"FBC" (space) message & send to 7575

غیر فعال سماجی معاہدہ

کورونا وائرس نے ساری دنیا میں جدید ریاستی ڈھانچے کی کمزور نوعیت کو عیاں کر دیا ہے۔وہ ممالک جنہیں اپنی ٹیکنالوجی‘ خدمات کی فراہمی کے نظام اور گورننس کے ڈھانچے پر ناز تھا وہ سب کے سب اس عالمی وبا کے قدموں میں منہ کے بل جا گرے۔ عالمی سطح پر نظامِ صحت منہدم ہو جانے کی مصیبت کے علاوہ اس وبا سے جنم لینے والے معاشی اثرات نے مغرب کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ گورننس کی اپنی ترجیحات کا دوبارہ جائزہ لے اور اپنے ادارہ جاتی ڈھانچے کی از سرِ نو تشکیل بارے غور کرے۔ 
پاکستان میں مسائل کو مرکب بنادینے میں غیر فعال ریاستی ڈھانچے اور دہائیوں سے اپنائی گئی غلط ترجیحات کا ہاتھ بھی ہے۔گزشتہ تیس برسوں میں پاکستان میں سرکاری نظامِ صحت میں گراوٹ آئی ہے اور صورتحال مزید گمبھیر اس لیے بھی ہو گئی کہ اس میدان کے بہترین کوالیفائیڈ اور پیشہ ورانہ دماغ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ان حالات سے فائدہ اٹھا کر نجی صحت کی انڈسٹری وجود میں آ گئی جہاں کافی حد تک مناسب سہولیات دستیاب تو ہیں لیکن یہ سہولیات آبادی کے صرف اُس محدود سے حلقے کو ہی دستیاب ہیں جو ان کے بھاری بلوں کی ادائیگی کے قابل ہے۔نظام صحت کایہ ٹوٹا پھوٹا ڈھانچہ‘ جس کے پاس وسائل بہت محدود تھے اور یہ حکومتی عدم توجہی کو شکار بھی تھا‘ اچانک کورونا جیسی عالمی وبا کے چنگل میں پھنس گیا۔ اس سے پاکستان میں ریاستی نظام صحت کی کمزوری عیاں ہو گئی بلکہ پالیسی سازی کے نظام میں موجود خلا بھی کھل کر سامنے آ گیا۔ اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم ‘ جس کے متعلق بڑے شادیانے بجائے جاتے تھے‘ کی موجودگی میں صحت کے حوالے سے کسی مربوط قومی حکمت عملی کی تشکیل اور اس کے پورے ملک میں یکساں نفاذ کی کوئی حقیقی راہ ہی موجود نہیں ہے۔ موجودہ آئینی و انتظامی ڈھانچے میں مرکزی حکومت کسی بھی حوالے سے صحت کے اس نظام میں مداخلت نہیں کر سکتی جوصوبے چلاتے ہیں‘ حتیٰ کہ صوبے بھی اپنے ہاں موجود صحت کی سہولیات پر کنٹرول نہیں رکھتے کہ ان میں سے بہت سے ادارے مقامی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں جا چکے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی ایک ایسا شخص‘ ادارہ یا باڈی موجود نہیں جسے ملک پاکستان میں بسنے والی عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی اوراس وبائی مرض کی روک تھام کے لیے مؤثر پالیسی تشکیل دینے میں ناکامی کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔تاہم اگر گورننس کے ہمارے پرت در پرت نظام میں موجود تمام سٹیک ہولڈرزکو کسی متفقہ پالیسی پر راضی بھی کر لیا جائے‘جیسا کہ معزز سپریم کورٹ کے حکم پر حال ہی میں کیا گیا‘ تب بھی ایسا کوئی مربوط نظام موجود نہیں جو اس پالیسی کو سارے پاکستان میں بیک وقت لاگو کر سکے۔ اس حوالے سے کسی بھی شے کو لاگو کرنے کے لیے مرکزی و صوبائی حکومتوں کی سطح پر کئی اداروں کے مابین مربوط کاوشوں کی ضرورت ہے اور یہ سب اپنے اپنے سیاسی حکمرانوں کے متفرق احکامات و مفادات کے تابع ہیں۔ان حالات میں جب متعدد ادارے اپنے تئیں جیسے تیسے اس پھیلتی ہوئی وبا کے اثرات پر قابو پانے کے لیے مصروف ہیں ایک چیز بالکل واضح ہو گئی ہے: مرکزی و صوبائی اسمبلیاں کسی بھی طرح سے موجودہ مسائل کے حل کے لیے کسی متفق علیہ حکمت عملی کی تشکیل میں بالکل غیر متعلق ہیں۔ 
یہ کوئی جانبدارانہ دعویٰ نہیں ہے‘ بد قسمتی سے سیاسی میدان میں موجود تمام فریقین کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ متعلقہ مرکزی و صوبائی حکومتیں اسمبلی کے فلور پر کورونا وائرس کے حوالے سے کوئی بھی واضح پالیسی بنانے میں ناکام ثابت ہوئیں ۔اپوزیشن کے پاس بھی کوئی مجوزہ پالیسی یا متبادل موجود نہیں۔اسمبلی کا اجلاس‘ جب بھی منعقد ہوا‘ اس میں حاضری کم رہی اوریہاں پالیسی کے حوالے سے کوئی معنی خیز مکالمہ یا نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ بد ترین امر یہ ہے کہ ابھی تک متعلقہ ایوانوں کے کسی ایک ممبر کی جانب سے بھی کوئی قانونی تجویز اس حوالے سے سامنے نہیں آئی کہ کس طرح مختصر اور طویل مدت میں نظامِ صحت میں بہتری لانا ممکن ہے۔
گورننس کا موجودہ جمہوری نظام جو ہماری آئینی پارلیمانی جمہوری بندوبست میں موجود ہے ‘ وہ پاکستان میں قابل عمل ہی نہیں۔ مثال کے طور پر قومی اسمبلی جو پارلیمانی سیاسی ڈرامے کا مرکز ہے وہی بد ترین صورتحال پیش کرتی ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں‘ جب سے پانامہ لیکس سامنے آئی ہیں‘ قومی اسمبلی کی کارروائی کا صرف ایک ہی مقصد و منشا نظر آیا ہے کہ چنیدہ اشراف کی دولت کا دفاع کس طرح کیا جائے۔ پہلے نواز شریف اور ان کے ''یہ ہیں وہ اثاثے‘‘ ۔اس کے بعد خواجہ آصف اور ان کی ''کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘والی دھواں دھار تقریر۔ اس کے بعد فواد چوہدری اور مراد سعید کے کرارے ردعمل۔ اس کے بعد پروڈکشن آرڈر ز کی سیاست کہ شہباز شریف ‘ آصف علی زرداری ‘ سعد رفیق اور دیگر کو موقع فراہم کیا جائے کہ وہ اپنے قانونی مسائل کا سیاسی جواب دے سکیں۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کا فلور بھی گزشتہ چند برسوں سے دھرنوں‘ واک آئوٹ کی نمائش گاہ بنا ہوا ہے اورگاہے بگاہے گالی گلوچ بھی ہو جاتی ہے۔ مسلم لیگ نواز کے دورِ حکومت میں پی ٹی آئی کے ممبران نے شاید ہی کسی قسم کی قانون سازی ممکن ہونے دی اور اس کی بجائے انہوں نے ایوان کی سیڑھیوں پر طویل دھرنوں کی ترجیح بنائے رکھا۔ اب جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے‘ پی ایم ایل این اور دیگر جماعتوں نے یہ وتیرہ بنا لیا ہے اور انہوں نے بڑے مؤثر انداز میں اسمبلی کی ہر قسم کی کارروائی کو روک رکھا ہے اور ان کامقصد صرف پروڈکشن آرڈراور اخباری نمائندگان سے گفتگو ہے ‘جس کی مدد سے وہ اپنے اپنے آقائوں کی دولت بچانے کے لیے سرگرداں ہیں۔
سندھ میں صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ سیاسی مخالفین کے مابین زبانی بدکلامی اور جسمانی حملوں کا نظارہ اسمبلی اجلاس کے دوران اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی‘ جن کا ایجنڈا اپنی حکومت کا قانونی عمل آگے بڑھانا ہونا چاہیے‘ اسمبلی میں اپنی تقاریر کو زرداری کی ذاتی دولت کے جواز اور اومنی گروپ کے کاروباری حربوں کی صحیح ثابت کرنے کے لیے استعمال کر تے دکھائی دیتے تھے ۔اس سب کچھ کے دوران تھر میں بچے بھوک سے دم توڑتے رہے‘ سارے دیہی سندھ میں لاقانونیت پروان چڑھتی رہی‘ ایڈز نے لاڑکانہ میں معصوموں کو اپنا شکار بنایا‘ ابھی بھی اکثر جگہوں پر کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں اور چند دن کی بارش کراچی شہر کی گلیوں کو بیماری پھیلانے والے کوڑے دان میں تبدیل کر دیتی ہے۔اہم ترین بات یہ ہے کہ اسی عرصے میںا سمبلی نے کئی بلین روپے کے اخراجات کی منظوری دی (اکثر اندازوں کے مطابق پندرہ بلین سے زائد) اور اس کے بدلے میں دکھانے کو زمین پر کچھ بھی موجود نہیں۔سچ بولا جانا چاہیے‘ یہ پارلیمانی طرزِ حکومت کا قصور نہیں ہے‘ کیونکہ گورننس کا یہ نظام بہت سے دیگر ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہ پاکستان میں بھی کامیابی سے چل رہا تھا۔ مسئلہ وہ لوگ اور وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت ہم آج اس نظام کو چلانے والے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں ۔
اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہمیں چند دہائیوں تک مزید انتظار کی سولی پر لٹکے رہنا چاہیے کہ کسی نہ کسی روز ہماری پارلیمان اپنی توجہ کا مرکز ذاتی مال و دولت کے دفاع سے ہٹا کر مجموعی فلاح و بہبود کی جانب مرکوز کر لے گی؟ یا اس کی بجائے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس طرح سے گورننس کے اپنے نظام کی تشکیل نو کر کے زیادہ فعال اور نتیجہ خیز آئینی فریم ورک اس میں داخل کریں؟ اگر ہمارے آئین اور قانون میں خاص طرح کی سٹرکچرل تبدیلیاں کی جاتیں تو کیا پاکستان میں جمہوریت بہتر طور پر چل رہی ہوتی؟ اگر ایسا ہونا ممکن ہے تو وہ کون سی تبدیلیاں ہیں اور ان کو کیسے روبہ عمل لایا جا سکتا ہے؟یہ سنجیدہ نوعیت کے سوالات ہیں جن پر قومی مباحثے کی ضرورت ہے۔ تما م شراکت داروں کی جانب سے بلند آہنگ دلائل کی ضرورت ہے۔سب سے زیادہ عوام کی جانب سے ‘کیونکہ وہی ہمارے آئین کے حقیقی محافظ ہیں۔ موجودہ آئینی بندوبست کے حوالے سے نمائشی اپروچ کی ضرورت نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک بہتر سماج کا خواب دیکھیں‘ ایک نئے آئینی دور میں تاکہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں