"FBC" (space) message & send to 7575

انڈو پیسیفک محاذ

چین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ کئی محاذوں پر ''لڑی‘‘ جا رہی ہے... سائوتھ چائنہ سی، مشرق وسطیٰ کے کچھ علاقے، مشرقی یورپ، سارا پیسیفک اور اس کے علاوہ کئی ''معاشی محاذ‘‘ بھی گرم ہیں (مثلاً دونوں ملکوں کے مابین جاری تجارتی جنگ)؛ تاہم اس سرد جنگ کا گرم ترین محاذ انڈیا اور چین کے مابین جاری کشیدگی ہے... جس کے نتیجے میں انڈیا ایک ہزار مربع کلومیٹر رقبہ اور کم از کم بیس فوجیوں کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ انڈیا نے لداخ میں چین کے سامنے کوئی واضح ردعمل نہیں دیا۔ چند درجن ایپس بند کرنا اور چینی کمپنیوں پر پابندی کو آپ زمین کھو دینے اور فوجیوں کی موت کا جامع جواب نہیں کہہ سکتے۔
انڈیا، چین کے جواب میں کون سے حقیقی آپشنز رکھتا ہے؟ اس کا جواب معلوم کرنا مشکل ہے۔ کیا روایتی جنگ کے ذریعے انڈیا زمین واپس حاصل کر سکتا ہے؟ نہیں۔ چین کی عسکری و تکنیکی مہارتیں انڈیا سے برتر ہیں۔ کیا زمین کی واپسی کیلئے انڈیا مذاکرات کی راہ چنے؟ ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ درجنوں ملاقاتوں کے بعد بھی کوئی معنی خیز نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ انڈیا فوجی مدد کے لیے اپنے ''اتحادیوں‘‘ کو پکارے؟ ایسا ہونا اگر ممکن ہوتا تو انڈیا اب تک یہ کام کر چکا ہوتا۔ کیا انڈیا پیسیفک کے محاذ پر سرگرم ہو کر چین کیلئے مشکلات پیدا کرنا چاہے گا؟ نہیں کیونکہ انڈیا کیلئے تو اپنی زمین و پانیوں کا تحفظ کرنا ہی مشکل ہے۔ پیسیفک کے پانیوں میں اترنا بظاہر کھوکھلی نعرے بازی ہے جو ''انڈوپیسیفک‘‘ جیسی ناکارہ حکمت عملی کے بطن سے پیدا ہوئی۔
پھر انڈیا کیا کرے گا؟ سب سے زیادہ قابل عمل حل تو یہ ہے کہ انڈیا آبنائے ملاکا کو بند کرکے چین کی تیل کی ترسیل و تجارتی شہ رگ کو پکڑ لے‘ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انڈیا میں اتنی جرأت ہے کہ وہ چین کے خلاف اتنی بڑی جارحیت کر سکے؟ اس بات کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔ اسی امکانِ موہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے چین نے پہلے ہی آبنائے ملاکا کے متبادل راستے تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں: تجارت اور تیل سپلائی کیلئے بحرہند کے متبادل راستے۔ چین کے پاس اب دو آپشنز موجود ہیں‘ 1: سی پیک کے ذریعے پاکستان بحرہند کو پار کرنے کا سب سے بہتر راستہ ہے۔ 2: تھائی نہر جو تھائی لینڈ کے کرا ستھمس علاقے سے گزرے گی۔ یہ جزیرہ نما مالے کی تنگ ترین آبی گزرگاہ ہوگی‘ جو چین کیلئے بحرہند تک پہنچنے کا دوسرا راستہ ہے۔ اس تھائی نہر کے ذریعے چین سائوتھ چائنہ سی کے اپنے نئے اڈوں سے بحری جہاز بحرہند تک پہنچا سکتا ہے۔ اسے ملائیشیا کے اوپر سے 700 میل کا چکر لگانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور وہ سیدھا آبنائے ملاکا سے گزر کر یہاں پہنچ جائے گا۔ چین نے تھائی لینڈ کو پیشکش کی ہے کہ نہر کی کھدائی کیلئے وہ تیس بلین امریکی ڈالر دے سکتا ہے۔ ایک بار جب یہ راستے چل پڑے تو چین کو گھیرنے اور اس خطے میں اس کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مکو ٹھپنے کیلئے تشکیل پانے والی انڈوپیسیفک حکمت عملی (جو پہلے ہی جاں بلب ہے) دم توڑ جائے گی۔ یہ متبادل راستے انڈیا کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے جو اس خطے میں خود کو چین کا ہم پلہ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے۔
''انڈوپیسیفک‘‘ کے خیال خام کی تہہ میں انڈیا کا یہ وعدہ تھاکہ وہ اس خطے میں چین کا مقابلہ کرے گا، یہ 2018کی بات ہے۔ خاص طور پر 30 مئی 2018 کو اُس وقت کے امریکی وزیر دفاع (جم میٹس) نے اعلان کیا تھاکہ پینٹاگان کی پیسیفک کمان کا نام بدل کر 'انڈوپیسیفک کمانڈ‘ کر دیا گیا ہے اور اب پیسیفک تھیٹر میں انڈیا کو زیادہ بڑا کردار دیا جا رہا ہے تاکہ چین کا مقابلہ اور اسے روکا جا سکے۔ یہ واشنگٹن کی طرف سے حکمت عملی میں نمایاں تبدیلی تھی۔ یہ علامت تھی کہ دہلی نے پینٹاگان کو قائل کرلیا ہے کہ وہ پیسیفک کے محاذ پر چین کا ہم پلہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے علاوہ وہ اس سارے خطے میں چین کے معاشی مفادات کو زک بھی پہنچا سکتا ہے‘ خاص طور پر سی پیک منصوبے کو۔
اس وقت تک پتا نہیں تھاکہ انڈیا اپنے اس وعدے پر پورا بھی اتر سکتا ہے یا نہیں۔ کیا اس خطے میں وہ چین کی ہم پلہ قوت ثابت ہوگا؟ کیا وہ چین اور اس کی بڑھتی ہوئی قوت کی راہ کھوٹی کرنے میں امریکہ کا مددگار بنے گا؟ یقینا انڈیا نے یہی دعوے کیے تھے کہ وہ ایسا کر دکھائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے خود کو جنوبی ایشیا سے الگ کرکے پیسیفک تھیٹر میں شمولیت اختیار کی تھی؛ تاہم گزشتہ چند ماہ میں انڈیا کا جھوٹ کھل چکا۔ چین نے انڈیا کے زیر قبضہ لداخ کے علاقے میں پیش قدمی کرکے پینگانگ ندی اور گلوان وادی کے تزویراتی اہمیت کے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور انڈیا کی جانب سے اس پر کوئی مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملی۔ انڈیا نے چوں تک نہیں کی۔ جب انڈیا نے ایک موقع پر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو اس کے بیس سپاہی اپنی جان سے گئے اور چین سے ایک انچ زمین بھی خالی نہ کرا سکا۔
دستیاب رپورٹوں کے مطابق (ان میں انڈیا سے آنے والی رپورٹیں بھی شامل ہیں) چینی لداخ میں باآسانی داخل ہوگئے اور انہیں حقیقی معنوں میں انڈین فوج کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اس کے بعد سے وہ زمین واپسی کیلئے کسی بھی قسم کی واضح بات چیت سے انکاری ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ چین سے شہ پاکر نیپال نے بھی انڈیا کی سرحدوں کے اندر موجود علاقے پر دعویٰ کر دیا اور مشرقی ناگالینڈ کے علاقے بھی دن بہ دن انڈیا کی گرفت سے پھسل رہے ہیں۔ صورتحال گمبھیر اس وقت ہوگئی جب یہ خبریں آئیں کہ چینی سارے بحرہند میں اپنے موجودگی (بشمول عسکری موجودگی) کو بڑھاوا دے رہا ہے اور اس پیش قدمی پر اسے انڈیا کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ انڈیا کے قریب بہت سے علاقوں (مثلاً سری لنکا) میں چینیوں نے طویل مدتی سرمایہ کاری کررکھی ہے اور وہ انڈین نیوی کی جانب سے پیدا شدہ کسی بھی رکاوٹ کا سدباب کرنے کی پیشگی تیاری کررہا ہے۔ان معاملات میں کواڈ کے اپنے اتحادیوں (امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان) کو ملوث کرنے کی تمام انڈین کاوشیں اب تک ناکام رہی ہیں۔ آسٹریلوی وزیراعظم سے ایک بے معنی سی فون کال کے علاوہ نریندر مودی چین کو روکنے کیلئے نہ کوئی پیش قدمی کرسکا اور نہ ہی وہ خطے میں بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ پر کچھ کرسکا ہے۔
ان حالات میں انڈوپیسیفک کے نظریے کا کیا بنے گا؟ واشنگٹن اور ساری دنیا میں موجود حکمت عملی تشکیل دینے والے سنجیدہ حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ انڈیا پیسیفک میں (چین کے خلاف) ہمیں کیا فائدہ دے سکتا ہے جب اس کیلئے خود اپنی سرزمین کا تحفظ کرنا ہی ممکن نہیں ہے؟ جب اس کی فوجیں لداخ میں چینیوں کا سامنا نہیں کرسکیں تو کیا یہ امید رکھی جائے کہ انڈیا سائوتھ چائنہ سی میں اپنے جنگی جہاز بھیجے گا یا بحرہند کے نیلے پانیوں میں وہ چین کا سامنا کرسکتا ہے؟ کیا وہ سی پیک منصوبے میں رکاوٹ یا اسے روک سکتا ہے جبکہ اس کیلئے چین کو سکم تک محدود رکھنا ہی ممکن نہیں دکھائی دیتا؟
انڈیا اس وقت، جب امریکہ کو سب سے زیادہ ضرورت ہے، چین کا سامنا نہیں کر سکتا تو پھر انڈوپیسیفک حکمت عملی کا کیا فائدہ؟ ان حالات میں انڈیا امریکہ کیلئے بوجھ بن چکا ہے۔ نہ صرف یہ چین کو روکنے میں ناکام ہے بلکہ وہ اس خیال کی تباہی کا باعث بن رہاہے کہ خطے میں مغرب کے طاقتور اتحادی موجود ہیں۔انڈیا کا جھوٹ پکڑا جا چکا ہے۔ ایک بھی گولی چلائے بغیر چین نے انڈیاکو پسپا کردیا ہے اور وہ جنوبی ایشیا کا ایک ترقی پذیر ملک ہے انڈوپیسیفک خطے کا کھلاڑی نہیں۔ انڈوپیسیفک خواب کا اس طرح بکھر جانا عالمی سطح پر انڈیا کے لیے ہزیمت ہے، افغانستان کے معاملات انڈیا کے ہاتھ سے کھسک چکے اور انڈیا وہیں پہنچ چکا ہے جہاں سے اس نے آغاز کیا تھا: پاکستان کا قومیت پرست ہمسایہ جسے اس خطے میں موجود نئی عالمی قوت نے گھسیٹ کر رکھ دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں