کھلی سرکاری سفارتکاری کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے وزا رتِ خارجہ کے ایک ریٹائرڈ سیکرٹری کے ذریعے 2نمبر ٹریک والی المعروف''ٹریک ٹو‘‘ ڈپلومیسی شروع کی۔جس کے جواب میں بھارت نے عرصے بعد کشمیر کو پھر اپنا اٹوٹ انگ کہا‘ بھارت میں مقیم مسلم اقلیت کا گلا گھونٹا‘ کشمیریوں پر بے رحمانہ مظالم کے نئے پہاڑ توڑے اور ساتھ ہی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر عورتوں، بزرگوں اور بچوں کو خون میں نہلا دیا۔
اس سفارت کاری کی تیسری قسط سرگوشیاں تھیں ۔وہ سرگوشیاں جو بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور ہمارے وزیراعظم محمد نواز شریف کے درمیان دو مختلف ملکوں میں دو مرتبہ ہوئیں۔ میں ان سرگوشیوں کی بات نہیںکر رہا جس میں مودی ہاتھ ہلا ہلا کر نواز شریف کے کان میں کچھ ٹھوسنے کے انداز میں بول رہا ہے جبکہ نواز شریف ہمہ تن گوش نظر آتے ہیں۔میں ان سرگوشیوں کی بات کر رہا ہوں جس کی رپورٹنگ بھارتی اور مغربی میڈیا نے کی۔پہلے کٹھمنڈو اور پھر پیرس سے۔ کٹھمنڈو والی مودی نواز ملاقات کو دو گھنٹے طویل بتایا گیا ۔جبکہ پیرس ملاقات صرف دو منٹ میں نمٹ گئی۔نواز مودی تعلقات کا ایک چوتھا ''سٹاپ‘‘ بھی قابلِ ذکر ہے، جس میں ساڑھی ڈپلومیسی شروع ہوئی۔
شہرِاقتدارمیں ممتاز محل جیسی محلاتی اثرورسوخ رکھنے والی خواتین میں آج کل ایک خبر بڑی''ہاٹ نیوز‘‘کے طور پر چل رہی ہے جس کے مطابق اسلام آباد کے ایک با رسوخ گھرانے سے12لاکھ روپے کی مرصع شال بطورِ تحفہ بھجوائی گئی۔ آپ اس شال کو شال نہ سمجھیں بلکہ شاخِ زیتون سمجھ لیں۔یہ تو ہم سب جانتے ہیں زیتون کی شاخ کو ''سفید جھنڈی ‘‘کی جگہ لہرایا جاتا ہے،اور سفید جھنڈی لڑائی کے دوران شکست خوردہ فریق کا نشان ہوتاہے۔ اس لئے اس شاہی شال کو''شالِ زیتون ‘‘بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ شالِ زیتون جس مخملی گفٹ پیک میں بھجوائی گئی تھی وہ راوی کے مطابق اسی طرح پیک شدہ اس پیغام کے ساتھ گھر واپس لوٹ آئی کہ''ہمارے گھرانوں میں اتنی قیمتی شال نہیں پہنی جاتی‘‘۔
شہر اقتدار کی دوسری خبر یہ ہے کہ وزیرِاعظم ہائوس کی مہمان سشما سوراج کو ماسوائے گارڈ آف آنر کے وزیرِاعظم کے برابر پروٹوکول دیا گیا ہے، اس کے با وجود اس میٹنگ کا نہ کوئی ایجنڈا تھا اور نہ کوئی خاص تیاری؛ حالانکہ اس میٹنگ سے پاکستان دو مقاصد بڑی آسانی سے حاصل کر سکتا تھا۔
پہلا یہ کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری پاکستانی پرچم والی مزاحمتی تحریک کو سپورٹ کیا جاتا۔ اس کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہوتا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی فوراً بند کرے ۔
دوسر ا یہ کہ بھارت کی طرف سے پاکستانی دریاؤں پر بنائے گئے غیر قانونی اور نا جائز آبی ذخائرکا مقدمہ دہرانے کا موقع بھی ضائع کیا گیا۔ یادش بخیرجب ہمارے بابائے وزارتِ خارجہ نمبر ون ، سرتاج عزیز نے بھارت کو دیئے جانے والے ڈو زیئر پر بات کی تو سشما سوراج نے سرتاج عزیز کے بخئے اُدھیڑ دیئے۔
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس دورے کا پلڑا ہماری وزارتِ خارجہ کے بجائے سشما سوراج اور بھارت کے حق میں بھاری رہا۔ مثال کے طور پر اوفا معاہدے کی طرح حالیہ دورے میں بھی بھارت اپنے مطلب کے دو نکات منوانے میں کامیاب رہا۔پہلا نکتہ،ممبئی حملوں کے تناظر میں پاکستانی عدالت کے اندر چلنے والے مقدمے کا تھا۔جبکہ دوسرا نکتہ،دہشت گردی پر گفتگو کا۔بھارت بخوبی جانتا ہے وہ دہشت گردی کا شور مچا کے اپنی سرزمین پر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے بے بہا تشدد سے توجہ ہٹا سکے گا۔جبکہ ساتھ ساتھ عالمی طور پر اسے پاکستان کا میڈیا ٹرائل کرنے کا نادر موقع ہاتھ آ ئے گا۔
یہاں ایک بنیادی سوال اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ بھارت کی وزیر ِخارجہ سشما سوراج آخر پاکستان آئیں کیوں؟ اس کا عام فہم اور دیوار پر لکھا ہوا جواب یہ ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے بے آواز اقلیتی شہریوں پر ہونے والے مظالم اور تشدد کی لہر نے عالمی میڈیا میں بھارت کو لاجواب کر رکھا ہے۔اب وہ خفیہ دوستی کے اس منصوبے کی آڑ میں دنیا کی توجہ ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہواہے۔ورنہ کیسے مذاکرات اور کہاں کی دوستی؟ اگر آپ میڈیا یا سوشل میڈیا پر سرچ کریں تو آپ پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی بھارت جب بھی عالمی دباؤ میں آتا ہے وہ پاکستان کے حکمرانوں کو بیوقوف بنا کر مذاکرات میں گھیر لیتا ہے۔ پاکستانی قوم کو اس بات پر بھی خاصی شرمندگی ہے کہ ان کے وزیراعظم اور بابائے وزارتِ خارجہ سرتاج عزیز بھارت کی ایک وزیر کے سامنے جس طرح بچھ بچھ گئے‘ اس سے یوں لگتا ہے جیسے خدانخواستہ دولت کی لکشمی غریبوں کے استھان پر آ پڑی ہو۔
پاک بھارت اسلام آباد مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ بھی ایک شاہکار ہے۔جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پاؤں۔ وزارتِ خارجہ میں سیکرٹری خارجہ طارق فاطمی،سرتاج عزیز،وزیراعظم نواز شریف اور ان کے گھریلو ٹوٹکے دینے والے مشیر ایک ایسی ٹیم ہیں جس کا تیار کردہ ہر ریکارڈ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جانے کا حق دار ہے۔کیونکہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہوتا جس کی خارجہ پالیسی کے خدوخال (Contours) طے شدہ نہ ہوں۔ریاستی سطح پر جب بھی کسی ملک سے کوئی 'ایم او یو‘ یا معاہدہ کیا جائے تو اس کے لئے پہلے سے وضع کردہ فارمیٹ یا حدودوقیود سامنے رکھے جاتے ہیں۔دو متحارب قوموں کے درمیان ہونے والے معاہدے احتیاج مانگتے ہیں۔لیکن ہمارے سارے معاہدے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے والے معاہدوں جیسے ہیں یا خفیہ ایل این جی کے معاہدے جیسے۔آج اگر پاکستان میں کوئی مؤثر پارلیمنٹ موجود ہو تو پاک بھارت تعلقات اس میں زیر بحث آئیں۔ قوم کو پتا لگ سکے کہ اس کے اقتدار پر قابض گروہ ان کے اور آئندہ نسلوں کے مستقبل پر کیا فیصلے کرتے ہیںاور کیوں کرتے ہیں۔
قومیں شجاعت سے زندہ رہتی ہیں۔جرأت سے فیصلے کرتی ہیں اور ہمت سے چیلنج کا سامنا،لیکن اس کے لئے لیڈر شپ چاہیے جو یہ کہنے کی جرأت کرے:
کبھی اس بات کو سوچا ہے بھارت کے مہا پرشو
تمہارے ملک میں اِک داستاں ہم چھوڑ آئے ہیں
قدم بابر کے ،غوری کی سناں ، محمود کی ضربیں
ہزاروں بت کدوں کے درمیاں ہم چھوڑ آئے ہیں
جواہر لال نہرو کی چتا ہے آشنا اس سے
کہ یوپی میںغزلہائے رواں ہم چھوڑ آئے ہیں