"FBC" (space) message & send to 7575

نواز شریف کی ضمانت

لاہور ہائی کورٹ نے جمعہ کونیب کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کیس کی انکوائری میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پربعد از گرفتاری ضمانت منظور کرلی۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی العزیزیہ کیس میں سزا کے خلاف ان کی ضمانت منظور کر لی۔لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کے سربراہ جسٹس علی باقر نجفی کے تحریرکردہ فیصلے میں نواز شریف کی صحت اور نیب کیسز میں ضمانت سے متعلقہ قانون کے حوالے سے دوٹوک رائے کا اظہار کیا گیاہے‘مگر اس فیصلے کے مندرجات پر بحث کرنے سے پیشتر بعض قانونی اصولوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو اس بات کی نشاندہی بہت اہم ہے کہ قومی احتساب آرڈیننس1999ء میںضمانت دینے سے متعلق کوئی شق موجود نہیں ہے۔درحقیقت نیب آرڈیننس کا سیکشن 9(b)کہتا ہے کہ نوعیت کے اعتبار سے ''اس آرڈیننس کے تحت آنے والے تمام جرائم میں ضمانت نہیں ہوگی‘‘نیز یہ کہ '' اس آرڈیننس کے دائرہ کار میں آنے والے کسی بھی جرم میں کوئی بھی عدالت کسی ملزم یا مجرم کی ضمانت لینے کی مجاز نہیں ہوگی ‘‘۔اس شق کے نتیجے میں نیب کے دائرہ کار میں آنے والے کسی جرم کا کوئی بھی ملزم یا مجرم احتساب عدالت میں ضمانت کے لئے اپلائی نہیں کر سکتا‘تاہم بعض ''مخصوص حالات ‘‘میںکوئی ملزم یا مجرم (آئین کے آرٹیکل 199کے تحت) اپنی سز اکی معطلی یا ضمانت کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔نیت اور مقصد کی بنا پر'' خاص صورتحال اور کیس میں‘‘ یہ قانون عدالتوں کو منصفانہ چارہ جوئی کاموقع دینے کے لئے اس امر کی اجازت دیتا ہے۔ 
اس کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ نیب کے تحت آنے والے جرائم میں کسی ملزم یا مجرم کوضمانت دینے کے لئے ''مخصوص حالات ‘‘کا تعین کیسے ہوگا‘اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی مطلوبہ رہنمائی دے چکی ہے۔خاص طور پر ماضی کے بعض فیصلوں میں‘ جن میں اسی سال مارچ میں نواز شریف کو چھ ہفتے کی ضمانت دینے والا فیصلہ بھی شامل ہے‘ عدالت عظمیٰ اس مسئلے پر غور و خوض کر چکی ہے کہ طبی بیماری سے متعلق ''مخصوص حالات ‘‘کا تعین کیسے کیا جائے گا۔عدالت عظمیٰ نے اس امر کی وضاحت کر دی ہے کہ نیب قوانین میں ایسی کسی شق کی عدم موجودگی میں طبی بنیاد پر ضمانت صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے اگر مسلسل قید میں رہنے کے دوران کسی شخص کی زندگی کو خطرہ پیدا ہو نے کااندیشہ ہو۔''زندگی کے لئے خطرہ بن جانے والے مخصوص حالات ‘‘سے کم کی صورت میں ضمانت منظورنہیں ہوگی اور یہ کہ اگر ملزم یا مجرم کادورانِ قید مناسب علاج ہو سکتا ہے تو ایسے شخص کو ضمانت پر رہا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ 
عدالت عظمیٰ کے طے کردہ اس دائرہ کار میں رہتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ نواز شریف کو لاحق کئی بیماریوں خصوصاً پلیٹ لیٹس کی خطرناک حد تک کمی کے پیش نظر ان کی طبی بنیاد پر ضمانت منظور کر لے۔اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ نواز شریف کی دل کی بیماری کے حوالے سے ایک ہسٹری موجودہے‘ جس کی وجہ سے انہیں2002-2017ء کے عرصے میں آٹھ مرتبہ آپریشنز کے مراحل سے گزرنا پڑا۔عدالت عالیہ نے یہ بھی ابزرو کیا ہے کہ نواز شریف کے لئے تشکیل دیئے جانے والے سپیشل میڈیکل بورڈ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ان کولاحق Arrhythmia کی بیماری مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لئے انہیںجدید EBلیب میں الیکٹرو فیزیالوجیکل سٹڈیز کی ضرورت ہے‘ جس کے لئے انہیں ایک مستقل Pacemaker and Implantable Cardioverter Defibrillatorبیک اپ بھی چاہئے ہوگا۔گیارہ رکنی میڈیکل بورڈ نے 23 اکتوبر 2019ء کو ایک متفقہ رپورٹ بھی دی ہے‘ جس کے تحت'' نواز شریف کو ذیابیطس ‘بلڈ پریشر ‘گردوں اور دل کی بیماریوں سمیت کئی بیماریاں لاحق ہیں جس سے مریض کی حالت تشویش ناک ہے اور اس تناظر میں پلیٹ لیٹس کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی نے ان کی بیماری کی سنگین نوعیت کو مزید واضح کردیا ہے ‘‘۔
عدالت کے استفسار پر میڈیکل بورڈ کے سربراہ داکٹر محمود ایاز نے بتایا ''سب سے زیادہ خطرہ پلیٹ لیٹس کا 6000 per microliter تک کم ہونا ہے ‘‘۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا ''میری رائے میں مریض کو سب سے پہلے اندرونی اور بیرونی بلیڈنگ سے بچانا ہے‘ کیونکہ ان حالا ت میں میڈیکل بورڈ کوئی پروسیجر کرنے سے قاصر ہے‘‘۔ اہم بات یہ ہے کہ عدالت نے یہ بھی ا بزرو کیا''نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر یا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی اس میڈیکل رپورٹ کو چیلنج نہیں کیا ‘‘۔
ریکارڈ میں پیش کردہ اس میڈیکل رپورٹ کو تسلیم کرتے ہوئے عدالت نے ان حالات پر قانون کے اطلاق کی غرض سے کارروائی شروع کی اور یہ ابزرو کیا ''چونکہ طبی بنیاد پرضمانت دینے کاقانون بالکل واضح اورطے شدہ ہے‘ جس کے مطابق اگر ملزم کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہے جو اس کی زندگی کے لئے خطرہ ہو سکتی ہے اور جیل میں اس بیماری کا علاج بھی ممکن نہ ہو تو گرفتاری کے بعد ضمانت ملنا اس کا استحقاق ہے‘‘۔
میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں عدالت نے وضاحت کر دی کہ چونکہ درخواست گزار کی حالت بہت تشویش ناک ہے اور گزشتہ چند دنوں سے اسے بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی کے باوجود اس کے پلیٹ لیٹس کی تعداد میں بہتری نہیں آرہی ‘ اس لئے عدالت یہ سمجھتی ہے کہ ان حالات میں ''یہ انسانی حقوق کا کیس بنتا ہے ‘‘جس کے مطابق ''ہر بیمار شخص کو کرئہ ارض پر دستیاب بہترین علاج کا حق حاصل ہے‘ بشرطیکہ وہ اس کی دستر س میں ہو ‘‘؛چنانچہ عدالت عظمیٰ کے طے کردہ قانون (1997 SCMR 1275)کی روشنی میں عدالت عالیہ نے تین اہم سوالات اٹھائے۔ اول: کیا ملزم کسی ایسی بیماری میں مبتلاہے جس کا علاج جیل کے اندر رہ کر ممکن نہیں ہے ؟ دوم :کیا اس کے لئے غیر معمولی یعنی سپیشلائزڈ علاج کی ضرورت ہے؟ سوم : کیا جیل میں مسلسل قید سے اس کی صحت متاثر ہو سکتی ہے؟ یا اس کی زندگی کے لیے کوئی خطرہ بن سکتی ہے؟
ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے عدالت عالیہ نے کہا ''سپیشل میڈیکل بورڈ پہلے ہی یہ تسلیم کر چکا ہے کہ ''پلیٹ لیٹس کی تیزی سے کمی کو روکنے کے لئے ضروری آلات کی عدم دستیابی کی وجہ سے درخواست گزار کا مناسب علاج نہیں کیا جا سکتا‘‘۔میڈیکل بورڈ کی اس رائے اور نواز شریف کے ادھیڑ عمری میں کئی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے عدالت عالیہ اس نتیجے پر پہنچی کہ عدالت عظمیٰ پاکستان کی بیان کردہ نظائرکی روشنی میں ''نواز شریف کی طبی بنیاد پر ضمانت کا جواز موجود ہے ‘‘۔سیاسی تعصبات سے قطع نظر ہمارے قانون کے مسلمہ اصولوںکے تحت عدالت عالیہ لاہور نے ایک مضبوط اور مؤثر فیصلہ دیاہے۔نواز شریف شدید بیمار ہیں‘ان کی صحت روز بروز گرتی جا رہی ہے ۔حالتِ قید میں انہیںکم از کم علاج کی سہولت میسر نہیں رہی اور قانون کے تحت ان کی ضمانت کا جوازبنتا ہے۔
یہ ایسے ایشوز نہیںہیں ‘جن پرسیاست کی جائے۔آپ ایک لمحے کے لئے نواز شریف کے ساتھ اپنے اختلافات سے صرف نظر کر تے ہوئے ایک بیمار شخص سے اظہارِ ہمدردی بھی توکر سکتے ہیں۔جب وہ روبصحت ہو جائیں تو ہم پھر سے ا ن کے کڑے احتساب کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔خدا نخواستہ اگر وہ اس بیماری سے صحت یاب نہیں ہو سکتے تو ہمیں یہ سب معاملات اللہ پر چھوڑ دینے چاہئیں۔خیر ان کی بیماری کے دوران ریاست کو بڑے پن کامظاہرہ کرنا چاہئے۔اگر اربابِ اقتدار اس بڑے پن کامظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں تو کم از کم ہماری ریاست کونواز شریف کا خون اپنے سر لینے سے گریز کرنا چاہئے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں