"FBC" (space) message & send to 7575

جج ارشد ملک کی داستان …( 2)

جمعہ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو کیس اور نواز شریف کی سزا پر مرتب ہونے والے اس کے ممکنہ اثرات(اگر کوئی ہیں تو) کے حوالے سے تفصیلی فیصلہ سنا دیا ۔ یہ نپا تلا فیصلہ جسے چیف جسٹس آف پاکستان نے خود تحریر کیا ہے‘ ہر اس شخص کو پڑھنا چاہئے جو یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے کہ سیاسی اشرافیہ نے کس طرح ہمارے سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کیا ۔جج ارشد ملک کی ویڈیو سے متعلق حقائق اور ان کے پس پردہ رچایا جانے والا ناٹک انتہائی کراہت آمیز ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن)کے مطابق جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ ''میں نے بعض افراد کے دبائو میں آکر میاں نواز شریف کو سزا دی تھی اور میںان سے ملاقات کر کے اس پر اظہارِ افسوس کرنا چاہتا ہوں‘‘۔اس ملاقات کو ''مبینہ طور پر ریکارڈ کیا گیا تھا‘‘ اور فاضل جج کو اپنے ہی فیصلے کے خلاف'' اپیل کی وجوہات لکھواتے ہوئے‘‘ دیکھا جا سکتاہے اور یہ جواز پیش کیا گیا کہ'' کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باوجود‘‘ انہیںبلیک میل کرکے نواز شریف کو سزا دینے پر مجبور کیا گیا ‘‘۔اس کے جواب میں جج ارشد ملک نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ویڈیو میں ہونے والی بات چیت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اور کہا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران بھی انہیں رشوت کی پیش کش کی گئی اور دھمکی دی گئی کہ نواز شریف کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انہیں بری نہ کرنے کی صورت میں ''سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔بعد میں جج ارشد ملک کا ایک حلفیہ بیان بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا گیا‘ جس میں ''رشوت کی پیش کش کے ساتھ ساتھ دبائو اور ترغیبات کی تفصیلات درج تھیں۔ حلفیہ بیان میںکہا گیا کہ نواز شریف کے حق میں فیصلہ لینے کے لئے شریف فیملی اور ان کے رفقانے ''بھاری رقم‘‘ بطور رشوت آفر کرنے کے علاوہ جج کو بلیک میل اور مجبور کرنے کے لئے '' ان کی ایک غیر اخلاقی ویڈیو کو بھی استعمال کیا ‘‘۔
اس پس منظر میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں تین آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔(1): یہ کہ معزز عدالت ایک انکوائری کمیشن تشکیل دے تاکہ الزامات اور جوابی الزامات کی حقیقت سامنے آسکیں۔(2):ان تمام افراد کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی جائے جنہوں نے عدالت کا وقار مجروح کرنے کی کوشش کی ہے ۔عدالت عظمیٰ سے یہ درخواست بھی کی گئی تھی کہ وہ ان واقعات کے ان اثرات کا بھی جائزہ لے جو نواز شریف کی سزا اور اس کی زیر التوا اپیل پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ساتھ ہی اٹارنی جنرل کی طرف سے عدالتِ عظمیٰ کو یہ بھی بتایا گیا کہ ویڈیو سے متعلق مواد کے بارے میں ایف آئی اے تحقیقات کر رہی ہے‘ نیز متعلقہ ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی ہے اور قانون کے مطابق ابتدائی کارروائی کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے؛چنانچہ عدالت عظمیٰ نے پانچ اہم سوالات کا احاطہ کیا جو یہ تھے اول: کونسی عدالت یا فورم اس ویڈیو کا معاملہ دیکھ سکتا ہے؟دوم:یہ کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ ویڈیو ایک مستند ثبوت ہے ؟سوم : متعلقہ ویڈیو کو قانون کی عدالت میں کیسے مستند ثابت کیاجا سکتا ہے؟چہارم : اس ویڈیو کا نواز شریف کی سزا کے کیس پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ جج ارشد ملک کو اس ویڈیو کے حوالے سے کن نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے ؟
عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں ان پانچوں سوالات کو تفصیل سے زیر بحث لایا گیا۔ خصوصاً پہلے سوال کے سلسلے میں عدالت نے کہا کہ کسی انکوائری کمیشن کو تشکیل دینے کی ضرورت نہیں ‘کیونکہ وہ اس معاملے میں صرف اپنی رائے دے سکتاہے اور ایسی رائے کو قانون کی کسی عدالت میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا ۔اس ضمن میں فیصلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہی وہ مناسب فورم ہے جہاں اس ویڈیو کو پیش کیا جا سکتا ہے ۔دوسرے اور تیسرے سوال کے بارے میںعدالتِ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ ویڈیو کا فارنزک معائنہ یا آڈٹ کرایا جانا چاہئے تاکہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ یہ ویڈیو حقیقی ہے یا نہیں۔معزز عدالت نے یہ بھی فیصلے میں لکھا ہے کہ قانونِ شہادت آرڈر1984ء کے آرٹیکل 164اوراعلیٰ عدلیہ کی مستند نظائر کی روشنی میں ویڈیو کو بطورِ شہادت قبول کرنے کا دارومدار کئی عوامل پر ہے‘ جن میں اس ویڈیو کامسلسل محفوظ تحویل میںہونا ‘ اس کا سورس ‘ ملوث لوگوں کی شناخت ‘مصدقہ شہادت اور فارنزک ٹیسٹ شامل ہیں ۔ عدالت نے اس امر کی نشاندہی بھی کی ہے کہ CRPCکی دفعہ 428کے تحت اپیلٹ کورٹ(اسلام آباد ہائی کورٹ) ''بذات خود یا اپیل کنندہ کی درخواست پران عوامل کا جائزہ لے سکتی ہے ‘‘موجودہ کیس میں نواز شریف یا ان کی فیملی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایسی کوئی درخواست نہیں دی ۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ چوتھے سوال کے حوالے سے عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ اس بات کا تعین اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرنا ہے کہ کیااس ویڈیو کے مطابق'' فاضل جج کے طرز عمل نے ‘‘نواز شریف کے کیس میں ''تعصب یا جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے ‘‘اس ضمن میں اسلام آباد ہائی کورٹ ہی اس بات کا جائزہ لے سکتی ہے کہ ''ریکارڈ شدہ شہادت اور مقدمے کی کارروائی کے دوران جج کے طرز عمل نے نواز شریف کے فیصلے پرکوئی اثر نہیں ڈالا ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ یا تو وہ خود شہادت قلم بند کرے اور میرٹ پر اپیل کا فیصلہ کر دے ‘‘یا ''کیس کو واپس ٹرائل کورٹ میں بھیج دے اور وہ پہلے سے ریکارڈ شدہ شہادتوں کی بنیاد پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد دوبارہ اس کیس کا فیصلہ کر دے‘‘۔موجودہ کیس میں چونکہ کسی فریق نے ریکارڈ شدہ شہادتوں پر کسی شک و شبہ کا اظہار نہیں کیااب وہ مسلمہ ہو چکی ہیں ۔ٹرائل کورٹ یا اپیلٹ کورٹ ایسی شہادت کو حتمی فیصلہ دینے کے لئے دوبارہ ریکارد نہیں کیا کرتی۔آخری سوال جج ارشدملک کے مستقبل سے متعلق تھا جسے غالباًسیل کر دیا گیا ہے ۔عدالتِ عظمیٰ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ جج کے طرزِ عمل سے ملک کے ہزاروں ایماندار اور عادل ججوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ 
عدالتِ عظمیٰ کے اتنے عالمانہ فیصلے کے باوجود یہ ضروری ہے کہ ہم ایک لمحے کے لئے تؤقف کر کے نظامِ عدل کی صورتحال کا جائزہ لیں۔ایک طرف جج ارشد ملک ہیںجن کا کردار ‘ماضی اور طرزِ عمل عدلیہ کے ضمیر پر بد نما داغ ہے یہ حقیقت کہ ہمارے عدالتی ڈھانچے میں اس کیلیبر کا آدمی بھی موجود ہے اور اس کا ترقی کے زینے طے کرتے رہنا ہمارے عدالتی ڈھانچے ‘اس کی ریکروٹمنٹ اور اس کی مانیٹرنگ کے خلاف ایک فرد جرم ہے۔دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ریاست کے اعلیٰ ترین سیاسی عہدوں پر براجمان ہونے کے خواہش مند ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ارشد ملک کو پہلے احتساب عدالت میں تعینات کروایا اور پھر اپنا کیس ان کی عدالت میں ٹرانسفر کرنے کی درخواست دے دی اور پھر انہیں اپنے حق میں فیصلہ دینے کی غرض سے رشوت کی پیش کش کی‘بند دروازوں میں ان سے ملتے رہے‘بلیک میلنگ کے حربے استعمال کئے اور پھر پریس کانفرنس میں انہیں رسوا کیا۔یہ وہی لوگ تھے جو جج کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے بیتاب تھے اور قانون کی عدالت میں پیش ہونے کی بجائے جج کو رشوت کی پیشکش کرنے کے لئے پاکستان سے باہر بھی گئے۔ ان لوگوں کے پاس اپنی بے پناہ دولت کا کوئی جواز ہے نہ منی ٹریل‘ کیونکہ انہیںکبھی اس طرح کی قانونی موشگافیوں کا سامنا کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔انہیں ضرورت بھی کیاہے جب وہ ہمارے نظامِ عدل میںموجود ارشد ملک جیسے ججز کو خرید سکتے ہیں ‘انہیں بلیک میل کر سکتے ہیں‘یا ملک قیوم جیسے ججز کو فون کر سکتے ہیں۔اس سب کے باوجود وہ پھر بھی چاہتے ہیں کہ دوبارہ منتخب ہو کر اس ملک کے سب سے بڑے سیاسی آفس پر براجمان ہوجائیں۔ اس کی کوئی اور وجہ نہیں سوائے اس کے کہ ارشد ملک جیسے ججوںکو ہماری عدلیہ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسلط رکھا جائے اور وہ بادشاہ سلامت سے کوئی باز پرس نہ کر سکیں۔جج ارشد ملک اور ان کی ویڈیو کی کہانی شاید ہماری عدلیہ کی تاریخ کاسب سے شرمناک واقعہ ہے۔ہماری عدالتِ عظمیٰ کو ریکروٹمنٹ پالیسی میں بہتری لانے کے علاوہ مانیٹرنگ کا ایک کڑا میکنزم متعارف کرانا ہوگا ‘تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہماری عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔یہی وہ معیار ہے جس پر آنے والے دنوں میںہماری عدلیہ کی لیڈرشپ کی کارکردگی کو جانچا جائے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں