"FBC" (space) message & send to 7575

بیرون ملک علاج ؟

جس وقت دنیا دم سادھے جنوبی ایشیا کے دو ایٹمی ممالک کے مابین جاری کشیدگی کے انجام کی منتظر ہے ‘پاکستان کی داخلی سیاست ایسے غیر معمولی معاملات سے لاتعلق نظر آتی ہے۔اسمبلی کے فلور پر خواجہ سعد رفیق کے پرو ڈکشن آرڈر جاری کرانے کے لئے احتجاج ہو رہا ہے‘سندھ اسمبلی میں آغاسراج درانی کے لئے ہنگامہ آرائی جاری ہے اور دوسری طرف اہم ترین مسئلہ یہ درپیش ہے کہ میاں نواز شریف کو علاج کرانے کے لئے کیسے رضامندکیا جائے؟ان حالات میں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ قانون سازی یا علاقائی سلامتی جیسے مسائل پر دھیان دے۔آئیں سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ قانون ساز اسمبلیوں کے ہمارے معزز ارکان اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار پارٹی کی توانائی سب سے زیادہ کس ایشو پر صرف ہو رہی ہے؟وہ ایشو یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے یا انہیں اس بات پر رضامند کیا جائے کہ وہ پاکستان میں دستیاب بہترین علاج کی سہولت قبول کر لیں۔اس مسئلے پر کسی بحث سے پہلے ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ میاں نواز شریف کی صحت واقعی اچھی نہیں ہے۔ان کے دل کی دو مرتبہ2011ء اور 2016ء میں سرجری ہو چکی ہے اور اطلاعات کے مطابق‘ انہیں دیگر بیماریاں بھی لاحق ہیں جن میں ذیابیطس‘جگر کا عارضہ اور بلند فشار خون شامل ہیں۔ان تمام معاملات کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کسی بھی فرد کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے‘مگر یہ سب کچھ اس شخص کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے جس نے ساری زندگی ہر طرح کی آسائش دیکھی ہواور (سربراہ ریاست ہونے کے ناتے)اندرون و بیرون ملک بہترین علاج کرایا ہو۔
نواز شریف کی صحت ایک قومی مسئلہ ہوتی اگر وہ بیرون ملک جا کر ایون فیلڈ کے پرآسائش اپارٹمنٹ میں رہ کر لندن سے اپنا علاج کرواتے‘ جیسا کہ وہ کئی عشروں سے کرواتے رہے ہیں۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ نیب کی عدالتوں سے دو مقدمات میں سزا یافتہ ہیں اور اپنی قید کاٹ رہے ہیں۔قید کے دوران قانون کے مطابق نواز شریف کا مکمل چیک اپ کیا گیا تھا۔جب انہوں نے اپنی صحت سے متعلق شکایت کی تو جیل کے ڈاکٹر نے ان کا چیک اپ کیا تھا اور پھر انہیں ہسپتال شفٹ کر دیا گیا جہاں ان کے تمام ضروری ٹیسٹ کئے گئے ۔مختلف مواقع پر کئی میڈیکل بورڈز نے (جن میں امراض قلب کے ماہرین بھی شامل تھے)نواز شریف کا طبی معائنہ کیا اور ان کی سفارشات پر ہی انہیں سروسز ہسپتال‘پی آئی سی اور جناح ہسپتال لے جایا گیا تھا۔اس سارے عرصے میں ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان خان کو ان تک پوری رسائی حاصل رہی۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق نواز شریف کو جب جناح ہسپتال لے جا یاگیا تو ان کے لئے ایک سپیشل VVIPوارڈتیار کیا گیا جو بدقسمتی سے انہیں پسند نہ آیا۔گائنی وارڈ کا کمرہ پسند کرنے سے پہلے انہوں نے چار کمرے نامنظور کر دیئے تھے ۔ اس کمرے کو ان کے یہاں قیام تک سب جیل قرار دے دیا گیا۔
تاہم ان سب اقدامات سے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ مطمئن نہ ہوئے۔نواز شریف بیرون ملک علاج کرانا چاہتے ہیں۔پاکستان کا کوئی ہسپتال اور کوئی ڈاکٹر اس اہل نہیں ہے کہ ان کا علاج کر سکے‘مگرحکومت کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی قیدی کو جیل سے رہا کرے یا بیرون ملک علاج کے لئے بھیجے۔عدالتوں نے انہیں سزا سنائی ہے اور عدالتیں ہی ان کی رہائی کا حکم دے سکتی ہیں۔ نواز شریف نے طبی بنیاد پر ضمانت کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ایون فیلڈ کیس میں انہیں پہلے ہی میرٹ پر ضمانت مل چکی تھی اس لئے انہیں اور ان کے حامیوںکو قوی امید تھی کہ العزیزیہ کیس میں بھی طبی بنیاد پر ان کی ضمانت منظور ہو جائے گی۔تمام متعلقہ فریقوںکو سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے 25فروری 2019ء کو ان کی درخواست ضمانت یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ ''کسی رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ نواز شریف کی قید ان کی صحت کے لئے کسی طور نقصان دہ ہے۔یہ سب کچھ نواز شریف اور ان کی فیملی کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں ہے۔اس کے بعد ناراض نواز شریف کوئی بات سننے یا ماننے کے لئے تیار نہیں ہیںجبکہ جیل حکام (یعنی حکومت )کا دعویٰ ہے کہ ہم انہیں بہترین دستیاب سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔نواز شریف اصرار کرتے رہے کہ انہیںواپس جیل بھیج دیا جائے اور کسی قسم کی طبی سہولت لینے سے انکار کر دیا ۔ان کی بیٹی ‘بھائی ‘پارٹی عمائدین اور میڈیا سے ان کے کئی خیر خواہوں نے نواز شریف کو قائل کرنے کی بھرپو رکوشش کی کہ وہ اپنا علاج کرانے پر تیار ہو جائیںمگر نواز شریف کوئی دلیل یا علاج قبول کرنے پر آمادہ نہیں ۔کیوں ؟وہ اس تذلیل سے بچنا چاہتے ہیں کہ انہیں کبھی ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر اور ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال لے جایا جائے۔ 
اگر چہ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہدایات جاری کی ہیں کہ نواز شریف کو بیرون ملک ڈاکٹر سے مشاورت سمیت (اگر وہ پاکستان آنے پر آمادہ ہو) تمام بہترین طبی سہولتیں مہیا کی جائیں۔مزید یہ کہ پنجاب حکومت ان کی بیٹی کے مطالبے پر قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جیل کے اندر ایک لائف سیونگ موبائل یونٹ بھی قائم کرنے کے لئے تیار ہیمگر کوئی اقدام بھی نواز شریف کو مطمئن نہیں کر سکا۔اسی دوران مسلم لیگ نواز کے بہی خواہوں نے احتجاج کاسلسلہ شروع کر دیا۔اس کا پہلا محاذ سوشل میڈیا ہے‘ جس کے پیغامات میں حکومت سے نواز شریف کی رہائی کے مطالبے کی بھرمار نظر آتی ہے۔ مزید یہ کہ نون لیگ کے' زیرک‘ سیاستدان میڈیا پر یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ حکومت کا نواز شریف کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دینا سیاسی انتقام کا حصہ ہے۔جب ان سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ حکومت کس قانونی اختیار سے کسی ایسے قیدی کو رہا کر سکتی ہے جسے عدالت نے سزا سنا رکھی ہو‘نون لیگ کے کار پرداز اس سوال کا جواب دینے سے قاصر نظر آتے ہیں ‘کیونکہ حکومت کے پاس ایسا کوئی قانونی یا انتظامی اختیارہے ہی نہیں۔ حکومت عدالتی احکامات سے رو گردانی نہیں کر سکتی۔حکومت نے نہیں‘بلکہ عدالت نے نواز شریف کو جیل بھیجا ہے اورعدالت ہی ان کی رہائی کا حکم دے سکتی ہے نہ کہ حکومت۔
ان متعلقہ قوانین کے تحت خاص حالات میں(پریزن رولز1978ء کے رول 197)کے تحت حکومت کو صرف یہ اختیا رہے کہ وہ کسی سزا یافتہ قیدی یا زیر سماعت مقدمے کے قیدی کو کسی سرجری یا خاص علا ج کی غرض سے جیل سے باہر کسی ہسپتال میں منتقل کر سکتی ہے۔حکومت کویہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی سزا یافتہ قیدی کو عدالتی حکم کے بغیر بیرون ملک جانے کی اجازت دے ۔اگر نواز شریف کی ضمانت ہو جاتی تو شاید نون لیگ حکومت کے خلاف یہ کیس قائم کرنے کے قابل ہو جاتی کہ حکومت ای سی ایل میں نام ڈال کر انہیں علاج کے لئے بیرون ملک جانے سے روک رہی ہے‘ مگر یہاں تویہ کیس ہی نہیں ہے۔
ہمارے سیاست زدہ میڈیا کلچر کے سپن ڈاکٹر اکثر اپنا زیادہ وقت ریاست یا اس کے اداروں پر الزام تراشی میں گزار تے ہیں‘ مگر اب نہ وہ وقت ہے اور نہ ایسا کوئی کیس ہے۔نواز شریف کو اپنی رہائی کا کیس قانونی انداز سے لڑنا چاہئے مگر ان کی پوری کوشش ہے کہ اسے ایک سیاسی جنگ میں بدل دیا جائے۔کم از کم الفاظ میں یہ ایک بے سود کوشش ہے۔شاید وہ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس طرح عدالتوںپر دبائو اتنا بڑھ جائے گا کہ وہ انہیں رہا کرنے پر مجبور ہوجائیں گی( اگر ان کی درخواست ضمانت پر عدالت عظمیٰ میں بحث ہو)مگر حالیہ تاریخ اس کی شاہد ہے کہ ہماری عدالتیںسٹریٹ پریشر کے تحت اپنے فیصلے نہیں دیتیں۔ایساہوتا تو نواز شریف '' جی ٹی روڈ والی ریلی‘‘سے اپنی نااہلی ختم کروانے میں کامیاب ہو جاتے۔ان کے قریبی رفقا کو چاہئے کہ کوئی دقیقہ فروگزاشت کئے بغیر انہیں معقول مشورے دیںکیونکہ آج کی تیزی سے بدلتی دنیا میںجب ایک طرف ہمارے ملک پر جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں‘ عوام کے پاس ایک سابق سیاستدان کی مضحکہ خیز نزاکتیں برداشت کرنے کیلئے وقت نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں