"FBC" (space) message & send to 7575

Absolutely Not

گزشتہ کئی سالوں سے عمران خان کا سیاسی فلسفہ اس امر پر استوار ہے کہ پاکستان میں 'سٹیٹس کو‘ کی منافقت کو عوام کے سامنے آشکار کیا جائے۔ آج تک اسی وجہ سے ان کی شریف خاندان اور آصف علی زرداری کے ساتھ محاذ آرائی جاری ہے جن کا بیانیہ اور مفاد عامہ کا عمومی دعویٰ دراصل ان کی کرپٹ اور مفاد پرستانہ سیاست کی منافقت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی۔ درحقیقت اس بات کا پورا امکان ہے کہ عمران خان پارلیمنٹ میں اور سڑکوں پر 'سٹیٹس کو‘ کی فورسز کے سامنے ناکامی سے دوچار ہو جائیں‘ مگر آج تک یہ خاندانی چنگل میں پھنسی جمہوریت کے خلاف جنگ تھی‘ ایک ایسی لڑائی تھی جسے لڑنے کا فیصلہ عمران خان کا اپنا تھا۔ انہیں یہ لڑائی جیتنے کی پوری توقع بھی ہے۔
لیکن گزشتہ ہفتے عمران خان نے اس جنگ کو وسعت دے کر اسے امریکی سرپرستی میں کام کرنے والی کٹھ پتلیوں تک پھیلا دیا۔ پہلے یہ روایت تھی کہ ترقی پذیر ممالک کے سیاست دان بعض حدوں کو عبور کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ دراصل شریف خاندان اور زرداری صاحب جیسے لوگ آج بھی خود کو عمران خان اور ان کے موقف سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عوام کی ایک بڑی تعداد عمران خان کی ''ورلڈ آرڈر‘‘ کو چیلنج کرنے کی ناقابل یقین جرأت پر حیران ہے۔ انہوں نے ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر امریکا کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے امریکا کے سرکاری بیانیے کے دوغلے پن پر سخت تنقید کی اور منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر ان کی جگہ اپنی کٹھ پتلیوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کی امریکا کی تاریخ کو تنقید کا ہدف بنایا۔ گوئٹے مالا سے لے کر کیوبا، ایران سے لے کر شام، وینزویلا سے لے کر مشرقی یورپ کے انقلاب تک یہی قصے پھیلے ہیں۔ چین میں ایک حالیہ سٹڈی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران امریکا نے دوسرے ممالک کی حکومتیں تبدیل کرنے کی کم از کم 74 مرتبہ کوشش کی۔
اہم بات یہ کہ جن ممالک میں امریکا حکومت تبدیل نہیں کر سکا وہاں اس نے لوگوںکو برسر اقتدار لانے یا انہیں برقرار رکھنے میں خفیہ کردار ادا کیا۔ مشرق وسطیٰ کے زیادہ تر حکمرانوںکی غیر جمہوری حکومتیں امریکی اشیرباد کی مرہون منت ہیں۔ دیگر ممالک جہاں جمہوری طور پر منتخب حکومتیں قائم ہیں امریکا انہیںآمر کہہ کر ان کی مخالفت کرتا ہے جیسے کہ ایران۔ کون اس حقیقت سے باخبر نہیں کہ کس طرح امریکا پاکستان میں مداخلت کرتا اور اپنی من پسند حکومت کی خفیہ منظوری دیتا رہا ہے۔ ایوب خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف جیسے حکمرانوںکو امریکی اشیرباد حاصل رہی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے منتخب عوامی حکمران کو امریکی حکومت کی مخالفت کی قیمت اپنی جان دے کر چکانا پڑی۔ سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے اعتراف کیا کہ 2007ء میں بے نظیر بھٹو امریکی اشیرباد سے ہونے والے مذاکرات اور انتظامات کے تحت ہی پاکستان واپس آئی تھیں۔ ہلیر ی کلنٹن کا بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے بدلے میں وکلا تحریک کے خاتمے اور 2013ء میں اگلی حکومت نواز شریف کو دلانے میں امریکا نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔
کیا عمران خان کا یہ موقف درست ہے کہ امریکا اپنی مقامی سیاسی کٹھ پتلیوں کی مدد سے محض اس پاداش میں ان کی حکومت ختم کرانے کے درپے ہے کہ وہ روس اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ چلیں ان حقائق کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکی کسی کو معافی دینے والے کون ہوتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں پر پھیلی جنگوں، بمباری، تشدد اور لوٹ مار پر امریکا کو دنیا سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو امریکا کو پاکستانی عوام سے معافی مانگنی چاہئے جنہوں نے دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں اپنے 80,000 شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اگر امریکا ہمارے کھوئے ہوئے سال، ہونے والا مالی نقصان اور شہرت لوٹا دیتا ہے اور ان ناقابل تصور مشکلات کا ازالہ کر دیتا ہے تو پاکستان کے عوام امریکی پیشکش قبول کر نے پر سوچ سکتے ہیں۔
اب اگلی بات۔ کیا اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن اپنے سیاسی حریف کو منظر سے ہٹانے کے لیے امریکی منصوبے اور دولت کو قبول کر سکتے ہیں؟ کیا انہوں نے ماضی میں کسی معاملے میں امریکی دبائو کی کبھی مزاحمت کی ہے؟
قومی سلامتی کونسل کے اس اعلامیے کے بعد‘ جس میں اس مبینہ مراسلے اور اس میں دی گئی غیر معمولی دھمکیوں کی حقانیت کو درست تسلیم کیا گیا ہے‘ اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ امریکا نے پاکستان کے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کی حکومت کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کا یہ اقدام ہر بین الاقوامی اصول کی صریح خلاف ورزی ہے جس میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حکومت کو براہ راست گرانا مقصود ہے۔ کوئی بھی خود دار انسان/ قوم جس میں ذرہ برابر بھی عزت نفس موجود ہے ایسا طرز عمل قبول نہیں کر سکتی۔
اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کے عوام کچھ لوگوں کے حواریوں جیسے نہیں ہیں۔ وہ امریکا کے سفارتی مراسلے اور اس میں دی گئی دھمکی کی حقیقت کے ضمن میں کوئی جواز دینے یا سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ لگتا ہے کہ پوری قوم اس مسئلے پر عمران خان کے موقف کی ہمنوا ہے‘ اور ہر خوددار انسان کو ان کے موقف کا حامی ہونا بھی چاہئے ۔ عوام کی صفوں میں پائے جانے والے اس شعور نے عمران خان کو اس حوالے سے مزید جارحانہ رویہ اپنانے پر آمادہ کیا ہے۔
فطری طور پر عمران خا ن نے عوام میں یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ امریکا‘ جسے پاکستان کے مفادات سے ذرا بھی سروکار نہیں‘ روس اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کی پاداش میں ان کی حکومت ختم کرنے کے درپے ہے۔ یہ کہ کرپشن کی غلاظت میں لتھڑے اپوزیشن رہنما امریکا کے سامنے اس لیے سر اٹھا کر کھڑے نہیںہو سکتے کہ ان کی ساری لوٹی ہوئی دولت اور جائیدادیں مغربی ممالک میں ہیں‘ جنہیں کسی بھی وقت ضبط کیا جا سکتا ہے۔ صرف عمران خان واحد پاکستانی لیڈر ہیں جو مغرب کا منظور نظر نہیں‘ اس لیے وہ پاکستانی سیاست میں کھلی امریکی مداخلت کو عیاںکرنے پر آمادہ ہیں۔ انہوں نے یہ تاثر بھی قائم کر دیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے امریکا کے سامنے سرنگوں ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔ نیز یہ کہ اسی مقصد کے لیے امریکی حکم پر یہ تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن رہنمائوں کے ذریعے غیر ملکی دولت لائی گئی ہے تاکہ ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی جائے۔ عمران خان نے جمہوریت میں پائی جانے والی خامیوں کو بھی اپنا ہدف بنایا۔ ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں زیادہ تر مغرب کے اشارۂ ابرو کے بعد ہی حکومتیں بنائی جاتی رہی ہیں‘ اور یہ حکومت اسی وقت تک چلتی ہے جب تک اسے امریکا کی اشیرباد حاصل رہتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں ریاست اور سیاست کی روح کے لیے ایک جنگ شروع ہو رہی ہے۔ یہ قوم کے سیاسی اور سماجی ضمیر پر بالا دستی حاصل کرنے کی جنگ ہے۔ کمپرومائز اور محاذ آرائی کے مابین تصادم ہے، بچائو اور حرمت کے درمیان، ہوش مندی اور اشتعا ل انگیزی، غلامی اور آزادی کے مابین تصادم ہے۔ اس نعرے‘ جس نے پوری قوم کو ایک پاکیزہ مقصد پر متحد کر دیا ہے سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے آئیے، بیک آواز ہو کر ایک بار پھر وہی نعرہ لگائیں کہ ''ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں