"FBC" (space) message & send to 7575

کراچی سے بلند ہوتی آہیں

سندھ ہائیکورٹ میں کچھ مقدمات کی سماعت کے سلسلے میں گزشتہ ہفتے کے آغاز میں مجھے کراچی جانا پڑا۔ گزشتہ بدھ کی شام‘ جس روز میری لاہور واپسی طے تھی‘ آسمان کے در کھل گئے اور اس حرماں نصیب شہر میں مینہ ایسا برسا‘ جس کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی۔ اس شہر کے یکتا و بے مثل سیاسی قائد کی زبانی یہ بات تو ہمیں معلوم ہو ہی چکی ہے کہ ''جب زیادہ بارش آتا ہے تو پانی زیادہ آتا ہے...‘‘ باقی جو کچھ ہے وہ وہی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تاریخ ہے۔
گزشتہ چند روز سے کراچی کا بڑا حصہ بجلی سے محروم ہے (اس میں ڈیفنس کا علاقہ بھی شامل ہے جہاں میں رہ رہاہوں)۔ گزشتہ پانچ روز سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی (یا دستیابی) کا سلسلہ منقطع ہے۔ بارش کے پانی میں ڈوبے ہوئے علاقوں میں بنیادی اشیائے خور و نوش (دودھ، انڈے، بریڈ وغیرہ) بھی دستیاب نہیں ہیں۔ میلوں تک پمپوں پر پٹرول نہیں ہے اور جہاں ہے وہاں بجلی نہیں کہ پمپ چلیں۔ موبائل فون رابطہ پوری طرح ٹوٹ چکا ہے۔ لینڈ لائن فون بھی کام نہیں کر رہے اور سبب اس کا یہ ہے کہ زیر زمین بچھی تاریں بھی پانی میں ڈوب چکی ہیں۔ میں نے خود دیکھا کہ لوگ اپنے بچوں کو لیے گھروں سے باہر بیٹھے ہیں کہ شاید کسی کو ترس آ جائے اور ان کے کسی میڈیکل سٹور تک پہنچنے کا ہی کوئی ذریعہ بن جائے۔ بزرگوں کی جان بچانے والی اپنی ادویات ختم ہو چکی ہیں۔ گاڑیاں سڑکوں کے بیچوں بیچ لاوارث کھڑی ہیں اور مالکان پیدل ہی کسی نہ کسی طور اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ اور یہ بات تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ سرکاری حکام کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ گزشتہ چھ روز سے کراچی (اور سندھ کے دوسرے حصوں) میں حکومتی ڈھانچہ گرچکا ہے۔ گورننس کا بنیادی وظیفہ‘ لوگوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی‘ مکمل طور پر بارشی پانی کے نیچے دب چکا ہے۔ سندھ کے شہنشاہوں نے تو رعایا کے زخموں پر نمائشی مرہم رکھنے کی کوششوں کا آغاز کرنے کیلئے لباس تک بدلنے کا تکلف نہیں کیا۔
جو غیر معمولی چیزیں ہوئیں‘ پہلے ان پر نظر دوڑا لیتے ہیں: ہاں! اس بار جو بارشیں کراچی میں برسیں ان کی کوئی مثال پہلے دیکھنے میں نہیں آئی اور نوے برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا لیکن کروڑوں نفوس اور ارب ہا روپوں کا سالانہ بجٹ رکھنے والے شہر کے مکمل مفلوج ہو جانے کی یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ایسے سینکڑوں شہر اور قصبے ہیں جہاں ہر برس معمول سے کہیں زیادہ بارشیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایسی جگہیں جو حقیقی معنوں میں طوفانوں میں گھری رہتی ہیں اور ان کا مالی بجٹ کراچی کے مقابلے میں بہت حقیر ہے لیکن وہاں زندگی جاری و ساری رہتی ہے۔ لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات ملتی رہتی ہیں اور حکومتیں عوام کی زندگی محفوظ بنانے کیلئے بامعنی منصوبہ بندی کرنے میں جُتی رہتی ہیں‘لیکن یہاں ایسی باتیں خواب سی دکھائی دیتی ہیں‘ کیوں؟ اس لیے کہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا شہر ہے۔ جب تک بڑوں کے بنگلے اور کوٹھیاں محفوظ ہیں‘ کسے پروا ہے کہ وہ گلیوں میں بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کے بارے میں پریشان ہو؟ جب تک ان بڑے گھروں کے جنریٹر کام کر رہے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے اگر شہر کے بچے چار دن تک بجلی سے محروم رہیں؟
ان تباہی و بربادی کے وقتوں میں زیادہ عرصہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے مقامی حکومتوں کے رہنما صرف یہ کہہ کر اپنی جان چھڑاتے دکھائی دیے کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں۔ کراچی کے بارے ہونے والی بیان بازی کا سلسلہ وہیں سے جوڑ لیا گیا جہاں سے یہ منقطع ہوا تھا اور ان سیاسی حکمرانوں کو جو کام بہترین انداز میں آتا ہے‘ یہ وہی کرتے دکھائی دیے: ایک دوسرے پر الزام تراشی۔ اب ذرا ان کی بیانات دیکھیے: پی پی پی کے ایک رہنما نے کہا: سڑکوں سے پانی نکالنا ہماری ذمہ داری نہیں‘ یہ مقامی حکومت کا کام ہے۔ مقامی حکومت کے ایم کیو ایم کے رہنما نے جواب دیا کہ کچرا اٹھانا اور پانی کا نکاس ہماری ذمہ داری نہیں‘یہ کام صوبائی حکومت کا ہے۔ بجلی تو کسی کی ذمہ داری ہے ہی نہیں‘ اس معاملے میں تو وفاقی حکومت ذمہ دار ہے۔ میڈیکل سٹور صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں لیکن ان پر دوائیں پہنچانا مقامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دودھ اور ڈبل روٹی کی فراہمی مقامی حکومتوں کے ذمے ہے لیکن جن سڑکوں سے گزر کر بنیادی ضرورت زندگی کی یہ چیزیں شہریوں تک پہنچنا ہیں ان کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ موبائل فون کے ذریعے رابطے وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہیں لیکن ان موبائل فونوں کے سگنل ٹاور صوبائی حکومت کی مہیا کردہ زمین پر لگے ہیں۔الزام اور جوابی الزام کے اس شور و غوغا میں کراچی کے شہریوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنا منہ اب پانی برساتے آسمان کی جانب کر لیں اور دعا پر اکتفا کریں ۔
لیکن ان ناقابل علاج رہنمائوں کے خلاف اپنے ابلتے ہوئے غصے کو ایک جانب رکھیں اس سارے غیظ و غضب کے باوجود ایک بات ایسی ہے جس سے انکار کسی صورت ممکن ہی نہیں‘ اور وہ ہے عوام کو خدمات فراہمی کیلئے ریاست کے انتظامی ڈھانچے پر نظر ثانی کا کام۔ اس حوالے سے جب بھی سنجیدگی سے سوچا جائے گا لامحالہ ایک نتیجہ نکلے گا: اٹھارہویں آئینی ترمیم نے گورننس کا جو کثیردرجہ نظام ہمیں دیا ہے وہ ناکارہ ہے۔اس حقیقت کو کسی صورت چھپانا ممکن نہیں۔ آپ ''مربوط وفاق‘‘ جیسے جتنے مرضی شاعرانہ استعارے استعمال کر لیں‘ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم نے گورننس کا جو نظام فراہم کیا ہے‘ وہ کام نہیں کر پا رہا۔ کورونا وبا کے دوران بھی یہ نہیں چلا (جب تک ''قومی پالیسی‘‘ کی تشکیل کے لیے سپریم کورٹ نے مداخلت نہیں کی ہماری صورتحال دگرگوں ہی رہی)، اور اب اس تازہ مصیبت میں بھی یہ نظام کام کرتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔
یہ آئینی ترمیم اپنے تمام تر نیک مقاصد کے باوجود گورننس کا ایسا نظام مہیا کرتی ہے جس میں کراچی کے مسائل کا کوئی بھی ذمہ دار نہیں۔ ہر کسی کے پاس کوئی نہ کوئی جواز ایسا موجود ہے جس کے اوٹ میں وہ اپنی جان خلاصی کر لیتا ہے۔ اور جب بھی صورتحال بے قابو ہوتی ہے تو وہ ''ریاستی ادارے‘‘(جن کا کردار اٹھارہویں ترمیم کے بعد ختم ہو چکا)وہی کراچی کے نجات دہندہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ 2013ء میں بھی ہم نے دیکھا تھا کہ جب امن و امان کی صورتحال سندھ پولیس کے قابو سے بالکل باہر ہو گئی تھی‘ یا ابھی حال ہی میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ کراچی کا ''کچرا‘‘ اٹھانے اور ''نالوں‘‘ کی صفائی کرنے کیلئے این ڈی ایم اے اور ایف ڈبلیو او کی مدد لینا پڑی۔ تازہ ترین معاملہ یہ ہے کہ بارشوں سے ہوئی تباہی سے نمٹنے کے لیے بھی انہی اداروں کی جانب دیکھنا پڑ رہا ہے۔
مذکورہ بالا صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہم آنے والی کئی دہائیوں تک موہوم امید سے لو لگانی چاہیے یا ہمیں گورننس کے اپنے نظام میں بہتری لانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے ؟کیا اپنے آئین و قانون میں کچھ مخصوص تبدیلیاں کرنے سے ہمارا جمہوری ڈلیوری سسٹم زیادہ ''بہتر‘‘ طور پر چل سکتا ہے؟ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو ہم ان تبدیلیوں کی مزاحمت صرف اس لیے کریں کہ آصف زرداری اور نواز شریف 2010ء میں اس غیر فعال نظام کو لاگو کرنے کے لیے متفق ہو گئے تھے تو اب اس میں تبدیلی شجر ممنوعہ بن گئی ہے؟ یہ سنجیدہ نوعیت کے سوال ہیں جن پر قومی مباحثے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں تمام فریقوں کی جانب سے بلند آہنگ اور تگڑے دلائل آنے چاہئیں‘اور اس مباحثے میں سب سے زیادہ عوام الناس کی شمولیت ہونی چاہیے ۔ موجودہ آئینی فریم ورک کے بارے میں خاموشی اختیار کر لینے کا کوئی جواز نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ایک بہتر معاشرے ، ایک نئے آئینی بندوبست کی جانب پیش قدمی کریں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں