"FBC" (space) message & send to 7575

آئینی فریم ورک پر نظر ثانی کی ضرورت

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی در پردہ کہانی اور حکومتی اقلیت کے ہاتھوں اپوزیشن اکثریت کی شکست نے ہماری جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس نے ہمارے پارلیمانی نظام حکومت کے خلاف ایک نئی فرد جرم عائد کر دی ہے جو اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتا ہے۔
یہ نفرت انگیز واقعہ ہمیں جمہوریت کے خواب خرگوش سے جگانے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ ہمارا موجودہ پارلیمانی نظام حکومت تسلی بخش کارکردگی دکھانے سے قاصر نظر آتا ہے۔ اس نظام کے علمی فوائد کو تو چھوڑیں، وقت آ گیا ہے کہ ہم پاکستان میںکسی نئے حکومتی نظام کے قیام کے بارے میں سوچ بچار کریں۔ ایک ایسا نظام جو اپنے متعلقہ اداروں کا تمسخر اڑانے کے بجائے جمہوری وعدوں کی تکمیل کر سکے۔
ہمارے میڈیا پر چلنے والی کراہت آمیز باتوں سے قطع نظر حقائق مایوس کن حد تک واضح اور سادہ ہیں۔ جب اپوزیشن جماعتیں احتساب کے عمل میں اپنا دامن نہ بچا سکیں تو انہوں نے حکومت پر جوابی وار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سینیٹ میں اپنی مجموعی اکثریت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹا کر اپنی مرضی کا چیئرمین لانے کا فیصلہ کر لیا۔ سینیٹ کے اعداد و شمار سے پیش گوئی کی جا سکتی تھی کہ نتائج کیا نکلیں گے۔ 103 کے ایوان میں (اسحاق ڈار کو نکال کر جو حلف اٹھائے بغیر ملک سے فرار ہو گئے تھے) صادق سنجرانی کو پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے صرف 36 ووٹوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن کو67 ارکان کی حمایت حاصل تھی اور صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لئے ان میں سے 53 ووٹ درکار تھے۔ اعداد و شمار سے اپوزیشن کی فتح نوشتۂ دیوار تھی۔
مقررہ دن یعنی یکم اگست کو 64 ارکان سینیٹ نے کھڑے ہو کر چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی استدعا کی۔ اس اکثریتی مطالبے پر ضابطے کی کارروائی کے لئے خفیہ ووٹ ڈالنے کے لیے کہا گیا (سینیٹ کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق)۔ اپنے اپنے چیمبرز میں بیٹھی ساری اپوزیشن قیادت کی نظروں کے سامنے ہر رکن نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ جب ذرا گرد تھمی تو چیئرمین صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لئے مطلوبہ 53 ووٹوں کے بجائے تحریک عدم اعتماد کے حق میں صرف 50 ووٹ نکلے؛ چنانچہ صادق سنجرانی اپنی چیئرمین شپ بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
غصے اور مایوسی سے بھرے اپوزیشن لیڈرز کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا کہ ان کے کن چودہ ارکان نے کھڑے ہونے اور ووٹ ڈالنے کے عمل کے دوران اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیں۔
اتنی ہی حیران کن بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سینیٹرز اور صادق سنجرانی صورت حال کے اس طرح پلٹا کھانے کا جشن منا رہے ہیں اور مبارکباد کے پیغامات وصول کر رہے ہیں۔ وہ کس بات کا جشن منا رہے ہیں؟ اس بات کا کہ ہمارے سینیٹرز موقع محل کے مطابق اپنی وفاداریاں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس بات کا کہ صادق سنجرانی ایک ایسے ایوان کی صدارت فرما رہے ہیں جہاں سیاسی نظریہ یا وفاداری کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وفاداری تبدیل کرنے والوں کو خریدا گیا یا ڈرایا دھمکایا گیا، دونوں صورتوں میں وہ اس معزز اور ارفع ترین ایوان میں بیٹھنے کے اہل نہیں ہیں۔ اگر کسی بات کا جشن منایا جا سکتا ہے تو اس فرسودہ نظام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا جس نے پارلیمانی جمہوریت پر ہمارے ایمان کو متزلزل کر دیا ہے۔
آئیں سچ کو سچ کہنے کی جرأت پیدا کریں۔ پارلیمانی جمہوریت کے تحت ہمارا دستوری نظام حکومتی عملداری کا مظاہرہ کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اس کی ایک مثال پنجاب اسمبلی ہے جہاں گزشتہ کئی سال سے دھرنے اور واک آئوٹ ہو رہے ہیں جن میںانتہائی غیر پارلیمانی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں تحریک انصاف کے ارکان نے قانون سازی کا شاید ہی کوئی کام ہونے دیا ہو اور ہمیشہ اسمبلی کی سیڑھیوں میں دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔ تحریک انصاف کے پورے ایک سالہ دور حکومت میں مسلم لیگ نون نے اسمبلی میں ہر طرح کی کارروائی روکے رکھی، اس کی ساری توجہ پروڈکشن آرڈر جاری کرانے، میڈیا سے بات چیت کرنے پر رہی جس کا واحد مقصد حمزہ شہباز اور ان کی فیملی کو سیاسی تحفظ فراہم کرنا ہے۔
سندھ کے حالات اس سے بھی بد تر ہیں۔ سپیکر سندھ اسمبلی‘ جو گرفتار ہیں‘ کے پروڈکشن آرڈر جاری کر رکھے ہیں اور انہیں پارلیمانی اجلاسوں کی صدارت کرنے کی اجازت ہے۔ گالم گلوچ اور سنگین دھمکیاں روز کا معمول ہیں۔ حالات کو مزید گمبھیر بنانے کیلئے وزیر اعلیٰ سندھ‘ جنہیں اپنی حکومت کے قانو ن سازی کے ایجنڈے کا دفاع کرنا چاہئے‘ اسمبلی میں آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کے ذاتی مالی مفادات کو حلال کی کمائی ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں جب کہ دوسری طرف تھر میں بچے بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں اور اندرون سندھ لا قانونیت کے ڈیرے ہیں‘ ایچ آئی وائرس نے تباہی مچا رکھی ہے، کراچی کی سڑکیں اور گلیاں تعفن سے اٹی پڑی ہیں ہر طرف غلاظت اور کیچڑ بیماریاں پھیلا رہا ہے۔ مگر یہ تمام مسائل سندھ حکومت کا ضمیر جگانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی ضرورت بھی کیا ہے؟ کون سا بلاول زرداری صاحب کا گھر سیلاب میں بہہ گیا ہے؟
قومی اسمبلی‘ جو پارلیمانی سیاست کا گڑھ ہے‘ سب سے گھنائونی تصویر پیش کرتی ہے۔ تین سال پہلے پانامہ لیکس کے بعد قومی اسمبلی کی ساری کی ساری کارروائی چند خاندانوں کی دولت اور اثاثوں کے دفاع کی نذ ر ہو رہی ہے۔ پہلے نواز شریف تھے جو کہتے تھے ''حضور یہ ہیں وہ ذرائع جن سے یہ اثاثے بنائے گئے‘‘ پھر خواجہ آصف ''کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے‘‘ کے ساتھ گرجتے برستے رہے۔ پھر فواد چوہدری کے جوابی وار شروع ہو گئے۔ پھر پروڈکشن آرڈر کی سیاست متعارف ہوئی اور شہباز شریف، آصف زرداری‘ خواجہ سعد رفیق اور دوسرے لوگوںکو اسمبلی میں اپنا سیاسی دفاع کرنے کا موقع مل گیا۔ اس عرصے میں مفاد عامہ کے کسی قانون پر ایوان میں بحث ہوئی اور نہ وہ پاس ہوا (سوائے الیکشن ایکٹ 2017ء کے جس کے پس پردہ محرکات سے اب سبھی آگاہ ہیں) اہم بات یہ ہے کہ اس عرصے میں قومی اسمبلی کی کارروائی پر اربوں روپے خرچ ہوئے (ایک اندازے کے مطابق پندرہ ارب روپے ) اور نام کی قانون سازی بھی نہیں ہوئی۔
سچی بات یہ ہے کہ اس میں پارلیمانی طرز حکومت کا کوئی دوش نہیں ہے کیونکہ یہی طرز حکومت دیگر ممالک میں بڑی عمدگی سے کام کر رہا ہے۔ اصل مسئلہ اس نظام پر قابض لوگ ہیں اور وہ طریقہ جس طرح عوام ان کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ نظام جہاں با اثر افراد سیاسی جماعتوں سے زیادہ طاقت ور ہیں‘ وہاں ہمارے انتخابی نظام کے کلچر میں ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے مگر اس خواب کا شرمندۂ تعبیر ہونا اتنا آسان نہیں ہے۔
پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ہمیں مزید کئی عشروں تک ان جھوٹے وعدوں پر تکیہ کرنا چاہئے کہ ایک دن آئے گا جب ہماری پارلیمنٹ کسی کی ذاتی دولت کا دفاع کرنے سے اپنی توجہ ہٹا کر عوام کے اجتماعی مفادات پر مرکوز کرے گی۔ یا پھر ہمیں اپنے سیاسی طرز حکومت میں بنیادی تبدیلیاں متعارف کرنا پڑیں گی تاکہ ایک زیادہ متحرک اور نتیجہ خیز آئینی فریم ورک کام کر سکے؟ اگر آئین اور قانون میں بعض بنیادی تبدیلیاں کر دی جائیں تو کیا جمہوریت پاکستان میں بہتر انداز میں کام کر سکتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو وہ کون سی ایسی تبدیلیاں ہیں اور ان پر کس طریقے سے کام ہونا چاہئے؟
یہ وہ سنجیدہ سوالات ہیں جن پر قومی سطح پر بحث کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں تمام سٹیک ہولڈرز کی طرف سے بھرپور دلائل آنے چاہئیں‘ سب سے زیادہ ان لوگوںکی طرف سے جو اس ملک کے دستور کے اصل محافظ ہیں۔ ہمیں اپنے موجودہ آئینی فریم ورک کے حوالے سے زیادہ خود نمائی پر مبنی اپروچ نہیں اپنانی چاہئے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم نئے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ایک بہتر سماج کے بارے میں سوچ بچار کریں تاکہ جمہوریت کے نام پر عوام سے کئے گئے وعدے احسن انداز میں پورے کئے جا سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں