"FBC" (space) message & send to 7575

جمہوریت پرائیویٹ لمیٹڈ

جمہوری ماسک پہننے والی ہماری ''جمہوری‘‘ جماعتیں آہستہ آہستہ اپنا رنگ روپ کھو رہی ہیں اور حزب ِمخالف کی تمام جماعتوں کے اندر موروثی لیڈر شپ کی نئی نسل ابھر کر سامنے آتی دکھائی دیتی ہے۔ خاص طور پر مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے لیڈروں کی نئی نسل اپنے والدین کی جگہ لے رہی ہے اور راستے میں آنے والی ہر اختلافی رکاوٹ دور کی جارہی ہے۔نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب ہمیں پاکستان میں جمہوری سیاسی جماعتوں کے بیانیے کو دفنا کر زیادہ مناسب خیال''جمہوریت پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ کو اختیار کر لینا چاہیے۔کیا مذکورہ نتیجہ بہت سخت ہے؟ اس دعوے کی پرکھ لیتے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) اور حتیٰ کہ پی ٹی آئی بھی اپنے اپنے ''قائد‘‘کے سخت پنجوں میں ہی روبہ عمل رہی ہیں۔ کسی نے بھی کبھی حقیقی معنوں میں اپنے لیڈر کی قوتِ فیصلہ پر سوال نہیں اٹھایا۔ کسی نے قائد کی قیادت کو مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے جماعت کے اندر مخالفانہ نقطہ نظر اپنانے کی کوشش کی ہو یا اپنی لیڈر شپ کے بیانیے سے اختلاف کرنے کی جرأت کی ہو اور اسے اس کے انتہائی نتائج نہ بھگتنے پڑے ہوں۔بہت سی صورتوں میں تو ایسے لوگوں سے روابط تک منقطع کر دیے گئے۔ یہ وہ اسباق ہیں جو مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نثار علی خان اور پیپلز پارٹی کی ناہید خان جیسے لوگوں کو ازبر ہو چکے ہیں۔ یہی اسباق حالیہ دنوں میں غیاث الدین اور جلیل احمد شرقپوری جیسے لوگوں کو ان کے ساتھی ارکان نے یاد کرائے ہیں‘ ان دونوں نے ریاستی اداروں کے خلاف نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کی جرأت کی تھی۔
اس قسم کا انفرادی غلبہ نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ یہ متعلقہ قانون کی روح کے بھی منافی ہے۔ خاص طور پر الیکشن ایکٹ 2017کے‘ جس کے مطابق ہر سیاسی جماعت کیلئے ضروری ہے کہ وفاقی‘ صوبائی اور لوکل سطح پر اس کی ایک منتخب جنرل کونسل ہو اور اس کیلئے جماعت کے اندر ایک صحتمندانہ مقابلہ ہونا چاہیے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 208 کے مطابق کسی بھی جماعت کے عہدے دار کیلئے ضروری ہے کہ اس کا معیادی انتخاب ہو اور اس کیلئے پانچ برس میں کم از کم ایک انتخاب لازمی ہو‘ اور سب سے زیادہ اہم‘ قانون کے مطابق‘ ہر رکن جو کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو اسے جماعت کے کسی بھی عہدے کیلئے مقابلہ کرنے کا مساوی موقع دستیاب ہوگا۔اب ''مساوی موقع‘‘ کا خواب تو رکھئے ایک طرف آپ یہ سوچئے کہ جلیل احمد شرقپوری جیسوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ‘اگر وہ شریف خاندان کے خلاف پارٹی صدارت کیلئے کاغذ ہی جمع کرا دیں؟ یقینا وہ یہ انتخاب ہار جائیں گے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا جماعت میں ان کی رکنیت برقرار رہ پائے گی؟ کیا بادشاہ سلامت کے خلاف ایسی جرأت دکھانے کے بعد انہیں انتخابات کیلئے پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا؟ یہ سب چھوڑیں سوال یہ ہے کہ کیا ان کی جان و مال محفوظ رہ پائیں گے؟
پاکستان پیپلز پارٹی میں ایسی ہی جرأت کرنے والوں کو اس سے بھی بدترین سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خیرایک امید باقی تھی کہ بعد از نواز‘زرداری‘فضل الرحمان دور میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئے گی اور ایسی تسلط پسندانہ سیاست کی گرفت ڈھیلی پڑے گی۔ اس بات کی امید کی جاتی تھی کہ جب نواز شریف اور آصف علی زرداری اپنی عمر کے ہاتھوں سیاست میں سرگرم نہ رہیں گے تو ان کی سیاسی جماعتیں بھی میرٹ پر ہونے والے مقابلے کیلئے کھل جائیں گی‘نئے چہرے جو اپنی سیاسی جدوجہد کی بنیاد پر سامنے آئیں گے وہ سیاسی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں گے‘ مختلف طرح کی آرا سامنے آئیں گی‘ سیاسی اختلاف کیلئے جگہ پیدا ہوگی‘ کسی فردکی موروثی حیثیت سے آگے دیکھا جائے گا اور ایک زیادہ بہتر جمہوریت کی جانب پیشقدمی ہوگی۔
مگریہ سب کچھ خالی خواب ہی رہ گیا۔پچھلے کچھ ہفتوں میں خصوصاً حالیہ دنوں میں ہونے والی کثیر جماعتی کانفرنس اور اس کے بعد ہونے والے پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں یہ بات دکھائی دی کہ سیاسی جماعتوں کے اکثر'' قائدین‘‘ کی گدی پر اب ان کی اولادیں براجمان ہیں‘ مریم نواز‘ بلاول بھٹو زرداری مولانا اسد محمود۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس ایسے جغادری سیاسی رہنمائوں کی کمی نہیں جن کے پاس دہائیوں کا تجربہ اور ساکھ ہے‘ لیکن نواز شریف صاحب کی جانشین ان کی بیٹی مریم نواز ہیں۔ یہ رتبہ شہباز یا عباس شریف یا ان کے بچوں کو بھی نہیں ملا۔ نہ ہی ان رہنمائوں میں سے کسی پر نظرِکرم ہوئی جنہوں نے 80 ء کی دہائی کے وسط میں اس جماعت کی بنیاد رکھی تھی۔ یہی صورتحال پیپلز پارٹی میں ہے جہاں بھٹوکی جماعت اب صرف زرداری اور ان کے بچوں کی وراثتی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ‘ بلند قامت سیاسی شخصیات اعتزاز احسن اور رضا ربانی نے اس وراثتی دعوے پر یقین کر لیا۔ایسے میں مولانا فضل الرحمان کیوں پیچھے رہ جاتے‘ وہ بھی اپنے بیٹے اسد محمود کو اپنی سیاسی جماعت میں فرنٹ فٹ پر لے آئے۔ اے این پی نے خیبر پختونخوا میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کی نگرانی ایمل ولی خان کو سونپ رکھی ہے۔ حال ہی میں ایک لطیفہ نما بات سننے میں آئی اگر چہ بات سچی ہے کہ اے این پی کے ایک رہنما یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ان کے مستقبل کے ایک سیکرٹری جنرل نے ایمل ولی خان کے ہاں جنم لے لیا ہے اور جونہی یہ نومولود چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو پارٹی اس کی سرکردگی میں کام کرنے کیلئے تیار ہوگی۔
جب اس موروثی لیڈر شپ پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اراکین کو تنقید کانشانہ بنایا جائے تو فَٹ سے اس کا جواب آتا ہے کہ انہوں نے یوسف رضا گیلانی اور شاہد خاقان عباسی کو (بھٹو اور شریف خاندانوں سے باہر کے لوگ) وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا تھا۔ اس جواز سے بیوقوف مت بنئے۔ نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد شاہد خاقان عباسی پاکستان کے وزیر اعظم بنے‘اس لیے نہیں کہ وہ اپنی جماعت کا جمہوری انتخاب تھے (اگرچہ اس بات کو کھلے بندوں کوئی تسلیم نہیں کرتا) بلکہ وہ فرد واحد کا انتخاب تھے‘ نواز شریف کا‘اور یقینا اس انتخاب میں ان کی بیٹی مریم نواز کی رائے شامل تھی۔ شاہد خاقان کیلئے بھی یہی بہت تھا کہ وہ وزیر اعظم بن جائیں۔ یہی صورتحال یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی تھی‘ ان لوگوں کے انتخاب کا جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا‘ وہ اپنے انتخاب کیلئے صرف ایک شخص کے مرہونِ منت تھے‘ آصف علی زرداری کے۔
اس موروثی سیاسی لیڈر شپ کی راحت میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی نئی قیادتیں اپنے بیانیے میں بہت متحرک ہیں‘ کیونکہ ان کی قیادت کو کسی قسم کا چیلنج درپیش نہیں اور اگر کوئی شخص یا نظام اس سیاسی دعوے کو چیلنج کرتا ہے تو اسے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ جو کوئی بھی اس موروثیت پر سوال اٹھاتا ہے وہ'' جمہوریت دشمن‘‘ قرار پاتا ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے (اس کے ساتھ ساتھ مالی سلطنت کا تحفظ) جس نے مریم نواز‘ بلاول بھٹو زرداری اور مولانا اسد محمود کو مزاحمتی بیانیے‘ عدالتوں اور ریاستی اداروں کے خلاف یک آواز کر دیا۔
سچ تو یہ ہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے مابین ہم پاکستان میں آئینی جمہوریت کے دور میں نہیں رہ رہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کا دورجمہوریت پرائیویٹ لمیٹڈ کا دور ہے۔ اس سیاسی ماڈل میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔ آزاد روی کیلئے جگہ نہیں۔ سیاست صرف ''شاہی خاندان‘‘ کی خدمت کا نام ہے ۔ جو کوئی اس سے اختلاف کریگا اس سے چھٹکارا پالیا جائے گا‘ اسے انتقام کا نشانہ بنایا جائیگا۔ گورننس کے اس ڈھانچے میں ہم ریاست کے شہری نہیں‘ بادشاہ سلامت کی رعایا ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں