"FBC" (space) message & send to 7575

سینیٹ کے انتخابات بذریعہ ’اوپن بیلٹ‘؟

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت کے متعدد اراکین کے ساتھ سینیٹ کے آئندہ انتخابات کو 'اوپن بیلٹ‘ کے ذریعے کرانے کے حق میں اظہار خیال کیا ہے۔ واضح طور پر اس کا مقصد ہماری دو ایوانی مقننہ کے ایوان بالا میں الیکٹورل ہارس ٹریڈنگ کے نفرت انگیز عمل کو ختم کرنا ہے؛ تاہم 'اوپن بیلٹ‘ کے ذریعے سینیٹ کے انتخابات کرانے کی حمایت میں قانونی دلیل بڑی سادہ ہے۔ آئیے بنیادی معاملات سے شروع کریں: آئینِ پاکستان، اپنے آرٹیکل 59 کے ذریعے سینیٹ تشکیل دیتا ہے، جس کے ارکان کی تعداد 104 ہے۔ آئین کے آرٹیکل 59 (2) کے مطابق، سینیٹ کیلئے انتخابات ''ایک ہی ٹرانسفرایبل ووٹ کے ذریعے متناسب نمائندگی کے نظام‘‘ کے ذریعے ہوتے ہیں‘ اور سینیٹ کے اراکین اپنے انتخاب کی تاریخ سے ''چھ سال‘‘ کیلئے اس عہدے پر رہتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ سینیٹ میں انتخابات آئین کے آرٹیکل 218 کے ذریعے تشکیل دیئے گئے آئینی ادارے یعنی الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ذریعے کرائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر، آئین کے آرٹیکل 218 (1) میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سینیٹ سمیت ''مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں‘‘ کے انتخابات کرانے کا اختیار ہے۔ اس مقصد کیلئے، آئین کے آرٹیکل 218 (3) میں واضح کیا گیا ہے کہ ''الیکشن کے انتظامات کرنا‘ الیکشن کرانا اور یہ یقینی بنانا کہ انتخابات ایماندارانہ، منصفانہ اور شفاف ہوں‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ اور آئین کے آرٹیکل 222 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ''سینیٹ میں انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار ہے‘‘۔
ہر سینیٹر کی مدت چھ سال مقرر کرنے (آرٹیکل 59) کے بعد، آئین اپنے آرٹیکل 224(3) کے ذریعے یہ حکم دیاتا ہے کہ ''سینیٹ کی نشستوں کو پُر کرنے کے لئے انتخابات‘‘ جو مدت پوری ہونے پر خالی ہوں گی‘ ٹرم کی مدت ختم ہونے کی تاریخ سے ''تیس دن سے پہلے نہیں ہوں گے‘‘۔ تاہم ، آئین کے آرٹیکل 224 (5) کے مطابق، اگر سینیٹ میں کوئی نشست میعاد ختم ہونے سے پہلے ''خالی‘‘ ہو جائے تو اس صورت میں ''اس نشست کو پُر کرنے کے لئے انتخاب خالی ہونے کے تیس دن کے اندر ہو گا‘‘۔
آئین میں سینیٹ کے انتخاب کیلئے کوئی تفصیلی طریقہ کار نہیں بتایا گیا ہے؛ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ''تمام انتخابات‘‘، جو ''آئین کے تحت‘‘ ہوتے ہیں- سوائے وزیر اعظم/ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے"shall be by secret ballot."۔ اس ضمن میں لفظ ''Shall‘‘کا استعمال ہمارے علمِ قانون کے اصولوں کے تحت لازمی حکم پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود، لگتا ہے کہ آئین کے مطابق حکومت کی ''اوپن بیلٹ‘‘ انتخابات کی تجویز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب تک انتخابات ''آئین کے تحت‘‘ ہو رہے ہیں، ''کھلی رائے شماری‘‘کیلئے کسی بھی گنجائش کے بغیر ہر طرح کی بیلٹنگ قانونی طور پر ''خفیہ‘‘ ہونی چاہئے۔ تاہم، مبینہ طور پر، اٹارنی جنرل کی سربراہی میں حکومتی وکلا یہ رائے پیش کر رہے ہیں کہ آرٹیکل 226 میں ''آئین کے تحت‘‘ کے الفاظ استعمال کرنا صرف ایسے انتخابات تک ہی 'خفیہ رائے شماری‘ پر پابندی ہے جو واضح طور پر آئین کی دفعات کے تحت کیے گئے ہیں (یعنی صدر، سپیکر، چیئرمین سینیٹ وغیرہ کا انتخاب)۔ اور یہ کہ چونکہ آئین سینیٹ میں انتخاب کیلئے تفصیلی طریقہ کار کی وضاحت نہیں کرتا ہے، اور سینیٹ کا الیکشن اس کے بجائے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت طے شدہ طریقہ کار کے ذریعہ کرائے جاتے ہیں، لہٰذا وہ آرٹیکل 226 کے آئینی دائرے سے باہر آتے ہیں، اور اس طرح 'کھلی رائے دہندگی‘ کے ذریعے کرائے جا سکتے ہیں۔ جب تک الیکشن ایکٹ 2017 اسکی اجازت دے۔ 
اس مقصد کے لئے، سینیٹ کے انتخاب کے لئے موجودہ طریقہ کار انتخابات ایکٹ 2017 کے باب VII میں دیا گیا ہے۔ خاص طور پر، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 122(6) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ''سینیٹ کے اراکین کے انتخاب کے لئے خفیہ رائے شماری ہو گی‘‘ تاہم، حکومت اس پرویژن میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کر سکتی ہے، تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ سینیٹ میں انتخابات ''کھلی رائے شماری‘‘(اوپن بیلٹ) کے ذریعے کرائے جائیں گے تاہم، اس کے لئے پہلے یہ واضح کرنا ہو گا کہ سینیٹ کے انتخابات ''آئین کے تحت‘‘ آرٹیکل 226 کے مطابق منعقد ہونے کے دائرے میں آتے ہیں یا نہیں۔
وفاقی حکومت کی دلیل کی حمایت میں، اٹارنی جنرل معزز اعلیٰ عدالتوں کی چند مثالوں پر انحصار کر رہے ہیں، یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے کہ بلدیاتی انتخابات ''آئین کے تحت‘‘ ہوتے ہیں، چنانچہ انہیں خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونا چاہئے۔ سندھ ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل میں، معزز سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے،2016 کے سی ایز نمبر 760-765 میں، جس کا عنوان صوبہ سندھ بنام ایم کیو ایم وغیرہ رکھا ہے، قرار دیا کہ بلدیاتی انتخابات سیکرٹ یا اوپن بیلٹ‘ کسی بھی طریقے سے ہو سکتے ہیں، جب تک کہ لاگو قانون اپنی قانون سازی کی ترجیح بیان کر دے۔ یہ فیصلہ ایک مختصر حکم کے ذریعے دیا گیا‘ بغیر کسی تفصیلی استدلال کے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ حکم مقامی حکومتوں کے انتخابات سے متعلق مقدمات میں لازمی نظیر کے طور پر پیش کیا گیا ہو، جس کا نتیجہ آئین کے آرٹیکل 226 کے دائرے سے باہر رکھا گیا۔
کیا یہ عقلیت سینیٹ کے انتخابات پر لاگو ہو گی؟ کوئی بھی یقینی طور پر نہیں جانتا‘ لیکن اٹارنی جنرل صاحب کی دلیل عدالتی غور کے قابل ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ سینیٹ کے انتخابی طریقہ کار کو ''آئین کے تحت‘‘ متعین نہیں کیا گیا ہے، اور اس کا تذکرہ صرف الیکشن ایکٹ2017 میں ملتا ہے۔ان حالات میں، وفاقی حکومت نے اپنے ''مشاورتی دائرہ اختیار‘‘ (آرٹیکل 186) کے تحت، سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ کی آئینی رائے حاصل کی جا سکے۔ اس مقصد کیلئے، یہ نوٹ کرنا مناسب ہے کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق، ''اگر کسی بھی وقت، صدر یہ سمجھتے ہیں کہ ''قانون کے ایک سوال‘‘ پر عدالت عظمیٰ کی رائے حاصل کرنا ضروری ہے جو ''صدر مملکت سمجھتے ہیں کہ ''عوامی اہمیت‘‘ والا معاملہ ہے تو وہ یہ معاملہ ''غور کیلئے سپریم کورٹ میں بھیج سکتے ہیں ''اور معزز عدالت اس معاملے پر عدالتی غور کے بعد، اس سوال پر اپنی رائے صدر کو پیش کرے گی‘‘۔
اسی کے تحت وفاقی حکومت صدر مملکت کے توسط سے، اس بارے میں عدالت عظمیٰ کی ''رائے‘‘ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ آیا الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہونے والے سینیٹ انتخابات، آئین کے آرٹیکل 226 کے دائرے میں آتے ہیں، اور اس وجہ سے اس کے ووٹنگ میکنزم میں ''سیکرٹ بیلٹ‘‘ کی ضرورت ہے یا اس کے بجائے، کیا سینیٹ کے انتخابات ''آئین کے تحت انتخابات‘‘ نہیں ہوں گے، اور اس طرح الیکشن ایکٹ، 2017 کے سیکشن 122 میں ضروری ترمیم کے اعلان کے بعد ''اوپن بیلٹ‘‘ کے ذریعے کرائے جا سکتے ہیں۔
اگرچہ آرٹیکل 226 کی زبان کے مطابق، اس کی پہلی دلیل حکومت کے نقطہ نظر کے خلاف ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت کے پاس ایک قابل بحث مقدمہ ہے، جس پر عدالت ہی کوئی حتمی فیصلہ دے سکتی ہے۔ ان حالات میں امید کی جا رہی ہے کہ معزز عدالت عظمیٰ کا ایک لارجر بینچ اس معاملے پر غور کرے گا۔ اور اس عمل میں، یہ امید کی جا رہی ہے کہ 'ہارس ٹریڈنگ‘ کا یہ مسئلہ، جس نے ہمارے سیاسی تانے بانے کو بہت لمبے عرصے سے متاثر کر رکھا ہے‘ اس کے قانونی اور آئینی انتقال کو پورا کرے گا ، کم از کم سینیٹ انتخابات کی حد تک۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں