"FBC" (space) message & send to 7575

فوجی عدالتوں میں توسیع کی ضرورت کیوں؟

فوجی عدالتوں کی مدت 30مارچ2019ء کو ختم ہو رہی ہے۔اور ملک کو ایک بار پھراس اہم سوال کا سامنا ہے کہ کیا یہ توسیع کی جائے یا نہ کی جائے؟بدقسمتی سے گزشتہ چار برسوں میں (سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد)ہماری مقننہ ایسے چھوٹے چھوٹے سیاسی معاملات میں الجھی رہی ہے کہ اسے کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کے اپنے وعدے پر توجہ دینے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔درایں اثنا اس مظلوم قوم کے سوگوار عوام کو دہشت گرد عناصر پر مقدمات چلاکر انہیں سزائیں دینے کے لئے فوجی افسروں سے ججوں کی خدمات لینا پڑی ہیں۔
اس وقت جب ہمیں ایک مرتبہ پھر فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا اپنا عہد نبھانے کا سامنا ہے‘ہم پہلے اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کا حقیقی دائرہ کار کیا ہے؟اور ہم ان کی مدت میں توسیع کیوں چاہتے ہیں؟
اس سے پہلے کہ ہم اپنے آئین میں فوجی عدالتوں کے ڈھانچے اور ان کے دائرہ کا ر کا تجزیہ کریں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایک آئینی جمہوریت کے سائے میں فوجی عدالتوں کا قیام اور ان کا تسلسل ایک نارمل اقدام نہیں ہے‘ کیونکہ یہ جمہوری آئین پسندی کی روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اے پی ایس پشاور کے اندوہناک سانحے کے بعد فوجی عدالتوں کو اپنا آخری چارہ گرسمجھنے پر ہمارے قومی اتفاق رائے سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ ہمارے نظام انصاف کے ڈھانچے پر عوامی اعتماد کس حد تک کمزور ہو چکا ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء اور پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ 2014 ء کے تحت مذہبی دہشت گردوں کو بلا خوف و خطر سزائیں دینے سے قاصر نظر آتا ہے۔اس کمزوری سے نمٹنے کے لئے انسداد دہشت گردی عدالتوں کی اوور ہالنگ اور مذہبی دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لئے عدالتی فلسفے میں ارتقا کی خاطر فطری اور اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ پاکستانی عوام جو اپنے 141بچوںکو سکول یونیفارم میں قبروں میں دفن کر چکے ہیں‘ کو ضابطے کی کارروائی اور تکنیکی تقاضوںمیں کوئی دلچسپی نہیں ۔وہ صرف انصاف چاہتے ہیں اور وہ یہ انصاف عدالتی عمل کی بھول بھلیوں میں الجھے بغیر چاہتے ہیں۔ اشتعال اور نجات کے وعدے کے اس عالم میں کوئی شخص بھی اس ماں کے ساتھ عدالتی ڈھانچے اور قانونی تحفظ جیسی باریک بینی میں نہیں الجھ سکتا تھا جس کے گیارہ سالہ بیٹے کو شناخت کر نے کے بعدآنکھوں میں گولی ماری گئی ہو۔چنانچہ 2015ء میں اکیسویں آئینی ترمیم اور اس سے متعلقہ آرمی ایکٹ میں دو سال کی مدت کے لئے ترامیم کی گئیں اور ساتھ ہی مقننہ کی طرف سے یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ اس عرصے میں سویلین کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلا حات لائی جائیں گی۔تاہم 2017ء میں دو سال کی مدت ختم ہونے کے بعداس میں دو سال کی مزید توسیع کر دی گئی (جو 30مارچ کو ختم ہورہی ہے)‘ کیونکہ ہماری مقننہ کریمنل جسٹس سسٹم میں کوئی معنی خیز اصلاحات لانے میں ناکام رہی تھی۔
آئینی اور قانونی تناظر میںدیکھا جائے تو فوجی عدالتوں کے قیام کے دو مقاصد تھے اول: (آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے ) دہشت گردوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں ۔دوم: ان عدالتوں کے قیام اور ان کی کارروائی کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔
اکیسویں ترمیم سے پہلے آرمی ایکٹ کے سیکشن دوکے تحت صرف پاکستان آرمی کے اہلکار یا پاکستان آرمی کے ماتحت فرائض سر انجام دینے والے افراد ہی آرمی ایکٹ کے تابع تھے‘ تاہم اس عمومی قانون میں دو استثنیٰ دیئے گئے تھے اور آرمی ایکٹ کی شقوں کو ان افراد تک بڑھا دیا گیا تھا۔ اول:کوئی بھی شخص جو فوج کے کسی ملازم کو اپنے فرائض منصبی یا حکومت سے وفاداری کی خلاف ورزی کرنے کی ترغیب دے۔دوم:کوئی ایسا شخص جس نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923کی دفعہ 2(d)(ii)کے تحت کوئی جرم کیا ہو۔
آرمی ایکٹ کے دائرہ کار میں (فوجی عدالتوں والی ترمیم کے ذریعے ) توسیع کر دی گئی تھی تاکہ ان تمام افراد کے مقدمات بھی ان میں شامل ہو جائیںجن کا کسی دہشت گرد گروپ سے کوئی تعلق ہو یا اس کا دعویٰ کرتے ہوں یا ایسا تعلق معروف ہویا وہ ریاست ‘فوج ‘قانون نافذ کرنے والے اداروں یا سویلین اہلکاروں یا پراپرٹی کے خلاف بشمول اغوا بر سر پیکار ہوں۔مزید یہ کہ کوئی شخص جو مذہب یا مسلک کا نام استعمال کرتے ہوئے ایسے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے جو پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ 2014ء کے شیڈول میں شامل ہیں‘ جن میں سکولوں‘ ہوائی اڈوں اور انفراسٹرکچر پر حملے شامل ہیں۔ ان سب کو فوجی عدالتوں کے دائرہ کار میں شامل کیا گیا تھا۔
ملٹری کورٹس ایکٹ بہت واضح طور پر کہتا ہے کہ لفظ ''مسلک‘‘صرف مذہب تک محدود ہے اور اس میں کسی رائج قانون کے تحت رجسٹرڈ کوئی سیاسی جماعت شامل نہیں ہے۔مزید براںکسی بھی مقدمے کی کارروائی کی نگرانی اور سیاسی کنٹرول کی یہ کہہ کر ضمانت دی گئی ہے کہ کسی بھی جرم پرمقدمے کی کارروائی صرف وفاقی حکومت کی پیشگی اجازت ہی سے شروع کی جا سکتی ہے۔آخر میں آرمی ایکٹ 1952ء کی دفعہ دو کی ذیلی دفعات چار‘ پانچ ‘ چھ کی شمولیت سے وفاقی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اسی جرم سے متعلق زیر التوا مقدمات جو کسی دوسری عدالت میں زیر سماعت ہوںمیں سے کوئی بھی مقدمہ ان ملٹری کورٹس میں ٹرانسفر کر سکتی ہے اور جو شہادت پہلے ریکارڈ کی جا چکی ہو ملٹری کورٹس کو اسے دوبارہ ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ ملٹری کورٹس کی کارروائی کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے دو الگ الگ آئینی ترامیم کی گئی ہیں۔اول یہ کہ ملٹری قوانین کے پہلے شیڈول کے حصہ تین کی شمولیت سے آئین کے آرٹیکل آٹھ کے تحت ملنے والے بنیادی حقوق کے تحفظ سے ملٹری کورٹس (اور ان کی کارروائی ) کومستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔دوم اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے ناتے کہ آئین کا آرٹیکل 175(3)عدلیہ کی ایگزیکٹو سے علیحدگی کا تقاضا کرتا ہے‘ اس لئے پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ 2014ء اور ملٹری کورٹس کے تحت ہونے والی کارروائی کو اس آئینی ترمیم کے ذریعے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
ان ترامیم کی وجہ سے گزشتہ چار سال سے مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف حاضرسروس فوجی افسروں کی عدالتوںمیں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جا رہے ہیں‘ جنہیں '' اختیارات کی علیحدگی ‘‘کے ا ٓئینی اصول کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔یہ کارروائی اس جمہوری عزم کے تحت کی جارہی ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اس عرصے میں کل 717مقدمات ان عدالتوں میں بھیجے گئے‘ جن میں سے478مقدمات کے فیصلے ہوئے اور284مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی۔ان میں سے56 مجرموں کو سزائے موت دی جا چکی ہے ۔مزید براں 192 مجرموں کو قید بامشقت سنائی گئی دوملزموںکو بری کر دیا گیا اور 54مقدمات کو تکنیکی وجوہ کی بنا پر ڈراپ کر دیا گیا۔
ایک آئیڈیل دنیا میں چار سال کا عرصہ کافی تھاکہ ضروری آئینی ترامیم کر کے فوجی عدالتوں کا کردار ختم کر دیا جاتا۔ہمیں چاہئے تھا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کر لیتے ‘کریمنل پروسیجر کوڈ اور پاکستان پینل کوڈ کی متعلقہ شقوں کو اپ ڈیٹ کر لیتے‘ اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے ججوں اور عینی شاہدین کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات متعارف کرائے جاتے۔مگر پاکستان اس لحاظ سے ایک آئیڈیل ملک نہیں ہے۔ہمارے قانون سازوں میں من پسند قوانین پاس کرانے کا سیاسی عزم توپایا جاتا ہے‘ جن میں ایک نااہل شخص کو کسی سیاسی جماعت کا سربراہ مقرر کرنا بھی شامل ہے یا پارلیمنٹیرینز کے لئے اپنے اثاثہ جات ڈکلیئر کرنے کا قانون ختم کرنا وغیرہ ‘مگر ان کے پاس کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات لانے کے لئے قوانین پاس کرنے کے لئے وقت اور عزم موجود نہیں ہے۔ان حالات میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کرنا ایک دور رس حقیقت معلوم ہوتی ہے۔تاہم یہ امید (اورگزارش) کی جاتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اس کا ''نیا پاکستان‘‘اس کام میں کامیاب ہوں گے‘ یا کم از کم کامیاب ہونے کی کوشش ضرور کریں گے‘ جہاں ان کے پیش رو ناکام و نامراد ہو گئے تھے۔ ضروری اصلاحات متعارف کرانے سے ہمارے سول کریمنل جسٹس سسٹم پر عوام کے یقین کی ایک بار پھر تجدیدہو جائے گی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں