"FBC" (space) message & send to 7575

گلوبل ری سیٹ اور نیو ورلڈ آرڈر

صرف ایک سال پہلے، جنوری 2020 کے ابتدائی دنوں میں، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ دنیا محض 12 ماہ میں بڑی اور وسیع تبدیلیوں سے گزرے گی۔ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ کووڈ19 اس وسیع پیمانے پر پھیل جائے گا اور اتنے گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ یہ کہ اس وائرس کے باعث ساری صنعتیں راتوں رات بند ہو جائیں گی اور تیل پر انحصار کرنے والی معیشتوں کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ کہ مغرب چین (اور مشرق) کے غیر متوقع عروج کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائے گا اور 'چین کو قابو کرنے کیلئے‘ وضع کیا گیا انڈوپیسیفک منصوبہ ہوا میں تحلیل ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں بھارت خوف کو حالات میں جکڑا ہوا پائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم دنیا کی تاریخ میں تیز رفتار تبدیلی کی دور سے گزر رہے ہیں‘ جیسے بیسویں صدی کے نصف اول میں دو عالمی جنگوں کا دور یا 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کا زمانہ‘ جب عالمی طاقت کی حرکیات بڑی طاقتوں کے عروج و زوال پر منتج ہوئی تھیں۔ تاریخ اس تجرباتی حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ عالمی طاقت کے ڈھانچے میں ردوبدل لازمی طور پر حکمرانی کے نظام کو متاثر کرتا ہے۔ آئیے اس دعوے کی تحقیقات کریں۔
جدید تاریخ، اس کے اتحاد اور اس کے فلیش پوائنٹس صرف گزشتہ سو سال کے عرصے پر محیط ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز پر دنیا ایک ناقابل شناخت جگہ تھی۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ بنیادی طور پر آسٹروہنگیرین سلطنت، برطانوی ایمپائر، خلافت عثمانیہ اور اقتدار کے فرانسیسی مراکز میں منقسم تھے۔ روس، چین اور جاپان کی اپنی سلطنتیں تھیں۔ ہندوستان‘ جس پر صدیوں سے مغل سلطنت کا راج رہا، تب انگریزوں کے تسلط میں تھا‘ اور حکمران طاقتوں کا ایمپائر سٹرکچر ہی یہ طے کرتا تھاکہ مقامی طور پر حکومتوں کو کس انداز میں چلایا جانا چاہئے۔ راج، خلافت اور کنگ شپ، قبول شدہ معیارات تھے۔ تب عوام جمہوریت کا راگ نہیں الاپتے تھے۔ اس وقت استثنا صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ کو حاصل تھا‘ جس کا اثرورسوخ اس کی اپنی سمندری حدود سے باہر نہیں نکلا تھا۔ لیکن پہلی جنگ عظیم نے پرانے عالمی نظم کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ تمام بڑی سلطنتیں منہدم ہو گئیں یا اپنی ماضی کی عظمت کے ایک حصے تک محدود ہو گئیں۔ سلطنت عثمانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ آسٹروہنگیرین سلطنت ٹکڑوں میں بٹ گئی اور جرمنی‘ آسٹریا، جمہوریہ ہنگری‘ جمہوریہ چیکوسلواکیہ‘ کروشیا، سربیا اور رومانیہ جیسے ممالک وجود میں آئے۔ امریکہ تب نیا نیا بین الاقوامی منظر پر ابھرا تھا، اور ایسی طاقت نہیں تھا‘ جیسا ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ اس کا طرزِ حکمرانی بھی دنیا کے بیشتر حصوں میں ریاستی ڈھانچے کی ترجیحی شکل کے طور پر قبول نہیں کیا گیا تھا۔
اس کے بعد دوسری جنگ عظیم ہوئی جس کا خاتمہ اتحادی افواج کی فیصلہ کن فتح پر ہوا۔ اس فتح نے ''سلطنت‘‘ کے پُرانے ڈھانچے کو ختم کر دیا‘ یوں امریکہ جیسی جمہوریت کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ جاپان نے مغربی طرزِ حکومت اپنا لیا‘ حتیٰ کہ برطانوی سلطنت، جو دوسری جنگ عظیم کے فاتحین میں شامل تھی، زیادہ دیر تک اپنی سلطنت کی حیثیت برقرار نہ رکھ سکی، اور اس نے بھی جمہوریت کا انتخاب کر لیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب سلطنتوں کا خاتمہ ہو گیا اور حکمران طاقتوں نے دنیا کا ایک نیا نقشہ تیار کیا تو اس میں سے اسرائیل بھی برآمد ہوا۔ مشرق وسطیٰ عملی طور پر ملکہ کی خواہش کے مطابق تقسیم ہو گیا۔ برصغیر کو بہت سی جگہوں پر مقامی لوگوں کی مرضی کے خلاف وائسرائے کی کھینچی گئی سرحد کے تحت تقسیم کیا گیا۔ افریقہ کے کچھ حصوں کو چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اور اقوام متحدہ (اور دوسرے مغربی اتحاد) اتحادی طاقت کے ڈھانچے کو ادارہ جاتی شکل دینے کے لئے قائم کئے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ مغربی عالمی طاقتوں، جنہوں نے اپنی خواہش کے مطابق زیادہ تر عالمی نقشے کو موڑ لیا، نے نئی سرحدوں کی پاسداری کی ضمانت بھی دی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کم و بیش چار دہائیوں تک، مغربی تسلط کو واحد چیلنج سوویت یونین کی طرف سے تھا۔ سوویت یونین کے زیر کنٹرول علاقوں میں 'امریکی جمہوری انٹرپرائز‘ کی مزاحمت کی گئی۔ مشرقی یورپ سے کیوبا تک پھیلے ان علاقوں میں سوویت یونین کے 'اشتراکی ریاست کے ڈھانچے‘ سے حکمرانی میں مدد لی گئی۔ 1991 میں سوویت یونین کا خاتمہ ایک یک قطبی دنیا کے آغاز کا باعث بنا۔ رومن ایمپائر کے بعد یہ پہلا موقع تھاکہ دنیا پر ایک ہی ملک غالب ہو گیا‘ ریاستہائے متحدہ امریکہ۔ امریکی سامراج کے زمانے میں غیر معمولی واقعات کا آغاز ہوا۔ 1990 کے بعد سے امریکہ نے ایک غالب طاقت ہونے کا لطف اٹھایا۔ اس نے اپنی مرضی کے مطابق کئی ممالک پر حملہ کیا‘ ان حکومتوں کا خاتمہ کیا‘ جسے وہ ناپسند کرتا، اور اپنی پسند کے استعمار پسندوں کی حمایت کی۔ اہم بات یہ کہ اس دور میں امریکی طرزِ حکومت کی نمو بھی دیکھنے میں آئی۔ اس عرصے میں امریکی برانڈ کی حکومت ترجیحی نظام تھا۔ یہاں تک کہ مقامی آبادی کی مرضی کے برعکس بھی‘ جیسا کہ افغانستان اور عراق۔ بین الاقوامی گورننس باڈیز (جیسے آئی ایم ایف) ممالک کو امریکی طرز حکمرانی اپنانے اور داخلی سطح پر ایسی اصلاحات لانے پر مجبور کرتیں‘ جو امریکہ کے مفادات کے مطابق ہوں۔ جنہوں نے اس امریکی برتری کو تسلیم کر لیا‘ ان کو نوازا گیا‘ جیسے جنوبی کوریا، بھارت۔ جنہوں نے امریکہ سے اختلاف کیا، ان کو سزا دی گئی‘ جیسے وینزویلا، عراق، شام۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ 2020 میں یہ سب بدل گیا۔ کووڈ19 کے پھیلاؤ سے اپاہج ہو چکی، اور دو نامناسب جنگوں کے دوران اپنی عالمی توانائیوں کو ضائع کر دینے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی رد عمل پر مبنی ''امریکن فرسٹ‘‘ پالیسی کا نتیجہ امریکہ کی بالا دستی کی عالمی سطح سے دستبرداری کی صورت میں نکلا۔ اس امریکی انخلا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا نے مسابقتی مفادات کو جنم دیا ہے۔ خاص طور پر، چین کا عروج، جو حالیہ عرصے تک سست تھا، کورونا وائرس کی وبا کے دوران بے حد تیزی پکڑ گیا۔ چونکہ مغرب کووڈ19 کے اثرات سے نمٹنے میں مصروف ہے اور امریکہ داخلی تنازعات میں الجھا ہوا ہے تو اس دوران چین کی طاقت بڑھ رہی ہے۔ لداخ میں چین کی سرگرمی، اور کووڈ لاک ڈائون کے باوجود سی پیک منصوبوں کی تکمیل میں تیزی‘ چین کے عالمی سطح پر آگے بڑھنے کا ثبوت ہے۔ ایک عالمی ترتیبِ نو بالکل سامنے ہے‘ اور ''مشرق کی طرف دیکھو‘‘ کے حوالے سے ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے۔
گلوبل پاور میں اس تبدیلی کے ان بین الاقوامی سرحدوں پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں‘ جو مشرق وسطیٰ‘ حتیٰ کہ ایشیا میں کھینچ دی گئی تھیں۔ وہ طاقتیں جنہوں نے سرحدوں کی یہ لکیریں کھینچیں اور اور ان کی پاسداری کی ضمانت دی‘ اب اس قابل نہیں رہیں کہ اپنے وعدے پورے کر سکیں۔ ہانگ کانگ، تائیوان، حتیٰ کہ لداخ اس کی بہترین مثال ہیں۔ اب جبکہ چین ان علاقوں پر اپنا کنٹرول مستحکم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے تو کیا امریکہ انہیں 'آزاد‘ کرنے کیلئے کسی جنگ کا خطرہ مول لے گا؟ اگر چین لداخ میں رہتا ہے یا نیپال کے راستے بھارت کی سرحد کے پار اپنا تسلط بڑھاتا ہے تو کیا امریکہ اور اس کے دوست بھارت کی فوجی مدد کیلئے آئیں گے؟ کیا وہ سی پیک یا اس سے بڑے منصوبے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کو خطرے میں ڈالنے کیلئے جنگ لڑیں گے؟ آنے والے ماہ و سال میں، ہمارے خطے کے ممالک (اور غالباً پوری دنیا) کو ممکنہ طور پر امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔ چینی کیمپ میں آنے والے ممالک کو جمہوریت کے مستعار لئے گئے امریکی ماڈل سے نکل کر ''چینی ماڈل‘‘ کے بھی قریب آنا پڑ سکتا ہے‘ جہاں ڈھیلی ڈھالی جمہوریت کے ساتھ ریاست کی فیصلہ کن رٹ بھی ہے۔ 2021 مشرق کے عروج کا پہلا سال ہو سکتا ہے‘ اور یہ نیا عالمی نظم، جو آج ہماری نظروں کے سامنے تیار ہوتا نظر آ رہا ہے ، پاکستان اور اس کے جمہوری معاملات کیلئے گہرے اثرات لئے ہوئے ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں