"FBC" (space) message & send to 7575

90ء کی سیاست کی بازگشت

گورننس کے تمام دیگر ڈھانچوں سے ماورا جمہوریت کا حسن دو بنیادی ستونوں پر استوار ہوتا ہے۔ اول: مفاد عامہ سے متعلق معاملات میں عوام کی اجتمائی منشا کو قانونی اور ایگزیکٹو اقدامات کی صورت میں ڈھالا جائے گا۔ دوم: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور جمہوری جماعتیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ایسے نظام وضع کریں گی جن میں سیاست کے مخصوص کلچر کی طرف مراجعت سے گریز کیا جائے گا۔
افسوس کہ پاکستان میں یہ دونوں مقاصد بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں سیاست کو خاندانی پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی اور چند چھوٹی جماعتوں کے سوا پاکستان کے سیاسی ڈھانچے پر سیاسی خانوادے قابض ہیں۔ پی ایم ایل (این) میں پارٹی کی قیادت صرف شریف فیملی کا استحقاق ہے۔ پی پی پی میںکوئی بھٹو ہی لیڈر ہو سکتا ہے (خواہ وہ کوئی زرداری ہی کیوں نہ ہو)۔ جے یو آئی (ایف) میں مولانا فضل الرحمن اور ان کی فیملی ہی قیادت کی حق دار ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم جمہوریت کے ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جسے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح چلایا جا رہا ہے۔
دیگر نجی کمپنیوں کی طرح اس جمہوری نجی کمپنی کا مقصد بھی صرف دو اہداف کا حصول ہے۔ اول: اپنے مالک کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا‘ اور دوم: حکومتی امور پر مکمل کنٹرول رکھنا۔ قدرتی طور پر ایسے جمہوری ڈھانچے میں سماج کی بہبود یا فلاح عامہ ایک ذیلی ایشو بن جاتا ہے‘ جس کا بنیادی ہدف مالک کے نجی مفادات کا تحفظ اور حصول ہوتا ہے۔ فی الحال پاکستان میں بھی اسی سیاسی ماڈل کے ساتھ کمپرومائز کر لیا گیا ہے۔ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظام خود بخود مفاد عامہ کے لیے کام کرنے لگے گا۔ مستقل مزاجی سے جمہوری عمل کی پیروی سے ہمارے بنیادی مسائل حل ہونا شروع ہو جائیںگے۔ نیز یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھ جائیں گی‘ اور جمہوری روایات پر عمل کریں گی۔ اس ضمن میں لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے پوش ڈرائنگ رومز میں اکثر 1990ء کے سیاسی عشرے میں سیکھے گئے اسباق کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ 1990ء کی نوزائیدہ اور ناپختہ سیاست اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے چھانگا مانگا کی ہارس ٹریڈنگ سے بہت سبق سیکھ لیا ہے۔ نیز یہ کہ پی ایم ایل (این) اور پی پی پی نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا جو وتیرہ 1990ء کی دہائی میں اپنایا تھا اور جس کے نتیجے میں چار جمہوری حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے ختم ہو گئی تھیں‘ اب اسے نہیں دہرایا جائے گا۔ ہمارے سیاستدانوںکو اب اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ ایسی حرکتوں سے ماورائے آئین قوتوں کو صورت حال کا فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔
یہ دعویٰ کیا گیا کہ تب سے جمہوریت نے سبق سیکھ لیا ہے۔ اب سویلین حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور پاکستان سے ہارس ٹریڈنگ کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا۔ کوئی ثبوت؟ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف میں میثاق جمہوریت میں یہ اتفاق رائے کیا گیا تھا کہ کسی بھی سویلین حکومت کی ٹانگیں کھینچ کر نہیںگرایا جائے گا۔ ہمارے دستور میں جنرل پرویز مشرف نے جو آرٹیکل 63-A شامل کیا تھا اس کی جگہ ہارس ٹریڈنگ کے خلاف ہمارے غیر متزلزل عزم کے اظہار کے لیے فوری طور پر اٹھارہویں آئینی ترمیم متعارف کرا دی گئی۔
بعد میں ثابت ہو گیا کہ ان میں سے ایک بھی دعویٰ حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔ جمہوریت کے نام پر سیاسی جماعتوں پر قابض خاندانوں نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ نام نہاد جمہوریت کو ایک پائیدار سیاسی ڈھانچے میں ڈھالنے کی باتیں محض ایک دھوکا ثابت ہوئیں۔ آج کل اسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس پر یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ جمہوریت کے علمبرداروں نے میثاق جمہوریت اور آرٹیکل 63-A کی دھجیاں بکھیردی ہیں اور صرف انہی اصولوں کی پاسداری کا حلف دیا جا رہا ہے جس سے جمہوریت کی آڑ میں پارٹی پر قبضہ برقرار رکھنے میں مدد مل سکے، حکومت پر کنٹرول مضبوط رہے اور اس سے ملنے والے تمام تر ذاتی مفادات کو تحفظ حاصل ہو۔
کوئی بیانیہ بھی ان حقائق کی پردہ پوشی نہیں کرسکتا۔ ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں رانا ثنااللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ سندھ ہائوس میں پناہ لینے والے پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی کو ''لوٹا ‘‘ سمجھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے میں مدد کیلئے پروگرام کے میزبان نے رانا صاحب کا ایک سابقہ بیان بھی ٹی وی پر چلا دیا‘ جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ جو شخص بھی مشکل کی گھڑی میں پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے وہ ''لوٹا‘‘ ہی کہلاتا ہے اور ہماری سیاست میں ایسے عناصر کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ رانا ثنااللہ نے اپنے سیاسی آقائوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سے بغاوت کرنے والے ارکان اسمبلی لوٹے نہیں ''مجاہد‘‘ ہیں۔ کوئی دلیل؟ رانا صاحب کے استدلال کے مطابق جو شخص اپوزیشن کو چھوڑ کر حکومت میں شامل ہوتا ہے وہ لوٹا کہلاتا ہے اور جو شخص حکومت چھوڑ کر اپوزیشن سے مل جاتا ہے وہ ''مجاہد‘‘ ہے۔ ناقابل یقین!
ان واقعات کے بعد یہ بنیادی سوال پوچھنا اہم ہے کہ ایسے جمہوری نظام کا کیا فائدہ جس میں مفاد عامہ کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے نہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو مخصوص سیاست کے کلچر کا اعادہ نہ کرے؟
یہ پی ایم ایل (این) یا پی پی پی کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے‘ اور نہ ہی یہ پی ٹی آئی کے حق میں دلیل ہے۔ (چانس ملنے پر وہ بھی کچھ بہتر نہ کرتی)۔
یہ محض اس نظام کے خلاف شکوے شکایتیں ہیں جس نے پچھلے کئی عشروں سے اس ملک کے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ وعدہ کیا تھا کہ ایک نہ ایک دن ہماری جمہوریت کی کشتی ترقی اور استحکام کی طرف رواں ہو جائے گی۔ یہ ان لوگوںکے ایک چھوٹے سے گروہ کے خلاف شکوہ ہے جنہوں نے کم از کم 1985ء سے ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ رکھا ہے اوراپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اس ملک کے ساتھ ایک کھلواڑ میں مصروف ہیں۔
درحقیقت یہ ایک مرتبہ پھر 1990ء کی دہائی والی سیاسی دلدل کی طرف کھینچنے والوں کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ اس وقت جب پاکستان بے معنی سیاسی تنازعات اور کشیدگی کا شکار ہو گیا تھا اور کوئی ٹھوس ترقی نہیں کر سکا تھا۔ یہ وہی عشرہ تھا جب پاکستان معیشت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں باقی دنیا سے کہیں پیچھے رہ گیا تھا اور آج بھی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ایک بار پھر ہمیں کئی عشرے (صدیاں) ان مبہم وعدوں کا انتظار کرنا پڑے گا کہ مخصوص خاندانوں کے چنگل میں پھنسی سیاسی جماعتیں ایک دن سبق سیکھ جائیں گی اور ذاتی اجارہ داریوں کے بجائے اداروں کی ترقی کو ترجیح دیں گی۔ یا پھر کیا ہمیں اپنے حکومتی ڈھانچے کی ری سٹرکچرنگ کرنی پڑے گی تاکہ ہم ایک فعال اور نتیجہ خیز آئینی فریم ورک کے بارے میں سوچ سکیں۔
یہ وہ سنجیدہ سوالات ہیںجن پر قومی سطح پر بحث و تمحیص ہونی چاہئے۔ اس امر کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ہم موجودہ جمہوری فریم ورک کے حوالے سے اپنی اپروچ میں محض نمائشی رویے اپنائیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کرایک نئے جمہوری ماڈل کے تناظرمیں اپنے لیے ایک بہتر سماج کی تشکیل کا خواب دیکھیں۔ ایک ایسا خواب جس کا تقاضا ہے کہ آج ہم اپنے عوام کے ساتھ جمہوریت کا حقیقی وعدہ پورا کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں