"FBC" (space) message & send to 7575

ہوا بازی کے ناقص معیار

پاکستانی عوام ابھی کورونا وائرس کے اثرات اور اس وبا پر قابو پانے کے لیے بنائی گئی اپاہج سی قومی پالیسی کے اثرات سے ہی نبرد آزما تھے کہ پوری قوم پی کے 8303 کے المناک حادثے سے لرز اُٹھی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ یہ طیارہ کراچی ائیرپورٹ پر لینڈنگ کے دوران تباہ ہو گیا تھا۔ اس المناک حادثے کا سبب بننے والے عوامل ابھی واضح طور پر سامنے نہیں آئے۔ کیا یہ حادثہ پائلٹ کی غلطی کا نتیجہ تھا؟ کیا اس جہاز میں تکنیکی خرابیاں تھیں؟ کیا کوئی بیرونی عنصر (جہاز سے پرندے وغیرہ کا ٹکرانا) اس کریش کا سبب بنا؟ یا یہ تباہی سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) اور پی آئی اے کی جانب سے جہازوں کی مرمت و دیکھ بھال وغیرہ کے لیے مقرر کردہ ناقص معیارات کا فطری نتیجہ تھی؟ ان تمام سوالوں کے جوابات کے لیے ہمیں اُس وقت تک انتظار کرنا پڑے گا جب تک بلیک باکس کا ڈیٹا ڈی کوڈ نہیں ہوتا‘ اس حوالے سے تحقیقاتی عمل مکمل نہیں ہو جاتا اور تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی‘ جس کا عوام سے وعدہ کیا گیا ہے؛ تاہم ایک چیز جو کسی حد تک یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے‘ یہ ہے کہ پاکستان میں ہوائی سفر اُتنا محفوظ نہیں ہے جتنا اسے ہونا چاہیے۔
پی کے 8303 کا کریش پاکستان میں ہونے والے فضائی حادثات کی طویل اور متواتر فہرست میں تازہ ترین اضافہ ہے اور یہ ہماری ہوا بازی کی صنعت کے بارے میں کچھ اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان میں ہوا بازی کی صنعت کو کنٹرول کرنے کا قانونی دائرہ کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ ائیر ٹریفک کنٹرول اور سیفٹی کے لیے کون سے حفاظتی پروٹوکولز ہیں؟ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کتنے ہوائی حادثات ہو چکے ہیں؟ کیا ایسے واقعات کے بعد، ان سے سبق سیکھ کر کسی قسم کے اقدامات کئے جاتے ہیں‘ اگر ہاں تو کون سے؟ اور کس طرح ہم اپنی ہوابازی کی صنعت کو مقامی و بین الاقوامی سفر کے لیے محفوظ تر بنا سکتے ہیں؟
سٹرکچرل حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں غیر فوجی ہوابازی انڈسٹری سی اے اے کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ بطور ریگولیٹر اس ادارے کا قیام پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی آرڈیننس 1982 کی شق تین کا مرہون منت ہے۔ اس آرڈیننس کے دیباچے میں لکھا ہے کہ سی اے اے پاکستان میں سول ایوی ایشن کے تمام پہلوئوں کو ریگولیٹ کرنے کا ذمہ دار ہے۔ ملک میں ''سول ایوی ایشن کی تمام سرگرمیوں کا فروغ اور انہیں ریگولیٹ کرنا اور محفوظ، فعال، موزوں، سستے اور عمدہ کوارڈی نیشن کے ساتھ ہوائی ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے انفراسٹرکچر تعمیر کرنا‘‘۔ مزید برآں پی سی سی اے او کی شق سات کہتی ہے کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی بورڈ قائم کیا جائے جو تمام عمومی ہدایات اور سی اے اے کی انتظامی ذمہ داریاں ادا کرے گا؛ نتیجہ یہ کہ یہ بورڈ ذمہ دار ہے کہ وہ ملک میں موجود تمام ایوی ایشن انڈسٹری کی جانب سے اہم اقدامات کرے۔
پس منظر کے طور پر یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ قومی فلیگ کیرئیر ائیرلائن قائم کرنے کی کاوشیں قیام پاکستان سے قبل ہی شروع ہو گئی تھیں۔ اس مقصد کے لیے تئیس اکتوبر 1946ء کو مرزا احمد اصفہانی اور آدم جی حاجی داد کی مالی مدد کے ساتھ اوریئنٹ ائیرویز کو کلکتہ میں رجسٹرڈ کرایا گیا تھا۔ مئی 1946ء میں اوریئنٹ ائیرویز کو لائسنس ملا اور فروری 1947ء میں ٹیکساس کی ایک کمپنی سے تین ڈی سی تھری جہاز خریدے گئے اور یوں جون 1947ء میں پہلا فلائٹ آپریشن ممکن ہوا۔ چودہ اگست 1947 کو اوریئنٹ ائیرویز واحد ائیرلائن تھی جو فعال طریقے سے نو تخلیق ملک پاکستان کی ریسکیو کی کاوشوں میں اس کا ہاتھ بٹانے میں مصروف تھی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی اس نے مشرقی و مغربی پاکستان کے مابین فلائٹ آپریشن کا آغاز کر دیا؛ تاہم نوزائیدہ ریاست میں عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں سرگرم حصہ لینے کے سبب جلد ہی اوریئنٹ ائیرلائن مالی مشکلات سے دوچار ہو گئی۔ حکومت پاکستان نے اوریئنٹ ائیرویز کا کنٹرول سنبھالنے کی پیشکش کی‘ یوں گیارہ مارچ 1955ء کو پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کے قیام کی راہ کھلی۔
1959ء کو حکومت پاکستان نے ائیر کموڈور نور خان کو پی آئی اے کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا۔ نور خان کی وژنری قیادت میں پی آئی اے کا کلچر اور آپریشن ''آسمان کو چھونے‘‘ لگا اور صرف چھ برس کی قلیل مدت میں اسے قومی ہوابازی کے اداروں کی صف اول میں شمار کیا جانے لگا۔ ایوی ایشن کے حلقوں میں اس دور کو عموماً ''پی آئی اے کے سنہری برس‘‘ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ائیر کموڈور نور خان ہر ائیرکرافٹ کی آپریشنل فٹنس کا خود جائزہ لیتے تھے اور صفائی کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات سے لے کر سٹاف کے یونیفارم اور چیک ان کائونٹرز تک پر نظر رکھا کرتے تھے۔
آنے والے برسوں میں پی آئی اے کا فلیٹ بڑا ہوتا گیا اور ایوی ایشن ٹیکنالوجی کے کچھ شاہکار جہاز بھی اس کا حصہ بنے؛ تاہم جیسے جیسے ہوابازی کی صنعت میں سیاسی مداخلت بڑھتی گئی ویسے ویسے ہماری قومی ائیرلائن کا معیار اور سروس گرتی گئی۔ پی آئی اے جسے کسی زمانے میں عمدگی کا استعارہ سمجھا جاتا تھا آج کارپوریٹ تباہی کی داستان بن چکی ہے اور اس کی ذمہ داری اُن گروہوں پر ہے جنہیں اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی حکومت کی کسی نہ کسی حوالے سے 'سرپرستی‘ حاصل رہی۔
نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہونے والے متعدد فضائی حادثات نے پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری کو طاعون کی مانند نگل لیا۔ گزشتہ ایک دہائی میں ہر برس اوسطاً پرندوں کے ٹکرا جانے کے چالیس واقعات رونما ہوئے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پرندوں کے ٹکرانے کے واقعات کی اتنی بڑی فریکوئنسی اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ لاپروائی سے کام لیتے ہوئے ائیروڈروم گنجان آبادی کے نزدیک ہیں یا انہیں وہاں تعمیر کیا گیا ہے۔ ایسے واقعات بھی موجود ہیں جن کے لیے مورد الزام غیر پیشہ ورانہ عملہ کو قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہوائی سفر کرنے والے مسافروں کی زندگیاں اپنی لاپروائی کی وجہ سے دائو پر لگا دیں۔
پی آئی اے کے اے ٹی آر ائیر کرافٹ دو ہزار گیارہ سے اٹھارہ کے درمیان اکثر خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں اور اس کی بڑی وجہ ان کے انجنوں کا فیل ہو جانا تھا۔ دوہزار چار میں پی آئی اے کو جمع کرائی جانے والی ایک انجینئر ایویلیوایشن رپورٹ کے مطابق اے ٹی آر کے انجنوں کی پاکستانی حالات میں کارکردگی پر سنجیدہ نوعیت کے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا؛ تاہم کوئی سنجیدہ ایکشن نہیں لیا گیا۔ مزید برآں ایک اور رپورٹ میں پی آئی اے کے جہازوں کی دیکھ بھال غیر قانونی طریقے سے کرنے کی نشاندہی کی گئی اور (ایک موقع) پر تو ائیرلائن کا تقریباً آدھا فلیٹ اڑنے کے قابل نہیں تھا۔
پی کے 8303 کا المناک حادثہ صرف ایک ہوائی حادثے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ تمام ثبوت اس حقیقت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ایسا المیہ ناگزیر تھا کیونکہ ہماری ہوائی صنعت نے طیاروں کی دیکھ بھال، ہوابازوں اور دیگر عملے کی تربیت کے متعلق مستقلاً لاپروائی کا رویہ اپنا رکھا ہے۔ پاکستان میں ہوابازی کی صنعت کے متعلق ایک لمبا چوڑا قانونی فریم ورک موجود ہے اور اس کے علاوہ یہاں ہوابازی کے عالمی سیفٹی معیارات پر بھی عمل کیا جاتا ہے (یقینا عالمی سطح پر پرواز کرنے کے لیے ان معیارات پر پورا اُترنا لازمی امر ہے۔) بظاہر ہمارے ہاں مسئلہ ایوی ایشن انڈسٹری کے ریگولیٹری یا قانونی فریم ورک میں نہیں، ہمارے سماج کے دیگر بہت سارے معاملات کی مانند، بلکہ فالٹ لائن ان قوانین و معیارات کے نفاذ میں پوشیدہ ہے۔
اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم مصنوعی قسم کی انکوائریوں اور کمیشنوں کا سہارا لے کر ایوی ایشن انڈسٹری میں موجود طاقتور لوگوں کو بچانے کی کاوشیں ترک کر دیں۔ پی آئی اے اور خصوصاً سی اے اے میں معاملات چلانے کی ذمہ داری جن اشخاص پر ہے انہیں بہر صورت موجود قوانین کی انتہائی حد تک پاسداری تک جانا پڑے گا۔ جب تک وہ وقت نہیں آ جاتا کہ ایوی ایشن انڈسٹری کے کرتا دھرتا معصوم مسافروں کی موت کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرائے جاتے تب تک مستبقل میں ایسے سانحات سے محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت ہمارے پاس موجود نہ ہوگی۔ اور بطور قوم یہ وہ کم سے کم خراج تحسین ہے جو ہم پی کے 8303 سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کو پیش کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں