی حکومت کی ہے ‘تاہم ہمارے معاشرے کے دیگر باشعور اور اہل فکر طبقے بھی اس ذمہ داری سے خود کو مبرّا قرار نہیں دے سکتے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں