"FBC" (space) message & send to 7575

انتخابی مہم کے مالیاتی قوانین

اب جبکہ ہماری سیاست سینیٹ الیکشن کے بعد کے منظرنامے میں ڈھل رہی ہے‘ ہمارے سیاسی کلچر میں منافقت اور پیسوں کی ہوس سب پر عیاں ہوچکی ہے۔ پیسے کی سیاست کا یہ ماڈل اتنا واضح ہو چکا ہے کہ ہمارے موجودہ نظامِ جمہوریت کے شدید حامی بھی اس کے بنیادی اصولوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ لوگوں نے پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ کیا ہماری سیاست میں پیسے کے استعمال کی کوئی حدہے؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا متعلقہ امیدواروں نے سینیٹ‘ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلیوں کا رکن منتخب ہونے کیلئے جتنی رقم خرچ کرنے کے انکشاف کئے‘ ان کی کوئی صداقت ہے؟ یا ہم صرف خود کو بیوقوف بنا رہے ہیں کہ یہ لوگ جن کے اخلاقی تانے بانے گہرائی تک سڑ چکے ہیں ہمیں اپنے مالی اخراجات کی حقیقت بتائیں گے؟الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جو معلومات فراہم کی گئیں ان کے مطابق 2018ء کے عام انتخابات میں شہباز شریف نے این اے 132 میں اپنی انتخابی مہم پر صرف 1940000 روپے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا۔ اسی طرح این اے 131 میں عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کیلئے صرف 997925 روپے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا۔ عبدالعلیم خان‘ جو بے حد زیادہ سیاسی اخراجات کیلئے جانے جاتے ہیں‘ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے این اے129 کی مہم کیلئے 3980000 روپے خرچ کئے۔ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے این اے 106 کے الیکشن کیلئے 3250000 روپے خرچ کئے‘ جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ انہوں نے این اے 200 سے اپنی الیکشن مہم پر 3360000 روپے خرچ کئے۔
انتہائی ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ‘ شاید‘ 2021 ء کے انتخابات میں‘ سینیٹ کے ہر امیدوار نے انکشاف کیا کہ اس نے اپنی الیکشن مہم پر 1500000 روپے سے کم اخراجات کئے۔ جی ہاں فی فرد 1.5 ملین سے کم‘ ایک ایسے الیکشن پر جس کے بارے میں میڈیا رپورٹوں سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ کچھ معاملات میں ایک صوبائی اسمبلی کے ووٹ خریدنے/ رشوت کے ذریعے لینے کیلئے50000000 روپے سے زائد خرچ کئے گئے۔ان حالات میں کیا امیدواروں کی جانب سے کئے گئے انتخابی اخراجات کے انکشافات قابل فہم ہیں؟ کیا کوئی (معقولیت کے ساتھ) یہ یقین رکھتا ہے کہ جس ملک میں پیسہ سیاسی طاقت کے قیام میں اہم کردار ادا کرتا ہے‘ وہاں یہ اخراجات حقیقی اعدادوشمار کی نمائندگی کرتے ہیں یا کیا ان اعدادوشمار کو محض قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے گھڑ لیا گیا ہے‘ جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں؟ کیا اصلی اخراجات کی نگرانی کا کوئی طریقہ ہے؟ اگر ہے تو انتخابی اخراجات میں احتساب کے طریقہ کار کو مرتب کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟
پاکستان میں سیاسی مہموں میں پیسوں کی آمد نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ منتخب ہونے کا اعزاز اب صرف ان چند منتخب افراد تک محدود ہے جو اس کے 'متحمل‘ ہو سکتے ہیں۔ ہمارے انتخابی قوانین میں قانونی سیف گارڈز کے باوجود‘ (اکثر غیر قانونی) رقوم کا بہاؤ انتخابی عمل کے نتائج پر حاوی ہو جاتا ہے اور انتخابی اخراجات کے حوالے سے غلط معلومات کی فراہمی بغیر کسی سزا کے جاری رہتی ہے۔آئینی نقطہ نظر سے‘ آرٹیکل 218‘ 219 اور 222 کے تحت‘ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات ''ایماندارانہ‘ منصفانہ اور قانون کے مطابق کرانے کو یقینی بنائے اور بدعنوانی کے طریقوں کو استعمال نہ ہونے دے‘‘۔ آئین کے تحت‘ انتخابی ایکٹ کی دفعہ 132 انتخابی اخراجات کی مجموعی رقم پر ایک پابندی عائد کرتی ہے جو کسی بھی حلقے میں امیدوار (یا اس کے حامی) خرچ کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر‘ قانون میں کہا گیا ہے کہ ''کسی امیدوار کے انتخابی اخراجات میں کسی بھی شخص یا کسی سیاسی جماعت کی طرف سے امیدوار کی طرف سے کیے جانے والے اخراجات یا خاص طور پر امیدوار کیلئے کسی سیاسی جماعت کی طرف سے کئے جانے والے اخراجات شامل ہوں گے۔ اور یہ کہ اس طرح کے اخراجات اس سے زیادہ نہیں ہو سکتے: (ا) ''سینیٹ کی ایک نشست پر انتخاب کے لئے پندرہ لاکھ روپے‘‘۔ (ب) ''قومی اسمبلی کی ایک نشست پر الیکشن کیلئے چار لاکھ روپے‘‘۔ اور (ج) ''صوبائی اسمبلی کی کسی نشست پر انتخاب کیلئے بیس لاکھ روپے‘‘؛تاہم‘ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ انتخابی عمل کے دوران انتخابی اخراجات کی اس مستند حدود کی بیشتر (اگر تمام نہیں) امیدواروں کی جانب سے پاسداری نہیں کی جاتی ہے۔ ہماری سیاسی داستان انتخابی اخراجات کے بارے میں مثالوں سے بھرپور ہے جو انتخابی مالیات کے قوانین کا مذاق اڑاتی ہیں۔ اب یہ بات وسیع پیمانے پر تسلیم کی جا چکی ہے کہ صرف این اے 122 میں ہونے والے 2015ء کے ضمنی انتخاب میں امیدواروں (علیم خان اور ایاز صادق) کی جانب سے مجموعی طور پر 300 ملین روپے سے زیادہ کا خرچہ کیا گیا تھا۔ 2018ء کے عام انتخابات کے دوران‘ ہر سیاسی جماعت نے اپنا ٹکٹ 'الیکٹ ایبلز‘ کو دینے کو ترجیح دی تھی‘ جن کے پاس انتخاب لڑنے (یہاں پڑھیں:خریدنے) کیلئے مالی وسائل موجود تھے۔ بہت سارے طریقوں سے‘ انتخابات کو پیسے کی مساوات تک محدود کر دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ناگزیر طور پر اسی متمول اشرافیہ کو اپنے قانون ساز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں۔
اپنی قانونی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انتخابی مہم میں مالیات کے معاملات پر عدالتوں میں عملی طور پر ابھی تک کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں لائی گئی۔ اس لئے نہیں کہ جماعتوں اور امیدواروں نے ہمیشہ مقررہ حدود میں ہی مالی اعانت کے جائز ذرائع استعمال کیے ہیں‘ بلکہ اس لئے کہ سیاسی تقسیم کے تمام فریق انتخابی مہم کے مالیاتی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں‘ لہٰذا کوئی بھی اس معاملے کو اٹھانے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ اس کے نتیجے میں ہمارے سیاسی عمل کو ایک آسان مساوات میں تبدیل کر دیا گیا ہے کہ کون انتخابی عمل کیلئے سب سے زیادہ پیسہ خرچ (اور پھر دوبارہ انتخاب لڑنے کیلئے اقتدار میں مدت کے دوران اس کی وصولی) کر سکتا ہے۔
انتخابی عمل کو بڑے پیمانے پر دولت کی ایک مشق میں تبدیل کرکے‘ ہم نے کسی بھی فردکیلئے الیکشن لڑنے کے امکان کو ختم کر دیا ہے۔ اس افسوسناک حقیقت نے منظم طریقے سے ہماری آبادی کی اکثریت کیلئے کسی سیاسی عہدے کی خواہش کو معدوم کردیا ہے اور ہمارے ان حالات کو پہنچنے کی وجہ اسکے سوا کوئی نہیں کہ ہم نے قوانین پر عمل کرنا ترک کر دیا ہے۔کوئی بھی معقول طور پر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کہ انتخابی مالیات کو منظم کرنے کیلئے ہمارے ہاں مناسب اور کافی قانونی فریم ورک موجود نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں ان دفعات کو نافذ نہ کرنے کی ساری ذمہ داری ای سی پی پر عائد ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن یہ کیسے یقینی بنا سکتا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 132 کے قانونی مینڈیٹ کی تعمیل کی جائے؟ ہر امیدوار کے اخراجات پر نظر رکھنے کیلئے نگرانی کے مخصوص اقدامات کیوں نہیں کئے گئے؟ اس مقصد کیلئے کوئی معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کیوں نہیں ہے؟ حقیقی اخراجات کے مشاہدے کیلئے (ہر حلقے میں) نگرانی کرنے والی ٹیمیں کیوں نہیں ہیں؟ کیا ای سی پی صرف امیدواروں کی جانب سے دئیے گئے اعدادوشمار پر یقین رکھتا ہے یا اس سلسلے میں اپنی مستعد کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا کچھ طریقہ بھی اس کے پاس ہے؟تاحال یہ لگتا ہے کہ لیکشن کمیشن انتخابی اخراجات کی نگرانی کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہے اور سبکی کا باعث ہونا چاہئے- آر ٹی ایس سسٹم کی ناکامی کے معاملے سے کہیں زیادہ۔ اگر الیکشن کمیشن ایسے اخراجات پر اس انداز سے مانیٹرنگ کرے کہ انتخابی مالیاتی قوانین کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی ہو‘ تو اس کے نتائج ہماری جمہوریت کیلئے بڑے دوررس ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف قابل ِاطلاق قانون نافذ ہو گا بلکہ جمہوریت کو آبادی کے ایک بڑے حصے تک پہنچانے میں بھی مدد ملے گی‘ جو فی الحال اس میں حصہ لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں