"FBC" (space) message & send to 7575

راجہ پرویز اشرف کیس کے مضمرات

اس مہینے کے اوائل میں‘ جب کسی کی بھی توجہ اس معاملے کی جانب نہ تھی‘سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو مبینہ کرپشن کے اُس کیس سے بری کر دیا گیا جس میں اُن پر الزام تھا کہ انہوں نے گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کارپوریشن میں غیر قانونی بھرتیاں کی تھیں۔انہیں بری کیوں کیا گیا؟ کیا انہوں نے 437افراد کومبینہ طور پر گیپکو میں بھرتی نہیں کیا تھا؟ یقینا یہ بات نہیں ہے۔ انہوں نے یہ کام کیا تھااور یہ تسلیم شدہ امر ہے۔ ان کی بریت ہوئی ہے نیب آرڈیننس میں کی جانے والی اُس نئی ترمیم کی روشنی میں جو اس برس کے شروع میں حکومت نے کی تھی۔ ان ملازمین کی غیر قانونی تقرری اب نیب آرڈیننس کے تحت جرم نہیں رہی۔ کم از کم یہ کام اُس وقت تک جرم نہیں جب تک نیب یہ ثابت نہ کر دے کہ راجہ پرویز اشرف نے ان غیر قانونی بھرتیوں کے عوض مالی فائدہ حاصل کیا تھا اور چونکہ ان غیر قانونی بھرتی ہونے والوں نے براہِ راست راجہ پرویز اشرف کے بینک اکائونٹ میں کوئی رقوم نہیں بھیجیں‘ تو نیب عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔
یہ فیصلہ اپنی تمام منشا و مقاصد کے ساتھ‘ بریت کے بہت سے فیصلوں میں سے پہلا ہے اور یہ شاخسانہ ہے اُن حالیہ ترامیم کا جو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے نیب آرڈیننس میں کی گئی ہیں۔ یہ اُس 'سمجھوتے‘ کی ایک جھلک ہے ‘جو پی ٹی آئی حکومت نے عین انہی لوگوں کے ساتھ کیا ہے‘ جن کے بارے میں وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ انہیں کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں نیب آرڈیننس میں کی جانے والی یہ ترامیم احتساب کے بارے میں پی ٹی آئی حکومت کے پورے بیانیے کو ہی نگل جائیں گی‘ ان کی بدولت ان کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ ان کے خلاف احتسابی عمل سیاسی طور پر انہیں نشانہ بنانے کے لیے تھا۔
یہاں ایک لمحے کو رُک کر راجہ پرویز اشرف کی بریت کے فیصلے کے لب لباب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس وقت کے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف اور دیگر سات لوگوں کے خلاف ریفرنس نمبر 100/2016داخل کیا گیا ‘ان پر الزام تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر  گیپکو میں غیر قانونی تعیناتیاں کیں‘ اور ان آسامیوں کے لیے تحریری امتحان کی شرط اور دیگر ضابطے کی کارروائیاں ختم کر دیں۔ اس پہلو سے ان پراختیارات کے غلط استعمال کا الزام نیب آرڈیننس کے سیکشن 9(a)(vi)کے تحت 19ستمبر 2017ء کو عائد کیا گیا اور اسی کے مطابق مقدمے کی کارروائی چلی۔ جن لوگوں نے ثبوت دیکھے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ایک 'اوپن اینڈ شٹ‘ کیس تھا۔ ان 437 لوگوں کی تعیناتی کے لیے ضابطے کی کسی کارروائی پر عمل نہیں کیا گیا۔ واضح طور پر مقررکردہ طریقہ کار نظر انداز کر کے اقربا پروری اور سیاسی بخشش دی گئی۔ در حقیقت بہت سی تعیناتیوں میں تو جس آسامی پر ان لوگوں کو بھرتی کیا گیا اس کے لیے ان کی تعلیمی قابلیت بھی پوری نہ تھی اور یہ وہ ریکارڈ ہے جسے تمام فریقین نے دورانِ مقدمہ قبول کیا۔تاہم 28دسمبر 2019ء کو پی ٹی آئی حکومت نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کر دیں۔ منجملہ دیگر چیزوں کے اس ترمیم میں ایک وضاحت نیب آرڈیننس کے سیکشن 9(a)(vi) کے تحت ''اختیارات کے ناجائزاستعمال ‘‘ کے حوالے سے شامل تھی۔ خاص طور پر یہ ترمیم شرط عائد کرتی ہے کہ اس شق کے تحت کوئی شے عوامی عہدے پر فائز کسی شخص کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں نہیں آئے گی تاوقت کہ اس بات کا ثبوت موجود نہ ہو کہ اس کے بدلے میں کسی قسم کا مادی فائدہ حاصل کیا گیا ہے یا اس کے اثاثوں میں ا س کی ظاہر کردہ آمدن کی نسبت زیادہ اضافہ ہوا ہو یا وہ ان کے لیے کوئی مناسب جواز فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ دوسرے لفظوں میں جب تک نیب یہ ثابت نہیں کر دیتا کہ عوامی عہدے پر فائز شخص نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پیسہ وصول کیا ہے یا اس کے بدلے کوئی اثاثہ بنایا ہے تب تک نیب آرڈیننس کے سیکشن 9(a)(vi)کے تحت کسی جرم کا وقوع پذیر ہونا ثابت نہ ہوگا۔
در حقیقت‘ اگر اس کے بدلے میں کوئی مالی فائدہ یا کچھ اور وصول بھی کیا گیا ہو‘ لیکن یہ براہِ راست عوامی عہدیدار کا ''اثاثہ‘‘ نہ ہو تب بھی سیکشن 9(a)(vi) کے اطلاق کا امکان نہیں۔ سادہ لفظوں میں کہا جائے کہ اگر کوئی سیاسی رہنما ووٹوں کے حصول کے لیے سرکاری نوکریاں دیتا ہے‘ یا کسی دوست یا رشتہ دار کے نام بینک اکائونٹ میں ان کے بدلے رقم وصول کرتا ہے تب بھی نیب آرڈیننس کے تحت ایسا عوامی عہدیدار ''اختیار کے ناجائز استعمال کا مرتکب‘‘ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔اس ترمیم نے راجہ پرویز اشرف کے مقدمے میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔اس ترمیم کے پاس ہوتے ہی راجہ پرویز اشرف نے بریت کی درخواست دائر کر دی‘ انہوں نے استدعا کی کہ ان کے اعمال اب نیب آرڈیننس کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ نیب عدالت کے سامنے سوال یہ تھا کہ کیا ان حالات میں ایسی کسی ترمیم/وضاحت کا اطلاق 'موثر بہ ماضی کیا جا سکتا ہے‘ یعنی اُن اعمال کے لیے جو اس ترمیم کے اعلان سے قبل وقوع پذیر ہو چکے ہوں؟
فاضل نیب عدالت‘ معزز اعلیٰ عدلیہ کے نظائر پر بحث کی روشنی میں‘ اس نتیجے پر پہنچی کہ ''اب یہ بات پوری طرح طے ہو چکی ہے کہ کوئی وضاحت جو قانونی پروویژن کے حوالے سے شامل کی جائے وہ اصطلاح کے کسی بھی پہلو سے کوئی اساسی پروویژن نہیں بلکہ اسے اس لفظ کے سادہ معنوں میں ہی قبول کیا جائے گااور اس کا مقصد صرف اس خاص ابہام کی وضاحت یا اسے دور کرنا ہے جو ممکنہ طور پر اُس قانونی پروویژن  میں پیدا ہو ‘‘ لہٰذا اس کا اطلاق موثر بہ ماضی ہو سکتا ہے‘ لہٰذا‘ فاضل عدالت اعلان کرتی ہے ''کہ عوامی عہدہ رکھنے والے یا سرکاری ذمہ داریاں ادا کرنے والے شخص کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم اُس وقت تک وقوع پذیر نہ ہوگا جب تک اس بات کا توثیقی ثبوت بہم نہ پہنچایا جائے کہ اس نے اس کے بدلے میں کوئی مادی فائدہ یا اثاثہ بنایا ہے‘‘۔ اس اصول کو راجہ پرویز اشرف کے مقدمے پر لاگو کرتے ہوئے فاضل عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ''اس خاص مقدمے میں پراستغاثہ کی جانب سے ایسا کوئی الزام مدعا علیہ پر عائد نہیں کیا گیا اور نہ اس کا کوئی ثبوت مہیا کیا گیا ہے کہ اس نے اس کے بدلے میں کوئی مادی فائدہ حاصل کیا ہے‘‘۔ اس کے نتیجے میں یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ''اختیارات کے ناجائز استعمال‘ کرپشن اور بدعنوانی کا کوئی ثبوت ملزم کے خلاف نیب آرڈیننس کے سیکشن 9(a)(vi)اور (xii)کے تحت مہیا نہیں کیا گیا‘ جس کے تحت ملزم پر فرد جرم عائد کی گئی تھی‘لہٰذا ملزم کو سزا سنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔اس کے نتیجے میں راجہ پرویز اشرف اور ان کے شریک ملزمان کو بری کر دیا گیا۔اس حقیقت کے باوجود کہ437 تقرریاں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی مفاد اور اقربا پروری کی بنیاد پر کی گئی تھیں۔
ان حالات میں ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ اپنا سر پیٹیں اور پی ٹی آئی حکومت کا شکریہ ادا کریں کہ اس نے سیاستدانوں کے احتساب کی امید آخر کار ختم کر دی۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مفتاح اسماعیل‘ شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال اور ان جیسے دیگر اشخاص سب کے سب کا نیب آرڈیننس میں کی جانے والی ان ترامیم کی بنیادوں پر بری ہونے کا قومی امکان ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی سیاسی و مالی احتساب کے منصوبے کو‘ اس کے لغوی اور حقیقی معنوں میں‘ صحیح دھچکا لگے گا۔اس قسط کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں کو اپنے سیاسی انتخاب کے بارے میں سوال اٹھانا چاہیے: ممکن ہے کہ عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی گزشتہ چالیس برسوں سے جاری ''مک مکا‘‘ سے کسی طور مختلف نہ ہوں؟ ممکن ہے نعرے بازیوں کے برعکس یہ جماعت بھی طاقتورکو بچائے اور کمزور پر ہی مقدمات چلائے؟ اور اگر ایسا ہوا تو عمران خان اپنی سیاسی بنیاد کھو بیٹھیں گے۔ اس سے بھی بد تر شے یہ ہو گی کہ انہیں پاکستانیوں کی نئی نسل‘ جس نے اُن سے امیدیں وابستہ کیں‘ کی احتساب کی امید ختم کر دینے کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں