پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے ففتھ جنریشن وارفیئر کا تصور زیرِ بحث ہے۔ جو چند لوگ یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ غیر عسکری بیانیے کے آلات پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں‘ جن کا مقصد داخلی استحکام کو نقصان پہنچانا ہے‘ انہیں آزادانہ اظہارِ خیال کے مخالفین قرار دے کر ان کا تمسخر اڑایا جاتا رہا ہے اور انہیں جنگوں کے سوداگر کہا جاتا رہا۔ پاکستان میں جو ظاہری لبرل باقی رہ گئے ہیں وہ طویل عرصے سے پاکستان میں ففتھ جنریشن بیانیہ جنگ (وارفیئر) کے موجود ہونے کی تردید کر رہے ہیں اور مُصر ہیں کہ ریاست پر ان کی تنقید جائز اور کسی ایجنڈے سے مبرا ہے۔
دراصل مقامی افراد کی جانب سے ریاست پر جو تنقید کی جاتی اس کا ایک بڑا حصہ مناسب کہا جا سکتا ہے اور یہ ریاست کو کمزور کرنے کی کسی بڑی بین الاقوامی سکیم کا حصہ نہیں ہے؛ تاہم، اس کے ساتھ ساتھ‘ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ریاست کے یہ مقامی نقاد، دانستہ یا نا دانستہ‘ ہمارے قومی نقطہ نظر کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے پاکستان کے دشمنوں کے مقاصد کو تقویت دے رہے ہوتے ہیں۔اس تناظر میں گزشتہ ہفتے یورپی یونین کی ڈس انفو لیب نے پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن بیانیہ وارفیئر کو بے نقاب کیا۔ یاد رہے کہ ای یو ڈس انفو لیب ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جس کا مقصد یورپی یونین کے رکن ممالک، یونین کے بنیادی اداروں اور اہم روایات کو نشانہ بنانے والی پیچیدہ ڈس انفارمیشن مہموں سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ''انڈین کرونیکلز‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آنے والی اس تحقیقات کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ بھارت کی ڈیپ سٹیٹ پندرہ برسوں سے یہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے‘ جس میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ 10 سے زائد انسانی حقوق کونسل کی غیر سرکاری تنظیمیں ملوث ہیں، جن کو انڈین مفادات کیلئے دوبارہ فعال بنایا گیا۔ اس مہم میں ماہرین کی آرا شامل کی جاتی رہیں جبکہ ایک پروفیسر لوئس بی سوہن کی خدمات بھی حاصل کی گئیں حالانکہ وہ پندرہ سال پہلے مر چکا ہے۔
اس آپریشن میں بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کے ساتھ ساتھ بھارتی حکومت کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہیں‘ اور اس میں 119 ممالک میں 750 سے زیادہ جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس کا استعمال بھی ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ 500 سے زیادہ جعلی ڈومین بھی کام کرتے رہے جو صرف ایک مقصد کے لئے رجسٹرد کرائے گئے تھے: پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ اور پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانے والی خبریں گھڑنا اور ان کی نشرواشاعت یقینی بنانا۔جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، اس مہم کی قیادت سری واستو گروپ نے کی تھی، اور اسے بھارت کی ایک اہم مرکزی میڈیا ایجنسی ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) نے بڑھاوا دیا تھا۔ یورپی یونین کے ڈس انفو لیب ٹیم کے اپنے الفاظ میں ''ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس سطح کی جعلی سازی ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ آپریشن اتنے عرصے تک چلتا رہا‘ کوئی کیسے تصور کر سکتا ہے کہ ایسا ممکن بھی ہے؟‘‘۔ اس مہم کے بنیادی مقاصد یہ ہیں (1) بھارت نواز اور پاکستان مخالف (اور چین مخالف) جذبات کو ہوا دینا (2) دوسرے ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور بالآخر یورپی یونین اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی مزید حمایت سے فائدہ اٹھانے کیلئے بھارت کو مستحکم کرنا اور اس کی ساکھ بہتر بنانا۔
اس مقصد کیلئے، بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے فنڈز سے چلائے جانے والے آپریشن میں ''یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کو بھارتی مفادات کے حق میں اور پاکستان (اور چین) کے خلاف‘‘ یورپی اداروں کی ادارہ جاتی حمایت کا ایک سراب پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ نیز اس بھارتی آپریشن کے ارکان نے ''اقوام متحدہ سے منظور شدہ غیر فعال غیر سرکاری تنظیموں‘‘ کی نقل تیار کی ''اور برسلز، جنیوا اور پوری دنیا میں جعلی میڈیا کی تخلیق‘‘ کے ذریعے، ''اے این آئی اور غیر واضح مقامی میڈیا نیٹ ورک کے توسط سے‘‘ انہیں پیکیج فراہم کئے گئے‘ اور 97 ممالک میں ''ان ممالک کے خلاف آن لائن منفی مواد پھیلایا گیا جن کے بھارت کے ساتھ تنازعات ہیں‘ خصوصی طور پر پاکستان کے خلاف‘‘۔
'انڈین کرونیکلز‘ کی تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ متعدد مواقع پر، پاکستان کو نقصان پہنچانے والی (جعلی) خبروں، جو ایک بار مرکزی دھارے میں شامل نئی ایجنسیوں جیسے اے این آئی کے ذریعے شائع ہوتی تھیں، کو پاکستان میں بھی سوشل میڈیا ہینڈلز نے پھیلایا۔ یوں یہ افراد بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اپنا پاکستان مخالف پیغام پھیلانے میں سہولت فراہم کرتے رہے۔
یورپی یونین کے ادارے نے 'انڈین کرونیکلز‘ کے ذریعے جو انکشافات کئے‘ انہوں نے ان سوالات کا جواب فراہم کر دیا ہے جو اس خطے میں ففتھ جنریشن بیانیہ وارفیئر کی موجودگی کے بارے میں اٹھائے جاتے تھے۔ ان انکشافات نے ہمیشہ کیلئے یہ قول بھی سچ ثابت کر دکھایا ہے کہ غیر ملکی ایجنڈے ہمارے ملک کے اندر تقسیم کو بڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے یہ بحث بھی ختم ہو گئی ہے کہ آیا دشمن ایجنسیاں پاکستان کے عوام اور مفادات کے خلاف جنگ میں غیر روایتی اور ''نرم‘‘ آلات، جو انہیں دستیاب ہیں‘ استعمال کر رہی ہیں یا نہیں۔ اور یہ بھی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ اکثر انسانی حقوق اور دیگر مغربی لبرل نظریات کے جھانسے میں، شاید نادانستہ طور پر، آ جاتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو ایجنڈوں اور بیانیوں (یعنی ففتھ جنریشن وارفیئر) کی نظریاتی جنگ کے میدانوں میں منقسم ہے۔ ہم معلوماتی دور میں رہتے ہیں، جہاں زمینی سرحدیں (ٹینکوں اور سپاہیوں کے ذریعے جنہیں محفوظ بنایا جاتا ہے) بعض اوقات نظریات، معیشت اور بیانیے جیسی غیر مادی سرحدوں سے کم نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں جنگ اور سیاست کے مابین، جنگجوؤں اور عام شہریوں کے درمیان لکیریں دھندلی پڑ جاتی ہیں۔ ایسی جگہ جہاں بم اور گولیاں اب جنگ کی کرنسی نہیں رہی ہیں۔ اس کے بجائے جدید ہتھیاروں نے تجارتی پابندیوں، بین الاقوامی تنہائی، معاشی ہٹ مین اور میڈیا کے بیانیے کو ایک نیا روپ دے دیا ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایک بھی گولی چلائے بغیر سرد جنگ جیت لی۔ یہ سچ ہے‘ لیکن کیا گولیاں ہی وہ واحد ہتھیار تھے جو امریکہ نے سرد جنگ میں استعمال کئے؟ کیا سوویت یونین واقعی اپنے ہی وزن سے گر گئی تھی؟ امریکی کی طرف جھکائو رکھنے والی فورسز کی مدد یا کوشش کے بغیر ہی؟ بالکل نہیں۔ امریکہ نے سوویت یونین کو نیچے لانے کے لئے‘ معاشی پابندیوں سے لے کر یوکرین میں 'انقلابیوں‘ کو بھڑکانے تک‘ اپنے اقتدار میں سب کچھ کیا۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: کیا اب مختلف ممالک سوویت یونین کے خاتمے کا باعث بننے والی ''نرم جنگ‘‘ کی روش پہ مصروف نہیں ہیں؟ کیا ''ففتھ جنریشن وارفیئر‘‘ کے بارے میں ساری باتیں محض عسکری نوعیت کے نعرے ہیں جو اس لئے بلند کئے جاتے ہیں کہ ہمیں سول حکومتوں کے حوالے سے شکوک و شبہات کا نشانہ بنایا جا سکے؟ یا، کیا یہ ممکن ہے کہ پوری دنیا میں (کچھ) لوگ درحقیقت جنگ کی اس نئی شکل میں مصروف ہیں؟
مسلم لیگ (ن) کی بیانیہ مشین اور اس کے ہمدردوں کو مثال کے طور پر لے سکتے ہیں: کیا اس سے پاکستان کے آئینی اداروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا- یہ سب بادشاہ، ولی عہد اور ان کی ذاتی دولت کو بچانے کے نام پر نہیں کیا گیا؟ یقیناً ایسا ہی ہے۔ کیا یہ لوگ پاکستان کے خلاف اس ففتھ جنریشن وار کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ شاید نہیں۔ لیکن کیا ان کی ذاتی خواہش اور دولت کے حوالے سے اپنے عزائم کی اندھی تکمیل نے انہیں ان قوتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بننے کے حوالے سے مشتبہ نہیں بنا دیا ہے جو یہ جنگ لڑ رہی ہیں؟ بالکل ایسا ہی ہے۔
ہمیں حقیقت کو‘ جو کچھ بھی یہ ہے‘ قبول کرنا چاہئے۔ ففتھ جنریشن وارفیئر‘ خصوصی طور پر بیانیہ تخلیق کے حوالے سے، پاکستان کے لئے نیا اور چکمہ دینے والا چیلنج ہے۔ صرف اور صرف حکومت کی کوششوں سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے زندگی کے ہر شعبے میں ہر پاکستانی کی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کے ساتھ نمٹنا ہو گا۔تو (اس) اچھی لڑائی کا آغاز ہونے دیں۔