"FBC" (space) message & send to 7575

پروڈکشن آرڈر یا حقِ ضمانت ؟

ہماری آئینی پارلیمانی جمہوریت کی پوری عمارت اس فلسفے پر کھڑی ہے کہ پارلیمان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ عوام کی مرضی اور منشا کو قابلِ نفاذ قانون کی صور ت میں ڈھال دے۔دوسرے لفظوں میںعوام کے نمائندے اپنا وقت اور توانائیاں گورننس میں بہتری لانے اور شہریوںکے روزمرہ مسائل پر بحث کرنے میں صرف کریں گے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے دستور کے مطابق گورننس کایہ سسٹم اس بنیادی مفروضے پر قائم ہے کہ تمام ارکان پارلیمنٹ ہمارے مقدس اعتماد کو برقرار رکھنے کیلئے یہ حلف اٹھائیں گے کہ وہ ہمیشہ اپنے ذاتی اور وقتی مفاد پر عوام کے ایجنڈے کو فوقیت دیںگے‘تاہم ایک بوجھل دل کے ساتھ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے ارکان پارلیمان عوام کی بنیادی ذمہ داری نبھانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔جہاں تک قومی اسمبلی کی بات ہے‘ گزشتہ تین برس میںسوائے الیکشن ایکٹ 2017ء کے ہماری قومی اسمبلی میںعوامی مفاد کی ایک بھی ترمیم یا قانون پاس نہیں کیا گیا ۔یہ الیکشن ایکٹ بھی عوامی فلاح یا جمہوری مفاد کی بجائے پانامہ کیس میں نواز شریف کی نااہلی کے تناظر میں دو اہم اور مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے پاس کیا گیا تھا ۔اول؛ نواز شریف کو پارٹی کی سربراہی کی اجازت مل جائے ۔دوم ؛ 2017ء میں ہونے والے الیکشن میں کاغذات نامزدگی سے اثاثے ظاہر کرنے کی تمام شرائط ختم کی جا سکیں۔
یہ تو بھلا ہو ہماری عدلیہ کا کہ اس نے عدالتی ریویو کر تے ہوئے ان دونوں غیر آئینی مقاصد کو پورا ہونے سے روک دیا۔ان دونوں امور میں ہمارے ارکان پارلیمنٹ نے نا صرف عدلیہ کے اس قدام پر نکتہ چینی کی‘ بلکہ اسے سکینڈلائز کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ۔ اس عرصے میں ہماری کسی بھی صوبائی اسمبلی نے عوامی فلاح و مفاد کا ایک بھی قانون پاس نہیں کیا (پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کے استثنیٰ کے ساتھ)تاہم ان پورے تین برسوں میں ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کئی سو دنوں پر مشتمل سیشن جاری رہے ‘جن پر ٹیکس گزاروں کے کروڑوں روپے صرف ہوئے۔کابینہ کے اراکین ‘سابق وزرا ‘وزرائے اعظم اور صدور نے عوام کے خون پسینے کی کمائی کو کسی قانونی ایجنڈے کی بجائے محض اپنا ذاتی سکور برابر کرنے پر ضائع کر دیا‘تاہم ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں نے ایک کام میںکمال کر دکھایا ہے کہ جب کبھی کوئی رکن اسمبلی کسی جرم کی پاداش میں گرفتار ہو اتو اسمبلی کے اراکین نے فوری طور پر اس کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کی ضمانت کا پروانہ حاصل کر لیا ۔اس روایت کی تازہ ترین مثال علی وزیر اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈرز کا مطالبہ ہے۔جب کرپشن ‘اختیارات کے غلط استعمال اور معلوم ذرائع سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا تو گزشتہ سال اکتوبر میں اسمبلی کا اجلاس بلا کر ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے گئے تھے۔ پارلیمنٹ کی خود مختاری کی آڑ میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے فوری طور پر سپیکر قومی اسمبلی سے مطالبہ کر دیا کہ نیب حکام کی طرف سے تحقیقات کرانے کی بجائے شہباز شریف کو پارلیمنٹ کے جاری اجاس میں شرکت کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں۔اسمبلی کا وہ اجلاس کئی ہفتے جاری رہا‘ جس کے دوران شہباز شریف کو اسمبلی فلور پر اپنا بھرپور دفاع کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔اس عرصے میں وہ منسٹرز انکلیو میںمقیم رہے اورکرپشن کے ملزم کو بھرپور پروٹو کول ملتا رہا ۔اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے سندھ اسمبلی نے بھی سپیکر آغا سراج درانی کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیئے‘ جنہیں کروڑوں روپے کی خفیہ دولت جمع کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔سراج درانی کو ناصرف یہ کہ سندھ اسمبلی لایا گیا‘ بلکہ تمام جمہوری روایات اور فوجداری انصاف کے اصولوںکو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیںاسمبلی کے جاری اجلاس کی صدارت کرنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔حال ہی میں دیگر اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ مل کر بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا ہے کہ پی ٹی ایم کے ارکان اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ جو لوگوںکو تشدد پر اکسانے‘مسلح افواج پر فائرنگ کرنے اور ریاست سے وفاداری کے آئینی حلف کی خلاف ورزی کی پاداش میں گرفتار ہیں‘ انہیں پروڈکشن آرڈر جاری کر کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں لایا جائے۔ریاست پاکستان اور اس کے نظریے کی واضح مخالفت کرنے والوں کے حق میں اس طرح کا مطالبہ ایک گہرے تجزیے کا متقاضی ہے۔اس ضمن میں قابل غور بات یہ ہے کہ پروڈکشن آرڈر کے قانون کا تعلقRules of Procedure and Conduct of Business in the National Assembly ,2007سے ہے ۔خصوصاً ان رولز کا رول 108کچھ یوں ہے ''کسی کمیٹی کا سپیکر یا چیئر مین ناقابل ضمانت جرم میںزیر حراست رکن کو اسمبلی کے کسی اجلاس یا اجلاسوں اور اس کمیٹی کے اجلاس میںشرکت کے لئے بلا سکتا ہے‘ جس کا وہ رکن ہو اور سمجھتا ہو کہ اس کی اجلاس میںشرکت ضروری ہے ۔وہ رکن‘ جس صوبائی حکومت کی حراست میں ہو‘ اس کے نام پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیںگے اور وہ حکومت اس زیر حراست رکن کو پیش کرنے کی پابند ہوگی۔ قومی اسمبلی رولز کی یہ شق اس ملزم کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ اگر اسے ملکی عدالتوں سے ضمانت نہ ملتی ہو تو کسی مجاز قانونی کارروائی کے بغیر اسے حراست سے نکال کر پارلیمنٹ کے ایوان میں لا کر بٹھا دیا جائے۔یہ پروڈکشن آرڈرعدالتی حقائق کا تعین کئے بغیر یا ایسے قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جاری کئے جاتے ہیں‘جو کسی بھی زیر حراست فرد کی عارضی طور پر رہائی کے لئے ضروری ہوں ۔
کیا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے اختیار کا حقیقی مقصد یہی ہے ؟کیا اس پروڈکشن آرڈر کا حقیقی مقصد اس رکن اسمبلی کو ضمانت کی سہولت دینا ہے ‘جسے ضمانت نہ ملتی؟کیا جماعتی وجوہ کی بنا پر پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کامقصد ارکان پارلیمنٹ کو ایک خود ساختہ استحقاق عطا کرنا ہے تاکہ انہیں قانون کے شکنجے اور سخت آزادانہ تفتیش سے بچایا جا سکے؟کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ اب کے بعد کسی رکن اسمبلی کو کرپشن (شہباز شریف) حتیٰ کہ دہشت گردی(محسن داوڑ) کے الزام میں بھی اس وقت تک نہ گرفتار کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کے خلاف کوئی تفتیش کی جا سکتی ہے ‘جب اسمبلی کا اجلاس جاری ہو؟ کیا اس طرح ہم اشرافیہ کے چند مقدس ارکان کے معاملے میں امتیازی سلوک کے مرتکب نہیںہو رہے؟کیا نیب کے زیر حراست تمام افراد کو منسٹر ز انکلیو میں رکھا جا سکتا ہے ؟کیا ایک عام شہری کوفوجی کانوائے پر فائرنگ کر کے کسی فوجی کو زخمی کرنے کے بعد بلاول زرداری کے مطالبے پر جسمانی ریمانڈ سے رہائی مل سکتی ہے؟کیا اس کامطلب یہ لیا جائے کہ رکن اسمبلی بننے کے بعد آپ کو فوجداری مقدمات میںتفتیش سے استثنیٰ مل جاتا ہے؟ ایسا ہے تو اگر ہم اپنے فوجداری نظامِ عدل کو نظر انداز کر دیں توکیا چھوٹو گینگ کے مجرم یا دیگر جرائم پیشہ عناصر بھی پارلیمنٹ کے رکن بننے کی آرزو نہیں کریں گے ؟مزید یہ کہ ایک ایسے ملک میںجہاں تھری سٹار جنرل کو عمر قید کی سزا مل رہی ہو اور بریگیڈیئر کو ریاست سے غداری اور جاسوسی کے الزام میں تختہ دار پر چڑھایا جا رہا ہو وہاںکیا علی وزیر اور محسن داوڑ(جن پر بھی اسی نوعیت کے الزامات ہیں) کا پھولوں کے ہاروں او ر گلاب کی پتیوں سے استقبال کیا جائے گا؟کیا ہمیں اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ محض رکن پارلیمنٹ ہونے سے ہمیں قانون توڑنے کا لائسنس مل جاتا ہے اور کسی مجاز قانونی کارروائی کے بغیر ہمیں کسی جرم سے سزا کا استثنیٰ مل جائے گا؟
ہم انتہائی تلخ سیاسی ماحول میں رہ رہے ہیں۔ایک ایسا ماحو ل جہاں جماعتی بنیادوں پر مورچہ بندی اور انفرادی سیاسی اجارہ داری قائم ہو اور سب سے بڑھ کر جہاں آئین پسندی اور ہمارے اجتماعی قومی مفاد کے ضمن میں تشویش پائی جاتی ہو۔بد قسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کی اگلی نسل ‘جس کی قیادت بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے ہاتھوںمیں ہے‘ وہ اسی افسوسناک سیاسی کلچر کے نمائندے بن چکے ہیں۔ان حالات میں ذاتی سیاسی رویوں سے قطع نظر ہر پاکستانی شہری‘ جس میں قانون کی حکمرانی اور اس کے احترام کا معمولی سا جذبہ بھی موجود ہے‘ اسے اس مکروہ سیاسی کلچر کی مزاحمت کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں