20 جنوری میں اب چند ہی دن باقی ہیں۔ اس دن دوپہر کو صدارتی حلف کے ساتھ وائٹ ہائوس کا عملہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا استقبال کرے گا۔ ٹرمپ نئے ہوتے ہوئے بھی نئے نہیں ہیں۔ ایک صدارتی مدت پوری کرنے اور اپنے بیانات سے امریکی سیاست میں ہلچل مچانے کے بعد وہ دوسری صدارتی مدت شروع کیا چاہتے ہیں۔ جوبائیڈن کم وبیش ایک ہفتے کی بقیہ صدارتی مدت گزار رہے ہیں لیکن دنیا کی توجہ ان کی طرف نہیں‘ ٹرمپ کی طرف ہے۔ ٹرمپ کو خبروں میں رہنے کا ہنر بھی آتا ہے اور مختلف عالمی معاملات پر چونکا دینے والے بیانات ان کی خاصیت ہیں۔ ان کے اعلانات پورے ہوں یا نہ ہوں‘ انہیں مرکزِ توجہ ضرور بنا دیتے ہیں۔ کوئی سابق و حاضر صدر اس معاملے میں ان کا ثانی نہیں۔ ایک طرف لاس اینجلس میں آگ لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف ٹرمپ اپنے بیانات کی تپش دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔ یہ تپش ویسے تو دنیا بھر لیکن کینیڈا‘ ڈنمارک‘ گرین لینڈ اور برکس ممالک تک خاص طور پر پہنچ رہی ہے۔
برکس ممالک میں برازیل‘ روس‘ بھارت‘ چین‘ جنوبی افریقہ‘ مصر‘ ایتھوپیا‘ متحدہ عرب امارات اور ایران شامل ہیں۔ ان نو ممالک میں کئی بر اعظموں کے ملک شامل ہیں یعنی یہ کوئی علاقائی اتحاد نہیں ہے۔ روس اور چین جیسے بڑے ملکوں کی موجودگی امریکہ کو اسی طرح کا خطرہ محسوس ہو رہی ہے جیسے یورپی یونین کا اتحاد اور امریکی ڈالر کے بجائے یورو کی کرنسی کو اختیار کر لینا۔ یورو کرنسی ڈالر پر انحصار سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہی تھی اور کوئی شک نہیں یورو اختیا رکرنے سے بہت سے ممالک کا ڈالر پر انحصار ختم ہوگیا تھا۔ امریکہ کو اب خطرہ ہے کہ برکس ممالک بھی ڈالر کے بجائے کسی دوسری کرنسی میں لین دین کریں گے۔ دسمبر 2024ء کے شروع میں ٹرمپ نے برکس ممالک کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان پر 100 فیصد ٹیرف عائد کر دیا جائے گا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ یہ خیال غلط ہے کہ برکس ممالک ڈالر سے دور ہونے کی کوشش کریں گے اور ہم دیکھتے رہیں گے۔ اب یہ نہیں چلے گا! ویسے تو برکس ممالک نے اندرونی اختلافات کے باعث ایسی کسی تجویز کی منظوری نہیں دی لیکن برازیل اور روس کے سیاستدان یہ مشورہ دیتے رہے ہیں۔ اسی خطرے کی روک تھام کیلئے یہ بیان دیا گیا۔ ٹیرف کا مطلب امریکہ کا وہ داخلی ٹیکس ہے جو کسی ملک سے درآمد ی مصنوعا ت پر عائد ہوتا ہے۔ سو فیصد ٹیرف کا مطلب ہوگا کہ ایسے کسی ملک کی امریکہ کیلئے برآمد ختم ہو کر رہ جائے گی۔ روس اور چین جیسے بڑے ممالک تو شاید اس کے متحمل ہو جائیں لیکن دیگر ملکوں کیلئے یہ بہت بڑا مسئلہ ہو گا۔ ویسے تو ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اس سے مقامی سطح پر قیمتوں میں فرق نہیں پڑے گا بلکہ ٹیرف برآمد کنندہ کی جیب پر بھاری ہو گا لیکن عملاً ایسا نہیں ہوگا۔ ٹیکس کے ساتھ امریکی درآمد کنندہ کو کسی شے کی جو لاگت پڑے گی‘ وہ اسی کے مطابق مارکیٹ میں قیمت متعین کرے گا۔ چنانچہ جن ممالک کی مصنوعات بڑی تعداد میں امریکی مارکیٹ میں پہنچتی ہیں‘ وہ اس مارکیٹ سے محروم ہو سکتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحادیوں کی حالت پتلی تھی جبکہ امریکی سونے کے ذخائر بہتر تھے۔ ایسے میں امریکہ نے یہ منوا لیا تھا کہ بین الاقوامی تجارت ڈالر میں ہوا کرے گی۔ اس فیصلے کے دوررس نتائج نکلے اور پوری دنیا امریکی ڈالر پر انحصار کرنے لگی۔ یہ سلسلہ اب تک چلا آ رہا ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ یوآن ڈالر کی جگہ لے لے لیکن اس نظام کو یک دم بدلنا بہت مشکل ہے۔ پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ امریکی حریف ممالک تو یہ کوشش کر سکتے ہیں لیکن امریکی اتحادی اور امریکہ پر انحصار کرنے والے ملکوں کی پالیسی بدلنا بہت ہی مشکل ہے۔
برکس کے بعد کینیڈا کی باری آئی۔ نومبر میں ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ ہمسایہ ملکوں میکسیکو اورکینیڈا پر بھی بھاری ٹیرف عائد کریں گے۔ جنوری میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم معاشی قوت کے ذریعے امریکہ کینیڈا کی سرحد ختم کریں گے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایسے نقشے پیش کیے جن میں کینیڈا کو نئی امریکی ریاست کے طور پر پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ اس سے امریکہ عظیم تر طاقت بن جائے گا۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے جواب میں کہا کہ کینیڈا کبھی امریکہ کا حصہ نہیں بن سکتا۔ کینیڈین شہری امریکی نہیں اور نہ ہوں گے۔ یہ بیان دراصل ٹیرف کے اثرات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جو عام امریکی کو بھگتنا پڑیں گے۔ بہرحال کینیڈین سیاسی اور حکومتی حلقوں میں اس بیان پر خاصی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
نہر پاناما کے بارے میں ٹرمپ کی دھمکی ایک اور رُخ ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ پاناما کینال ہمارے لیے بہت اہم ہے‘ اس کا انتظام چین سنبھالے ہوئے ہے جبکہ ہم نے اس کا کنٹرول پاناما کو دیا تھا‘ چین کو نہیں۔ ہم اب اس نہر پر کنٹرول چاہتے ہیں۔ انہوں نے پاناما اتھارٹی پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ امریکی کارگو کمپنیوں سے زیادہ محصول وصول کر رہے ہیں۔ اس بیان پر پاناما کا ردعمل سامنے آیا اور پاناما کے وزیر داخلہ نے کہا کہ پاناما کینال کی خود مختاری پر کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ دیگر سیاستدانوں نے بھی سخت بیانات دیے۔ بہرحال پاناما میں اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔
تازہ ترین معاملہ گرین لینڈ کا ہے‘ جس کا انتظام ڈنمارک کے پاس ہے۔ 2019ء میں بطور صدر ٹرمپ نے گرین لینڈ کو خریدنے کی بات کی تھی جس پر ڈینش وزیراعظم نے محتاط بیان میں کہا تھا کہ گرین لینڈ پر صرف اس کے لوگوں کا حق ہے لیکن ہم امریکہ کے ساتھ مل کر چلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ گرین لینڈ بہت کم آبادی والا ملک ہے جو ایک طرف تو ڈنمارک پر معاشی انحصار کرتا ہے‘ دوسری طرف کوئلے‘ تانبے اور زِنک کی معدنیا ت سے بھی مالا مال ہے۔ امریکہ کیلئے دفاعی لحاظ سے گرین لینڈ بہت اہم ہے۔ گرین لینڈ روس اور امریکہ کے مابین واقع ہونے کی وجہ سے دفاعی لحاظ سے دونوں طاقتوں کیلئے بہت اہم ہے اور امریکی دھمکی گرین لینڈ کے ساتھ ساتھ روس کیلئے بھی ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ گرین لینڈ کے وزیراعظم میوٹ ایگیڈ نے کہا کہ یہ جزیرہ فروخت کیلئے نہیں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ٹرمپ ''قصر سفید‘‘ میں بیٹھ کر اپنے ان اعلانات پر کتنا عمل کریں گے؟ کیا یہ محض بارگیننگ پوزیشن بہتر بنانے کی کوششیں ہیں۔ بیک وقت دنیا میں چار اطراف میں ملکوں کو اپنا مخالف بنا لینا کوئی عقل مندی نہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا ریکارڈ ہے کہ وہ مصلحتیں دیکھنے کے زیادہ عادی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں نظام ایسا ہے کہ صدارتی من مانی کی گنجائش کم ہے لیکن ٹرمپ اس نظام کو بدل نہ بھی سکیں تو گھسیٹ ضرور سکتے ہیں۔ اگر وہ ان میں سے کسی ایک یا سب اعلانات پر عمل کر گزرتے ہیں تو دنیا کن نئے عالمی مسائل کا شکار ہو گی؟ امریکہ کی یہ طاقت بہرحال ماننا پڑے گی کہ وہ ایسی عسکری‘ سیاسی اور معاشی پوزیشن میں ہے کہ بیک وقت مختلف ملکوں کو دھمکا سکے۔ اس کے علاوہ کوئی اور ملک اس قابل نہیں؛ چنانچہ اس یک قطبی دنیا میں جنگوں اور امن کا دار ومدار اسی سب سے بڑی طاقت اور طاقتور ترین شخص پر ہے۔ یہ تو عالمی مسائل ہیں۔ حال یہ ہے کہ چھوٹے ملکوں کی سیاسی جماعتیں بھی ٹرمپ کی طرف دیکھتی ہیں کہ وہ ہمارے لیے کیا کر سکتا ہے۔ پاکستان میں پی ٹی آئی اسی دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف وہ حکومت سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری طرف ٹرمپ کی حلف برداری کے دن کی بے چینی سے منتظر ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وائٹ ہائوس میں ٹرمپ کا آنا دراصل پی ٹی آئی کی آزمائش کا دور ختم ہونے کے برابر ہو گا۔ یہ محض خام خیالی ہے یا واقعی اس میں کچھ حقیقت ہے‘ 20 جنوری کو اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ 20 جنوری فیصلہ کرے گا کہ مادی وسائل کے لحاظ سے دنیا کا طاقتور ترین فرد کیا فیصلے کرتا ہے۔