"FBC" (space) message & send to 7575

کھیلوں کے ڈھانچے میں اصلاح کی ضرورت

میرا ایک ساتھی جو ابھی اتنا چھوٹا ہے کہ پاکستانی کرکٹ کے بارے میں کوئی رائے قائم کر سکے‘ نیوزی لینڈ سیریز میں پاکستان کی 'غیر معمولی‘ کارکردگی کے بعد پریشان ہو گیا ہے۔ جوانی کے آئیڈیل ازم کی تھیوری کے تحت وہ آخری گیند اچھالے جانے تک کسی کرشمے کے رونما ہونے کی امید کرتا رہا۔ کامیابی کیلئے کی گئی ساری دعائیں‘ دل میں اُٹھنے والی جیت کی تڑپ اور ٹیلی وژن سکرین پر چیخنے چلانے پر صرف کی گئی ساری توانائیاں تقدیر کا رخ موڑ نہ سکیں۔ اس نے مجھے ایک کہانی یاد دلا دی جو میں نے کچھ عرصہ پہلے سنی تھی: ایک پادری اور ایک ربی دوست بن جاتے ہیں‘ اور ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک دن وہ ایک ساتھ باکسنگ کا میچ دیکھنے جاتے ہیں۔ انہوں نے دیکھا‘ جیسے ہی میچ شروع ہونے والا تھا‘ ایک باکسر کونے میں چلا گیا‘ اس نے گھٹنے ٹیکے اور غیبی مدد کا طلبگار ہوا۔ ربی نے پادری کی طرف رخ کیا اور پوچھا :اس کا کیا مطلب ہے؟پادری نے جواب دیا: اگر نوجوان باکسنگ کرنا نہیں جانتا تو اس کا کچھ بھی مطلب نہیں ہے۔غیر ملکی ٹور میں پاکستان کرکٹ کی افسوسناک کارکردگی نے ہمیں ایک بار پھر ہمارے ملک میں کھیلوں کی خراب صورتحال کی یاد دلا دی۔ اس وقت جبکہ (پہلے درجے کی) کرکٹ کھیلنے والے دوسرے ممالک تربیت‘ فٹنس اور کھیل کی حکمت عملی کے جدید طریقوں کو اپنا چکے ہیں‘ پاکستان اب بھی بیٹسمینوں کی ایسی جوڑی کی تلاش میں ہے جو کریز پر ٹک کر کھیل سکے۔
پاکستان کی کرکٹ اعتماد‘ نظم و ضبط اور فٹنس کے بحران سے دوچار ہے اور ان میں سے کسی بھی مسئلے کا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ کسی کھلاڑی کے پاس کتنا ٹیلنٹ ہے۔ماضی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ یہاں انٹرنیشنل سطح کی کرکٹ کا مقابلہ کرنے کیلئے خاصا خام ٹیلنٹ موجود تھا اور پاکستان کھیلوں کے حوالے سے شاندار صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہا تھا‘ لیکن اب ہم اس زمانے کے باسی نہیں ہیں جب مناسب تربیت اور انتظام کے بغیر‘ محض ٹیلنٹ بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کر سکتا تھا۔ جدید دور میں اچھی کرکٹ کھیلنے اور بین الاقوامی سطح پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ قابلیت کو ایک منظم اور ٹھوس مقامی کرکٹنگ ڈھانچے کے ذریعے با مقصد طریقے سے پالش کیا جائے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا کرکٹ کا مقامی ڈھانچہ لڑکھڑا رہا ہے۔
چلیں اسی بات سے آغاز کر لیتے ہیں کہ اس امر کی وضاحت کرنا مشکل ہے کہ ہمارے ملک میں تا حال کرکٹ کے معاملات ایک حکومتی جدوجہد کیوں ہیں؟ دوسرے لفظوں میں‘ پی سی بی کی تشکیل اس انداز میں کی گئی ہے کہ وزیر اعظم تنظیم کے سرپرستِ اعلیٰ ہیں‘ انہیں چیئرمین پی سی بی کی تقرری کے اختیارات سونپے گئے ہیں اور وہ پی سی بی کو احکامات جاری کر سکتے ہیں کہ وہ کس معاملے میں کون سا راستہ اختیار کرے۔ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے‘ ماضی میں مختلف وزرائے اعظم حیرت انگیز طور پر سیاسی اور اقربا پروری پر مبنی تقرری کرتے رہے اور اسی وجہ سے ایک ایسے ملک میں جس نے کرکٹ کی تاریخ کے کئی بہترین کھلاڑی پیدا کئے‘ ہمارے ہاں اعجاز بٹ‘ ذکا اشرف‘ اور نجم سیٹھی جیسے پی سی بی کے چیئرمین مقرر کئے جاتے رہے۔ ان سب کا تقرر بغیر کسی استثنا کے اُن وقتوں کے وزرائے اعظم کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر کیا گیا تھا نہ کہ کرکٹ کے مقامی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے حوالے سے ان کے انقلابی نظریات کی بنا پر۔
جیسا کہ سیاسی بنیادوں پر مقرر کئے گئے منتظمین کے تحت چلنے والے تمام اداروں میں ہوتا ہے‘ جلد ہی پی سی بی انتظامیہ اور ٹیم کے ارکان میں بھی سفارشی تقرریوں کا راستہ ہموار ہو گیا۔ کرکٹ کے داخلی ڈھانچے کو از سرِ نو مرتب کرنے کی کوئی معنی خیز کوشش نہیں کی گئی۔ دراصل کرکٹ کی دیوانی قوم میں کوئی بھی اس بات کا خیال نہیں رکھتا کہ ہماری ڈومیسٹک کرکٹ میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ کرکٹ سے جنون کی حد تک رغبت رکھنے والے زیادہ تر لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے ہوتے کہ ڈومیسٹک سیر یز کب ہوتی ہیں یا ماضی میں کون اچھا کھیلا تھا۔ پی ایس ایل جسے ہرگز ڈومیسٹک سٹرکچر کا متبادل نہیں قرار دیا جا سکتا‘ اس وقت واحد قابلِ قدر ایونٹ ہے۔
باقی دنیا نے اپنی توجہ ریاست کے کنٹرول سے مارکیٹ کی فورسز کی جانب مبذول کی ہے‘ لیکن پاکستان میں رجحان اس کے الٹ ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ایک نااہل اور اقربا پروری پر مبنی صورتحال ‘بے لچک بیوروکریسی نے جس کو مستحکم کرنے میں کردار ادا کیا‘ نے ملک میں کھیلوں کے ارتقا کو روکنے کیلئے اپنی گرفت مضبوط تر کر لی۔ پاکستان میں کھیلوں کے بورڈز کی شفافیت اور ان کی نجکاری کے مطالبات کو سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مسلسل حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا‘ جنہوں نے ان اداروں کو اپنے وفاداروں پر احسان کرنے کے آلے تصور کیا۔قدرتی طور پر اس کے نتیجے میں پاکستان میں تمام کھیل متاثر ہوئے۔ ابھی ایک چوتھائی صدی سے بھی کم عرصہ پہلے پاکستان سکوائش میں تقریباً مکمل طور پر غالب تھا‘ آج دنیا کی ٹاپ 50 رینکنگ میں کوئی ایک بھی پاکستانی نہیں ہے۔ ہم پچھلے اولمپکس اور ایشین گیمز کے دوران سب سے کم کارکردگی دکھانے والوں میں سے تھے۔ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اور صورتحال یہ ہے کہ اس کھیل میں ہمارا نمبر دسواں ہے اور حالیہ نیوزی لینڈ سیریز کے دوران کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
جب تک ریاست کھیلوں میں اوپن مارکیٹ کی مسابقت کو کنٹرول اور اس میں جوڑ توڑ کرتی ہے‘ میرٹ سیاسی مفادات کی قربان گاہ پر قربان ہوتا رہے گا۔ جب تک پاکستان کرکٹ بورڈ‘ یا پاکستان ہاکی فیڈریشن یا پاکستان سپورٹس بورڈریاست کے زیر انتظام کام کرتے رہیں گے‘ اقربا پروری اور نا اہلی ان کی علامات رہیں گی۔ جب تک سیاسی تقرریاں پی سی بی کا نظم و نسق چلائیں گی‘ اس وقت تک امید نہیں کی جا سکتی کہ پاکستانی ٹیم اس سے بہتر کارکردگی دکھائے گی‘ جیسی وہ اس وقت دکھا رہی ہے۔
جناب وزیر اعظم سرپرستِ اعلیٰ پی سی بی سے اپیل ہے کہ پاکستان میں کرکٹنگ سٹرکچر کی اصلاح کی طرف فوری توجہ فرمائیں‘ جو ریاست کے بیوروکریٹک چنگل میں آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے۔ پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر عمران خان صاحب کی کرکٹ کی صلاحیت اور اس کھیل کے بارے میں سمجھ بوجھ کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔ ماضی میں دیئے گئے متعدد انٹرویوز میں عمران خان صاحب نے پی سی بی میں اصلاحات کے ویژن اور ڈومیسٹک کرکٹنگ ماڈل کے بارے میں بہت کچھ کہا تھا۔ ایک دلگیر قوم ان کی طرف ان وعدوں کے ایفا کے حوالے سے دیکھ رہی ہے۔ اگر عمران خان صاحب‘ کرکٹ کے عظیم لیجنڈ‘ پی سی بی کے سرپرستِ اعلیٰ‘ ہماری کرکٹ میں اصلاحات نہیں لا سکتے تو ہمارے ملک میں کھیل یقینی طور پر تباہی کا شکار ہو جائیں گے۔ ایک ایسے ملک میں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی اور بدعنوانی کا شکار ہے‘ کھیل (خاص کر کرکٹ) ہی قوم کو اچھا محسوس کرانے والا ایک عنصر ہو سکتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پی سی بی اور ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے میں قانون میں ترمیم کے ذریعے اصلاحات کی طرف قدم بڑھایا جائے اور اسے بیوروکریٹک کنٹرول سے نکال کرمیریٹوکریسی یا مارکیٹ کی فورسز کے حوالے کرنے کیلئے جارحانہ انداز اپنایا جائے۔ مارکیٹ کو ہماری گلیوں سے ٹیلنٹ تلاش کرنے دیں۔ ایک ایسے کھیل کیلئے اپنی تادیر قائم رہنے والی خدمات فراہم کر دیں‘ جس میں دلچسپی رکھنے والوں نے کبھی آپ کو اس کھیل کا کنگ بنا دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں