"FBC" (space) message & send to 7575

خاموش عدالتی انقلاب

اوائل ہفتہ وزیراعظم پاکستان نے نواز شریف کی بغیر کسی مالی ضمانت یا مچلکہ پاکستان سے روانگی پر مایوسی کا اظہارکیا۔ایک تقریر کے دوران وزیر اعظم نے موجودہ چیف جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد سے (جو پاکستان کے آئندہ چیف جسٹس بننے والے ہیں) مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں جانبدارانہ انصاف کے تاثر کو دور کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ خاص طور پر انہوں نے اس بات پر اظہارِ افسوس کیا کہ ''بظاہر‘‘ ہمارا نظامِ انصاف ''طاقتوروں‘‘ کے لیے خصوصی سلوک روا رکھتا ہے ‘لیکن انہی معیارات پراس سرزمین میں غربا اور لاوارثوں کو ''انصاف‘‘ نہیں ملتا۔ چند دن بعد‘ معزز چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے تبصرے کا جواب دیا۔ جسٹس کھوسہ صاحب نے حالیہ برسوں میں حاصل کی جانے والی سپریم کورٹ کی کامیابیوں کو ذکر کرتے ہوئے خاص طور پر اپنے دور میں عدالتِ عظمیٰ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال بارے اقدامات گنوائے۔ وزیر اعظم کی بات پر ردعمل دیتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے نشاندہی کی کہ نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اصولی اجازت تو خود حکومت نے (یعنی وزیر اعظم نے) دی‘ جبکہ عدالت نے صرف اس معاملے کی جزئیات بارے فیصلہ کیا۔ انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ عدالت سیاسی طور پر ''طاقتور‘‘ لوگوں کو کوئی رعایت نہیں دیتی‘ اور وہ مقدمات کا فیصلہ صرف مروج قانون و آئین کی روشنی میں کرتی ہے۔
یہاں ایک لمحے کو رُک کر معزز چیف جسٹس کے دعووں کاتھوڑا گہرائی میں جا کر جائزہ لیتے ہیں۔آغاز ہم جسٹس کھوسہ صاحب کے اکیس برس پر محیط غیر معمولی عدالتی خدمات کے اعتراف سے کرتے ہیں‘ بینچ کے ساتھ ان کا یہ تعلق اکیس دسمبر 2019ء کو ختم ہو جائے گا۔ اس عرصے میں جسٹس کھوسہ نے کئی یادگار عدالتی فیصلے تحریر کیے اور ہماری قانونی حدود کی تشکیل میںمددکی۔ جمعرات کو اپنی تقریر میں انہوں نے ہمیں یاد دلایا کہ معزز عدالت نے ایک وزیر اعظم کو سزا سنانے اور ایک کو نا اہل قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ اتفاقی امر یہ ہے کہ جسٹس کھوسہ ہی نے یہ دونوں فیصلے لکھے ‘ یوسف رضا گیلانی کو سزا سنائی گئی اور میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔جسٹس ثاقب نثار کے ''عدالتی فعالیت‘‘ کے تناظر میں جسٹس کھوسہ کو ورثے میں ایسی سپریم کورٹ ملی جو انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کے سبب تنقید کا ہدف بنی ہوئی تھی‘ تاہم منصب سنبھالنے کے پہلے دن سے ہی جسٹس کھوسہ نے اپنے پیش رو کے انداز سے مراجعت اختیار کی اور سووموٹو اختیارات کے استعمال سے تقریباً اجتناب کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے واقعات پر عدالتی مداخلت کے عوامی مطالبے پر بھی جسٹس کھوسہ نے یہ اختیار استعمال نہ کرنے ہی کا فیصلہ کیا۔ اس کی بجائے‘ جیسا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں تفصیلاً بیان بھی کیا‘ جسٹس کھوسہ کی توانائی عدالت نظام کی اندرونی حالت میں بہتری لانے کے لیے اصلاحات پر صرف ہوئی۔ ذہین اور اولوالعزم جسٹس منصور علی شاہ کی مدد سے معزز سپریم کورٹ نے اپنی تکنیکی مہارتوں میں زبردست اضافہ کیا۔ ویڈیو کانفرنس کی سہولیات اور ایک جامع موبائل ایپلی کیشن اس کا ثبوت ہیں۔ زیر التوا مقدمات کے حوالے سے جسٹس کھوسہ نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کے سامنے اس وقت کوئی کریمنل اپیل ملتوی نہیں‘17 اضلاع میں قتل کے مقدمات‘ بیس اضلاع میں خاندانی مقدمات کی اپیل ‘ 23 اضلاع میں منشیات کے مقدمات‘بیس اضلاع میں سول اپیل اور انتیس اضلاع میں کرایہ داری کی کوئی اپیل زیر التوا نہیں ہے‘ اسی طرح سپریم کورٹ کی نیشنل پولیس ریفارم کمیٹی کے ذریعے‘جس کے سربراہ خود چیف جسٹس ہیں‘ پولیس کے انتظامِ کار میں مداخلت پر بھی جسٹس کھوسہ نے روشنی ڈالی۔
یہ سب اور ان جیسے دیگر اقدامات جو جسٹس کھوسہ کے دور میں اٹھائے گئے‘ نہایت قابلِ تحسین ہیں۔ ان کے اپنے لفظوں میں: یہ چیزیں ہمارے عدالتی حکام کی ''عبادت‘‘ کاحصہ ہیں۔تاہم جمہوری مباحث کی روح میں مثل ''عبادت‘‘ موجود شے کی بدولت ہم چند ایسے سوالات و تحفظات بیان کرنا چاہتے ہیںجو شاید معزز چیف جسٹس کی نظروں سے اوجھل رہ گئے۔اول‘آرٹیکل 184(3)کے تحت سووموٹواختیار کے استعمال کے لیے وعدہ کردہ ڈھانچے کا کیا بنا؟ کیا ہم یہ چیز بطورِ حقیقت تسلیم کر لیں کہ آرٹیکل 184(3)کے تحت دستیاب آئینی اختیارات کسی خاص عدالتی دور میں غیر فعال ہوں گے‘ جبکہ کسی دوسرے دور میں یہ غیرمعمولی طور پر فعال ہوجائیں گے ؟کیا ''ہیومن رائٹس سیل‘‘کے ذریعے بے یارو مددگار شہریوں کی شنوائی چیف جسٹس کی مسند پر بیٹھے ہوئی شخصیت کی ذاتی ترجیحات کی محتاج رہے گی؟ چاہے ان کی حالت زار جتنی بھی قابلِ رحم ہو؟ہم سب نے مائوں کی گودوں میں دم توڑتے ان معصوموں کی ویڈیو دیکھی ہیں جنہیں کتوں نے کاٹ کھایا۔ ہم نے اس ماں کی نوحہ خوانی سنی ہے جو انصاف کے لیے دُہائیاں دے رہی تھی۔ وہ انصاف کے حصول کے لیے کہاں درخواست جمع کرائے؟ معزز عدالت ہی اس خاندان کے لیے اُمید کی واحد کرن رہ جاتی ہے۔ کیا ان مظلوموں کو صرف یہ تسلی دے دینا کافی ہے کہ عدالتی عدم مداخلت ہمارے نظام کے لیے اچھی ہے اس لیے وہ صبر کریں؟ کیا ہمیں اس ماں کومطلع کر دینا چاہیے کہ معزز عدالت اس کے بیٹے (اور اس جیسے دوسروں کے) درد کا درماںبن سکتی تھی‘ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کیوںکہ یہ عدالت کا کام نہیں ہے۔
جہاں تک پولیس اصلاحات کا تعلق ہے تو سوال یہ ہے کہ اضلاع میں قانون کی رو سے درکار کتنے پبلک سیفٹی کمیشن فعال ہیں؟(جواب: ایک بھی نہیں)۔ کتنے صوبوں میں قانون کی رو سے درکار ایسے کمیشن موجود ہیں؟ (جواب: ایک بھی نہیں) یا کیا صوبوں میں آئی جی کی تعیناتی کے لیے ''سلیکشن پینل‘‘ بنادیے گئے ہیں‘جن کی سربراہی خود چیف جسٹس کو کرنی تھی؟ادارہ جاتی اصلاحات سے ہٹ کر کیا عدالتِ عظمیٰ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ ساہیوال واقعے کے تمام مجرمان آزاد ہو چکے ہیں؟ کہ مرنے والوں کے لواحقین نے خدا کے نام پر تمام ملوث پولیس افسران کو معاف کر دیا ہے؟ حتیٰ کہ تیرہ برس کی عریبہ کے قتل کو بھی معاف کیا جا چکا ہے‘ جسے چار گولیاں ماری گئیں؟ کیا باقی بچ رہی دونوں بچیوں کو (دونوں کمسن ہیں) چاہیے کہ وہ مقامی ایس پی شکایات سے رجوع کریں؟ کیا انہیں اٹھارہ برس کا ہو کر اپنا استغاثہ داخل کرنا چاہیے؟یا ان کے لیے اچھا وقت کسی ایسے چیف جسٹس کے عہد میں بھی آ سکتا ہے جو غیر معمولی صورتحال میں سووموٹو ایکشن لینے پر یقین رکھتا ہو؟
معزز چیف جسٹس کی یہ بات بالکل درست ہے کہ عدالت نے سابق وزرائے اعظم کو سزاسنائی/نااہل کیا اور انہوں نے سیاسی طور پر طاقتور لوگوں کو کوئی خصوصی رعایت نہیں دی‘ لیکن اسی سانس میں ہم اختلاف رائے کی جرأت کرتے ہوئے پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ہائی کورٹوں نے سوائے حمزہ شہباز اور نواز شریف کے کسی اورکی درخواستِ ضمانت کی سماعت بھی ہفتے کے دن کو کی ہے؟ کتنے لوگوں کو (حمزہ شہباز کی طرح) یہ سہولت دی گئی کہ احتساب ادارہ ان کے خلاف کارروائی سے دس روز قبل انہیں آگاہ کرے؟ کیا ایسا کوئی حوالہ ملے گا کہ کب کسی اللہ دتہ کا مقدمہ عدالتوں نے اختتام ہفتہ پر رات گئے تک سُنا تھا؟ یا کتنی بار عدالتوں نے اللہ دتہ کی زندگی کی ضمانت ریاستی حکام سے طلب کی ہے؟ یقینا اس بات میں کوئی شُبہ نہیں کہ عدالتیں فریق مقدمہ کے سیاسی قد وقامت کے بارے میں کچھ نہیں دیکھ رہی ہوتیں‘ تاہم اس حوالے سے اگر اعدادوشمار بیان کر دیے جائیں تو یہ قضیہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔
معزز چیف جسٹس نے بجا فرمایا کہ ایک خاموش عدالتی انقلاب پاکستان میں برپا ہونے کو ہے‘ تاہم اس حوالے سے مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس کا پھل ابھی ان تک نہیں پہنچا جو ہماری سرزمین پر انصاف کیلئے دہائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ اور یہ کہ سوشل میڈیا اور بار روم میں معزز اعلیٰ عدلیہ کے شریف خاندان کے ساتھ سلوک کے تناظر میں ہمارے عدالتی نظام کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ایسے تحفظات بلا وجہ اور نامعقول ہیں اوراس مقولے کے مصداق کہ ''انصاف ہوتا ہوا بھی دکھائی دینا چاہیے‘‘ چیف جسٹس کھوسہ ان تمام شبہات کو فرو کر دیں گے ‘جو ہماری سرزمین پر نظام عدل کی ساکھ کے متعلق پیدا ہو رہے ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں