"SBA" (space) message & send to 7575

کالا باغ اور سبز باغ

بارش کا پانی یا سیلِ آب کے پچھلے ریلے 4ارب کا پانی بحیرہ عرب میں ڈال آئے۔یہ 4ارب روپے پاکستان کی مریض معیشت کے لیے خون کی4سو کروڑ بوتلیں ہیں۔ساتھ ساتھ غریب عوام کے لیے کئی کروڑ خاندانوں کا سہار ا بھی۔لیکن جو ایک ایک دورے میں پاکستان کے18,20ارب روپے مغربی بینکوں میں ڈال کر آ رہے ہیں، ان کے لیے یہ رقم کچھ بھی نہیں۔چرا گاہ سے ہلکا پھلکا ہاٹ ڈاگ یا سنیک۔حالیہ دورئہ امریکہ میں ایک رات ہوٹل کا کرایہ 8000 ڈالر تھا۔
آج کل ،پنجاب کے ریلیف سے محروم عوام ،زرعی سہولتوں سے محروم کسان اور نوکریوں سے محروم کارکنوں کے ساتھ عجیب مذاق ہو رہا ہے۔پنجاب میں 30سال سے حکمران کشمیری لیڈروںکی زبان میں یہ مذاق کچھ یوں ہے:(1)ایک صوبائی لیڈر نے کہا کالا باغ ڈیم بننا چاہیے۔اس ڈیم کو نہ بنایا گیا تو پنجاب بنجر اور زراعت برباد ہو جائے گی۔(2)اسی تان پرایک وفاقی وزیر نے طرَح لگائی کہ کالا باغ ڈیم فوری طور پر بنادیا جائے۔(3)ایک تیسرا بھی پیچھے نہیں رہا بولا!میںکالا باغ ڈیم بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔یہ قوم کی ضرورت ہے۔ 
اس طرح کی خطیبانہ نوسر بازی دیکھ کے لوگوں کے ذہن میں قدرتی سوال اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ لیڈروں کے اس ٹولے کے مہاتما1977ء میں ضیاء الحق کے ساتھ ہی بر سر اقتدار آ گئے تھے۔کچھ نے کاروبار کو اقتدار کا ذریعہ بنایا‘کچھ دوسروں نے اقتدار کو کاروبار میں اضافے کا فارمولا جان لیا ۔یہ دونوں ٹولے تین عشروں سے زیادہ عرصہ سے پنجاب کے وسائل پر قابض ہیں۔جب ضیاء آمریت آئی یہ سارے پیر پگارا لیگ اور ائیر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال میں شامل ہوا کرتے تھے۔غیر جماعتی اسمبلی کے سنجوگ سے جو نیجو لیگ پیدا ہوئی تو تب اس کے فرزند ارجمند کا کردار ادا کرنے لگے۔مرحوم محمد خان جونیجو کی پیٹھ میں چھرا مارنے والے ن لیگی کہلائے ،تو یہی سیانے ن لیگ کے ٹرک پر چڑھ آئے۔بالکل ویسے ہی جیسے مشرف لیگ والے آج کل سرکاری کابینہ کے ٹرک کی سواری کے مزے لے رہے ہیں۔ن لیگ کی لیڈر شپ مفرور ہوئی تو یہی سب ''ہم خیال‘‘ پھر اکٹھے ہو گئے اور ق لیگ کا چولا پہن لیا۔آج پھر مفرور شیر اور معروف گھوڑے جمہوریت کی جس اصطبل کی گھاس اکٹھے چرتے ہیں وہ پھر اقتدار لیگ ہی ہے۔اتنے لمبے عرصے میں ان کو کس نے منع کیا تھا کہ وہ کالا باغ ڈیم نہ بنائیں۔کس نے ان کا ہاتھ پکڑے رکھاکہ وہ کالا باغ ڈیم کا ڈیزائن ترتیب نہ دیں۔کس نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا کہ وہ کالا باغ منصوبہ دوسرے سٹیک ہولڈرز کو نہ سمجھا ئیں۔کس نے ان کے پلاننگ کمیشن یا منصوبہ بندی کی وزارت کو روک لیا ہے کہ وہ اس ڈیم کی فیزی بیلٹی بنا کر قوم کے سامنے نہ رکھے۔ان سارے معصوم مگر عام سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔جو ان حکمرانوں کو چالیس ارب سے زیادہ کی رقم غائبانہ تندور اور سستی روٹی میں جھونکنے سے نہیں روک سکا وہ انہیں کالا باغ ڈیم بنانے سے کیسے روک سکتا ہے؟
آئیے اب ایک اور اہم پہلو کی طرف جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے ان حکمرانوں کا ایجنڈا پاکستان کے پانی پانی کرتے عوام کو بالعموم اور پیاس سے نڈھال پنجاب کو بالخصوص سبز باغ دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں۔کالا باغ ڈیم تو سِرے سے ان کی ترجیحات والی فہرست میں شامل ہی نہیں ،جس میں پسندیدہ ڈشیں نوٹ کی گئی ہیں۔ چلتے چلتے یہ وضاحت بھی کر دیتا ہوں‘ پسندیدہ ڈش کو اچھی اردو میں ''من بھاتاکھا جا‘‘ اور پنجابی زبان میں ''کھابے‘‘ کہا جاتا ہے۔اسی لیے ہماری کھابے فروش اور کھابہ بردوش جمہوریت ''کھابہ پروجیکٹ‘‘ کے علاوہ کسی اور چیز کو ہاتھ لگانے کے لئے تیار نہیں۔پبلک ہیلتھ کا حال سب کے سامنے ہے۔ زچہ و بچہ کے زندگی بچانے کے ابتدائی آلات تک نہیں۔شرم و حیا کا اصلی مقام یہ ہے ایک ایک بسترپہ کئی کئی مائیںاور آٹھ آٹھ، دس دس بچے ایسے پڑے ہوتے ہیں جیسے اشرفُ المخلوقات نہیں بلکہ بے وُقعت مخلوق ہیں۔ 
دوسرے، انتہائی بنیادی مسئلہ تعلیم ہے۔ اب اس کو قدرت کا مذاق کہہ لیں یا بر سر اقتدار لوگوں کی سنگ دِلی۔ میٹرو کے ڈرائیوروں کی ماہانہ تنخواہ تیس ہزار ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہ پانچ سو سے تین ہزار تک اور سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہ چند ہزار۔ وہ بھی کہیں ہاں کہیں نہ کی صورت میں وصول ہوتی ہے ۔
آج کل وزیرِاعظم کے اعلان کردہ زرعی پیکیج کا بڑا چرچا ہے ،سرکاری کالم نگاروں میں بھی ۔کون نہیں جانتا اس پیکیج میں سب سے زیادہ پولٹری‘ مرغی انڈہ اور لائیو سٹاک یعنی دودھ سیکٹر کو نوازا گیا۔
آپ گلی میں کھڑے تو تلی زبان سے بات کرنے والے بچے سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتادے گا کہ پنجاب میںپولٹری اور دودھ پر کس کا قبضہ ہے۔یہ پیکیج ایسے ہی ہے جیسے کوئی خیرات کی رقم سامنے والے جیب سے نکال کر پینٹ کی پیچھے والی جیب میں ڈال دے۔سندھ کے ہاری ، کے پی کے مزارعے ، بلوچستان کے باغات اور پوٹھوہار کی لاکھوں کروڑوں ایکڑ بنجر زمینوں کے لئے زرعی پیکج میں سے گونگلو نکلا۔کسے معلوم نہیں ہم ایک زرعی ملک ہیں ،اور ہماری معیشت کی بنیاد زراعت ہی ہے۔ اگر کالا باغ پنجاب کے کشمیری لیڈروں کا نفسیاتی مسئلہ ہے تو اس کا نام بدل کر سبز باغ کر دیں۔ ارسا کے چیئر مین نے بھی کہہ دیا ہے کالا باغ ڈیم نہ بناتو ہماری داستان بربادی بن جائے گی ۔غریب عوام کا بنیادی مسئلہ ہے روٹی۔پانی کے بغیر نہ اناج پیدا ہو سکتا ہے ،نہ سبزی ،نہ عام پھل فروٹ۔پانی بجلی پیدا کرنے کا بڑا اور سستا وسیلہ بھی ہے ۔67سالوں میں پڑوسی ملکوں نے ہمارا پانی چھینا ،چوری کیا اور دھڑا دھڑ ڈیم بنائے۔حکمران اب بھی نہ جاگے تو نوجوان نسل کو جاگنا ہو گا ۔ملک ان کی مانت ہے ؎
سن لو مری ملت کے رضا کار جوانو
آزادی کا مل کے طلب گار جوانو
اجڑے ہوئے باغوں کی بہاروں کو پکارو
افلاک ِشہادت کے ستاروں کو پکارو
مقتل سے اٹھا لاؤ شہیدوں کے سروں کو
آواز دو آواز تباہ حال گھروں کو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں