"FBC" (space) message & send to 7575

حمزہ شہباز کی کہانی

حمزہ شہباز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے ضمن میں ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں جو سنسنی خیز سیاسی اور قانونی ڈرامہ رچایا گیا وہ صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ فی الحال وہ گرفتاری سے بچ نکلے ہیں۔ ان واقعات کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں اس کے پس منظر میں جھانکنا ہو گا۔
ہوا یوں کہ نیب نے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کے خلاف کئی ایک انکوائریز اور تحقیقات شروع کر رکھی تھیں۔ ان جاری تحقیقات میں سے کچھ کا تعلق مخصوص کمپنیوں سے تھا (مثلاً صاف پانی کمپنی اور رمضان شوگر مل وغیرہ)، ان میں سے ایک انکوائری کا تعلق حمزہ شہباز اور ان کی فیملی کے معلوم ذرائع سے زائد اثاثوں سے تھا۔
اس سلسلے میں جب نیب نے تفتیش کی غرض سے حمزہ شہباز کو سمن بھیجے تو انہوں نے اپنا قانونی استحقاق استعمال کرتے ہوئے ضمانت قبل از گرفتاری کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ معزز عدالت نے ضابطے کی کارروائی کے لئے نیب حکام کو نوٹس بھیج دیئے اور ان سے وضاحت مانگی کہ نیب حمزہ شہباز کو کیوں گرفتار کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ نیب حکام نے عدالت میں پیش ہو کر آگاہ کیا کہ حمزہ شہباز کو ایک انکوائری کے سلسلے میں پیش ہونے کے لئے بلایا گیا ہے‘ نیز یہ کہ ''نیب کا درخواست گزار کو گرفتار کرنے کا کوئی ارادہ ہے نہ ہی مجاز اتھارٹی نے ان کے وارنٹ ایشو کئے ہیں‘‘۔ چنانچہ 20 نومبر 2018ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ''ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کو بلا ضرورت قرار دے دیا‘‘۔
معزز عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ ''نیب حکام کو یہ ہدایات جاری کی جاتی ہیں کہ آئندہ اگر انہیں حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس کی اطلاع حمزہ شہباز کو دی جائے گی تاکہ اس کے پاس مجاز عدالت سے رجوع کرنے کے لئے کم از کم دس دن کا مناسب وقت ہو‘‘۔
کسی ملزم کو گرفتاری سے دس روز قبل نوٹس دینے کی کوئی نظیر قانون میں ملتی ہے نہ سپریم کورٹ کے کسی حکم میں۔ اس بات سے قطع نظر لاہور ہائیکورٹ نے اپنی دانست کے مطابق حمزہ شہباز کے علاوہ جلیل ارشد سمیت دیگر چند افراد کو بھی یہ ریلیف دے دیا۔حسب توقع نیب نے ان ایک جیسے تمام احکامات کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ ابھی جبکہ حمزہ کے کیس میں اپیل زیر التوا ہے، ایک ایسے ہی مقدمے میں جلیل ارشد کی اپیل سپریم کورٹ نے سماعت کیلئے مقرر کر دی۔ عدالت عظمیٰ نے 19 مارچ 2019ء کو اپنی آبزرویشن میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے ''شاید اس بات کی غلط تشریح کی ہے کہ نیب کسی ملزم کو اطلاع دیئے بغیر گرفتار نہیں کر سکتا‘‘۔ اس قانونی دلیل کی وضاحت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا کہ ''قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ نیب پر ایسی کوئی قدغن لاگو نہیں ہوتی اور اس سلسلے میں اگر نیب کے پاس کسی شخص کے کسی جرم میں ملوث ہونے کیلئے مناسب مواد موجود ہو تو بہرحال وہ اسے گرفتار کر سکتا ہے‘‘۔ بادی النظر میں رائج قانونی اصولوں کے مطابق عدالت عظمیٰ کا یہ حکم صرف جلیل ارشد تک ہی محدود نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے الفاظ اس وسیع تر اصول کی وضاحت کر رہے ہیں کہ اگر نیب کے پاس گرفتاری کا مناسب جواز موجود ہو تو وہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو پیشگی نوٹس کے بغیر گرفتار کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی وضاحت آنے کے بعد نیب نے حمزہ شہباز کے خلاف تحقیقاتی کارروائی شروع کی‘ اور اسے چار اپریل 2019ء کو نوٹس بھیجا کہ وہ اپنے معلوم ذرائع سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق سوالات کا جواب دینے کے لئے پانچ اپریل کو پیش ہوں۔ جب حمزہ شہباز نے بعض نامعلوم وجوہ کی بنا پر نیب میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا تو چیئرمین نیب نے (قومی احتساب آرڈیننس1999ء کی دفعہ 24 کے تحت) حمزہ شہباز کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے۔ نیب کی مجاز ٹیم نے حمزہ شہباز کے گھر پر اس وقت چھاپہ مارا جب وہ گھر میں موجود تھے اور انہیں نیب حکام کے سامنے سرنڈر کرنے کا کہا۔ جواب میں حمزہ شہباز کے ذاتی گارڈز نے نیب حکام کی مزاحمت کرتے ہوئے انہیں گھر کے اندر داخل ہونے سے روکا۔ کسی قسم کی محاذ آرائی سے بچنے کے لئے نیب کی ٹیم واپس اپنے دفتر چلی گئی۔
اس کے فوراً بعد حمزہ شہباز نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں نے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کی رو سے اپنی گرفتاری کی مزاحمت کی ہے اور اس امر پر اصرار کیا کہ عدالت عظمیٰ کے طے شدہ ضابطے کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا۔ اس سے اگلے روز (ہفتے کو) نیب کی ٹیم نے حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کی ایک اور کوشش کی جس کے نتیجے میں وہاں چھ گھنٹے تک ایک تعطل کی فضا قائم رہی۔
اطلاع کے مطابق اسی اثنا میں حمزہ شہباز کی لیگل ٹیم نے لاہور ہائیکورٹ کے سامنے ضمانت کی درخواست دائر کی (جسے سوموار کو سماعت کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے)۔ اسی وقت ان کی لیگل ٹیم نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے ہمراہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور ان سے سوموار تک کی حفاظتی ضمانت کی استدعا کی۔
ہفتے کی سہ پہر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کی عدالت میں عدم موجودگی میں انہیں سوموار تک کیلئے حفاظتی ضمانت دے دی۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اطلاع کے مطابق چیف جسٹس نے سنگل بنچ کی حیثیت میں نیب کو نوٹس جاری کئے بغیر اور دستیاب ثبوت مانگے بغیر یہ حکم جاری کیا۔ اس سارے واقعے کے بعد کئی ایک اہم قانونی اور سیاسی سوالات پیدا ہو گئے ہیں جن کا آنے والے دنوں میں ہماری عدلیہ اور ریاستی اداروں کو جواب دینا پڑے گا۔ قانونی سوالات یہ ہیں۔ کیا انیس مارچ 2019ء کو عدالت عظمیٰ کے طے کئے گئے ضابطے (کہ نیب کو کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے لئے پیشگی نوٹس دینے کی ضرورت نہیں ہے) کا اطلاق صرف جلیل ارشد پر ہوتا ہے یا اس کا اطلاق شریف خاندان کی جاگیر کے گیٹس تک بھی ہوتا ہے۔ کیا فوجداری تحقیقات کے اصول و قواعد جو اس ملک کے عام شہری پر لاگو ہوتے ہیں وہ سٹیٹس کو کی علمبردار فورسز پر بھی اسی طرح لاگو ہوتے ہیں۔
اسی طرح ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کا سنگل جج نیب سے متعلق معاملات میں کسی کو ریلیف دے سکتا ہے جبکہ نیب آرڈیننس کا سیکشن 32 خاص طور پر یہ کہتا ہے کہ صرف کم از کم دو ججوں پر مشتمل بنچ ہی نیب سے متعلقہ امور پر کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔ کیا اس سے پہلے کوئی ایسی نظیر موجود ہے کہ عدالت عالیہ کے کسی سنگل جج نے نیب مقدمات میں کسی کو ریلیف دیا ہو؟ جب کیس سوموار کو سماعت کیلئے مقرر کر دیا گیا تھا تو ہفتے کے دن اپنے چیمبر میں ایسا ریلیف دینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا کسی فرد (اس کیس میں حمزہ شہباز) کے ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوئے بغیر اسے حفاظتی ضمانت دی جا سکتی تھی؟ آخری اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا عوام کی اس تنقید میںکوئی صداقت ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا انصاف کا ترازو ایک مخصوص سیاسی جماعت کے حق میں اس کی طرف جھکا ہوا ہے؟
اب سیاسی سوالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ کیا ریاستی ادارے سیاسی رہنمائوںکو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ سویلین افراد کی آڑ میں گرفتاری سے بچنے کیلئے پارٹی کارکنوں کو اپنی رہائش گاہ کے باہر جمع کر سکتے ہیں؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے گرفتاری کے اختیارات صرف ان بے بس شہریوں پر ہی کارگر ہوتے ہیں‘ جو سڑکوں پر کسی قسم کی ہنگامہ آرائی نہیں کر سکتے؟ کیا ریاستی اداروں کی تادیبی کارروائی سے بچنے کے لئے اب ہم سب کو اپنے اپنے ذاتی گارڈز رکھ لینے چاہئیں؟ کیا گرفتاری سے بچنے کا واحد جائز طریقہ صرف سٹریٹ پاور ہی رہ گئی ہے؟
یہ ہماری سیاست، ریاستی اداروں اور قانون کیلئے ایک چیلنج کا وقت ہے۔ بدقسمتی سے ہماری چند سیاسی جماعتیں اپنے لیڈروں کی ذاتی دولت بچانے کیلئے ریاستی اداروں کو نقصان پہنچانے اور قوانین کو چیلنج کرنے پر تلی بیٹھی ہیں۔ اس کوشش میں حقیقی خطرہ یہ ہے کہ ذاتی سیاسی ایجنڈا کہیں ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی میں نہ بدل جائے۔ اچھا ہو یا برا مگر یہ اور اس سے متعلقہ دیگر ایشوز کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو ہی کرنا پڑے گا۔ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ہمارے ملک میں قومی احتساب کی قسمت اور مستقبل کا تعین کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں