"FBC" (space) message & send to 7575

لاہور ہائی کورٹ پر بلاجواز تنقید

گزشتہ چند ہفتوں سے سوشل، ڈیجیٹل، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر لاہور ہائی کورٹ کی ستائش اور اس پر تنقید ہو رہی ہے۔ بدقسمتی سے اختلاف رائے (تعریف و تنقید) میں ناجائز قسم کی جانبداری اور تعصب کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
ایک طرف پی ٹی آئی کے حامی اور وہ مٹھی بھر آدرش پسند ہیں جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ احتساب کا یہ عمل ''سٹیٹس کو‘‘ کی حامی ان فورسز کو معاف نہیں کرے گا جنہوں نے گزشتہ 35 برسوں میں سے 25 سال تخت لاہور پر حکومت کی ہے۔ دوسری جانب تعریف و ستائش کا سلسلہ مسلم لیگ نون کے حامیوں اور ان حلقوں کی جانب سے شروع ہوا‘ جو نیب کی کارروائیوں اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے عدالتی سووموٹو ایکشن پر سیخ پا تھے۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے متواتر فیصلوں کے ذریعے پی ایم ایل این کے ان تمام لیڈروں کو خاصا ریلیف دے دیا ہے جنہیں احتساب کے الزامات کا سامنا تھا (جن کا آغاز کسی حد تک خود عدالت عظمیٰ کی طرف سے ہوا تھا۔) 
یہ جاننے کیلئے کہ اس نکتہ چینی کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا تھا اور ہمیں کیوں اس سے گریز کرنا چاہئے، یہ مناسب ہو گا کہ ہم لاہور ہائی کورٹ کے ان فیصلوں کا سرسری سا جائزہ لے لیں جو اس بیانئے کی بنیاد بنے ہیں۔ 
اول: شہباز شریف کو ملنے والی ضمانت اور اس کیس کی سماعت کے دوران دیئے گئے عدالتی آبزرویشنز۔ اس کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار (اور عدالت عظمیٰ) نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کے بعض قریبی ساتھیوں (جن میں احد چیمہ اور فواد حسن فواد شامل ہیں) کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا حکم دیا تھا؛ چنانچہ لاہور کے نیب حکام نے شہباز شریف کو 5 اکتوبر 2018ء کو طلب کیا اور پھر آشیانہ ہائوسنگ سکیم کیس میں گرفتار کر لیا۔ گو کہ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے سے شہباز شریف برائے نام ہی نیب کی حراست میں رہے‘ مگر ہمارے اعلیٰ سیاسی حلقوں میں ان کی گرفتاری پر بہت زیادہ شور اور ہنگامہ ہوا تھا، پھر بھی کرپشن کے بلند بانگ دعووں کے ساتھ تحقیقات جاری رہیں۔ چند مہینے بعد 14 فروری 2019ء کو (سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد) لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے جسٹس ملک شہزاد کی سربراہی میں شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔ اہم بات یہ کہ اس ضمانت کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے انکوائری کے بارے میں اہم آبزرویشنز بھی دیئے اور فیصلے میں لکھا کہ یہ سب کچھ بدنیتی پر مبنی ہے اور اس کا کوئی ٹھوس ثبوت بھی فراہم نہیں گیا۔
دوم: حمزہ شہباز کو ریلیف، اس کیس میں آشیانہ ہائوسنگ سکیم سے ہٹ کر شہباز شریف اور ان کا خاندان (خاص طور پر حمزہ شہباز اور سلمان شہباز) مزید انکوائریز بھگت رہے ہیں‘ جن میں سے ایک معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں نیب نے مختلف اوقات میں حمزہ اور سلمان شہباز کو نوٹس جاری کرکے انہیں مبینہ الزامات کے جوابات دینے کے لئے کہا۔ نوٹس وصول کرنے کے بعد سلمان شہباز فوری طور پر پاکستان سے چلے گئے اور تاحال واپس نہیں آئے۔ دوسری طرف حمزہ شہباز نیب حکام کے سامنے پیش ہوئے مگر ساتھ ہی انہوں نے اپنا آئینی استحقاق استعمال کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت کے لئے رجوع کر لیا۔ ضمانت کی درخواست بھی اسی بنچ کے سامنے لگ گئی (جس کے سربراہ جسٹس ملک شہزاد تھے) اور 20 نومبر 2018ء کو اپنے فیصلے میں نیب اتھارٹیز کو حکم دیا گیا کہ وہ حمزہ شہباز کو کم از کم دس روز قبل اطلاع دیئے بغیر گرفتار نہ کریں تاکہ انہیں عدالت سے ممکنہ ریلیف کے لئے مناسب وقت مل سکے۔
سوم‘ 6 اپریل 2019ء بروز ہفتہ حمزہ شہباز کی حفاظتی ضمانت کی منظوری: لاہور ہائی کورٹ کے اس حکم کے جواب میں کہ ''گرفتاری سے دس روز قبل حمزہ شہباز کو اطلاع دی جائے‘‘ نیب نے جلیل ارشد کیس کے ذریعے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اس حکم کی تشریح کی استدعا کر دی کہ کیا (نیب آرڈیننس کے سیکشن 24) کے تحت نیب حکام کے لئے گرفتاری سے پہلے ایسا کوئی نوٹس جاری کرنا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے 19 مارچ 2019ء کے حکم میں اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ''قانون کے مطابق نیب پر ایسی کوئی قدغن نہیں ہے‘‘ اور اگر ''کسی فرد کے کسی جرم میں ملوث ہونے کا ٹھوس مواد موجود ہو تو نیب ایسے شخص کو گرفتار کر سکتا ہے‘‘۔
اسی اصول کے پیش نظر نیب نے پانچ اپریل 2019ء کو حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ حمزہ شہباز کی گرفتاری کو پہلے تو سیاسی طاقت کے ذریعے روکا گیا اور اگلے روز (ہفتے کے دن) حمزہ شہباز کے وکلا نے انہیں عدالت کے روبرو پیش کئے اور نیب کو کوئی نوٹس جاری کرائے بغیر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے چیمبر میں حفاظتی ضمانت کی درخواست کر دی۔
چہارم: ماڈل ٹائون سانحہ کی نئی انکوائری کا حکم معطل، مختصر یہ کہ (ملزمان کی طرف سے) لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ماڈل ٹائون سانحہ کے حوالے سے نئی تفتیش کرانے کے فیصلے کو روکنے کا حکم دیا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس معاملے کا قانونی جائزہ لینے کے لئے ایک تین رکنی فل بنچ تشکیل دے دیا جس کے سربراہ جسٹس قاسم خان جبکہ جسٹس ملک شہزاد اور جسٹس عالیہ نیلم اس بنچ کے رکن تھے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی طرف سے اٹھائے گئے تمام اعتراضات کی سماعت کرنے کے بعد فل بنچ نے 2-1 کی نسبت سے ماڈل ٹائون سانحے کی انکوائری روکنے کا فیصلہ دے دیا (جسٹس قاسم خان نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا) اس فیصلے کو جس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو اپنے عہدے سے مستعفی بھی ہونا پڑا‘ مسلم لیگ نون کی قیادت کے لئے ایک بڑے ریلیف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 
پنجم: حنیف عباسی کی سزا کی معطلی اور ضمانت پر رہائی: پچھلے ہفتے لاہور ہائی کورٹ کے ایک بنچ نے جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں ایفیڈرین کیس میں حنیف عباسی کی سزا معطل کر دی اور انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ مبینہ طور پر اس کیس کی ساری کارروائی نقائص سے بھری ہوئی تھی اور بنچ کے سامنے حنیف عباسی کو رہا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا (کیونکہ ٹرائل کورٹ مقدمے کے شریک ملزم کو پہلے ہی بری کر چکی ہے)۔
پچھلے چند مہینوں کے دوران رونما ہونے والے ان پانچ واقعات کے پیش نظر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو جانبداری کے غلط معانی پہنائے گئے‘ کیونکہ ماضی میں بھی لاہور ہائی کورٹ پر پاکستان مسلم لیگ نون کے لئے سافٹ کارنر رکھنے کے الزامات تھے؛ تاہم سچائی کو چھپانا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ تمام اور دیگر فیصلے بھی میرٹ پر دیئے گئے ہیں۔ معزز عدالت کے ان فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے (اور یہ ہمارا جمہوری اور آئینی حق بھی ہے) مگر اس حق کو کسی عدالت یا اس کے مقاصد کو بدنام کرنے کے لئے استعمال نہیںکیا جا سکتا۔
بد قسمتی سے جو لوگ پی ایم ایل این کو سپریم کورٹ (کے پانچ لوگوں) پر نکتہ چینی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے‘ وہی آج اسی طرح لاہور ہائی کورٹ پر برس رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یاددہانی کی ضرورت ہے کہ ہم ایسے کسی قانونی عمل کی حمایت نہیں کر سکتے جو صرف ہمارے پسندیدہ مقاصد کو پورا کرتا ہو۔ ہم یا تو عدالت کا احترام کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ فیصلوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہی انصاف کے ساتھ ہمارے اخلاص کی حقیقی آزمائش ہوتی ہے‘ خواہ وہ فیصلے ہمارے من پسند مقاصد کے حق میں ہوں یا نہ ہوں
قانونی فیصلوں پر جائز تنقید سے قطع نظر ہمارے سوشل، ڈیجیٹل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ہماری عدلیہ کے مقاصد کے بارے میں کسی قسم کے شکوک و شبہات پھیلانے سے ہر ممکن گریز کرنا چاہئے کیونکہ اگر ہماری عدلیہ کے معزز ججوں کا وقار مجروح ہوا (جیسا کہ مسلم لیگ نون کی طرف سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت کے ساتھ کیا گیا) تو اس کے بعد ہماری پوری آئینی عمارت ہی منہدم ہو جائے گی۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے قانونی اور سیاسی معاملات سے متعلق بات کرتے ہوئے دانشمندی اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔تبھی ہم اپنے وقار اور آئین کی حرمت کوبر قرار رکھنے کی امید کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں